اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مُنی بدنام ہوئی بالما تیرے لیئے۔۔۔ نذیر ڈھوکی

براڈ شیٹ کو ادا کی جانے والی رقم میں جس انداز سے عجلت کا مظاہرہ کیا کیا ہے اس نے چوری کا ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیا ہے کیونکہ بات صرف براڈشیٹ سے رقم کی ادائیگی نہیں ہے۔

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا قومی احتساب بیورو عرف نیب نے بدنامی مولنے میں منی کو ہزاروں میل پیچے چھوڑ دیا ہے ، براڈ شیٹ سکینڈل کا چرچا ابھی جاری تھا کہ نیب کی جانب سے انتہائی عجلت میں رقم کی ادائیگی  ایک معمہ بن گئی ہے کیونکہ نیب نے ٹیکس کی ادائیگی کو نظر انداز کیا جس کی وجہہ سے قومی خزانے کا 69 کروڑ روپیہ کا نقصان ہوا، اگر براڈ شیٹ اسکینڈل کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کمیشن کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔

براڈ شیٹ کے موسوی نے بھی یہ ہی بات کی ہے کہ ان سے کمشن مانگا جا رہا تھا ، ممکن ہے کہ کمیشن نہ ملنے کی وجہہ سے براڈ شیٹ کو رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی جس کی وجہہ سے براڈ شیٹ کو عدالت میں جانا پڑا تھا۔ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ عدالت کا فیصلہ آیا تو اس وقت پاکستان کے سفارت خانے کے اکاونٹس میں خطیر رقم موجود تھی جو بھی حیران کن بات ہے۔ براڈ شیٹ کا مالک کون ہے جنرل پرویزمشرف نے اس انتخاب کیوں کیا یہ سوال بھی تشنہ جواب ہے۔

برطانوی عدالت کے فیصلے بعد حکومت پاکستان اور نیب کا جو بیانیہ سامنے آیا اس کے مطابق براڈ شیٹ نے بیرون ملک چھپائی گئی دولت کی کوئی کھوج نہیں لگائی جبکہ براڈ شیٹ کے موسوی کا کہنا ہے کہ ہم نے حکومت پاکستان کو اطلاعات دی مگر کاروئی سے پہلے ان لوگوں نے پیسے پاکستان منتقل کردیئے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کیلیئے ہی ایمنسٹی اسکیم شروع کی گئی ان لوگوں میں عمران خان بھی شامل ہیں۔

موسوی کا کہنا ہے کہ نیب نے اس سے فراڈ اور جعلسازی کی اور نقلی براڈ شیٹ بنایا تھا ، دلچسپ بات یہ ہے کہ براڈ شیٹ سکینڈل میں شھزاد اکبر کا مشکوک کردار کرپشن کے تالاب میں تیرتی ہوئی مردہ مچھلی کی طرح نظر آ رہا ہے جو آج عمران نیازی حکومت کے داخلہ اور احتساب کے مشیر ہیں۔

براڈ شیٹ کو ادا کی جانے والی رقم میں جس انداز سے عجلت کا مظاہرہ کیا کیا ہے اس نے چوری کا ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیا ہے کیونکہ بات صرف براڈشیٹ سے رقم کی ادائیگی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ 67 کروڑ ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر پیسے کیوں اور کیسے دیئے گئے ؟ اس بلا ٹیکس رقم ادائیگی کمیشن کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتی ہے ، سوال یہ کہ کیا یہ رقم وزیر خزانہ حفیظ شیخ، وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور چیئرمین نیب سے وصول کی جائے گی ؟

ہونا تو یہ ہی چاہیئے کہ 69 کروڑ روپے عمران خان، حفیظ شیخ، جاوید اقبال اور شھزاد اکبر سے وصول کیئے جائیں، جبکہ براڈ شیٹ کو دی جانے والی رقم جنرل پرویزمشرف اور جنرل امجد کے ملکی اور بیرون ملک تمام اثاثے ضبط کیئے جائیں ۔ منی تو اپنے محبوب کی وجہہ سے بدنام ہوئی تھی ، مگر جنرل پرویزمشرف کی ایجاد نیب نے جو بدنامی کمائی ہے۔

اس پر ریٹائرڈ جج اور موجودہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کو دو راہے پر لاکڑ کھڑا کر دیا ہے ایک راستہ یہ ہے کہ وہ زبان کھولیں کہ نیب سیاسی انجنیئرنگ اور آغوا برائے تعاوان کا ادارہ ہے ، دوسرا راستہ کالک کی کھائی میں نہا کر کالک سے لت پت وجود سے زندہ رہنا ، نیب کی طرف سے قومی خزانے پر ڈاکا ڈالنے میں چیئرمین نیب کا سہولت کار بننا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی سر تا پاوں کالک میں ڈوبا شحص خود کو فرشتہ ثابت کرنے پر بضد ہو۔

یہ بھی پڑھیں:

لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی

نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی

 

%d bloggers like this: