مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرانے زمانے کے گمنام ذھین ٹیچر کی کہانی ۔۔۔گلزار احمد

میں ساتھ والے گھر گیا اور پڑوسی کو سمجھا کر سیڑھی لے آیا اور لگا دی۔ ایجوکیشن افسر سیڑھی کی طرف لپکا تو میں نے اسے رکنے کو کہا تاکہ میں پردے کا اعلان یعنی ھوکا دے لوں ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دیہاتی پرایمری سکول میں ہم تین ٹیچر تھے ایک دن دونوں ٹیچر میرے پاس آے کہنے لگے جناب ہیڈماسٹر صاحب ایک ماہ سےکوئی اچھا کھانا ثوبت وغیرہ نہیں کھائی تنخواہ بہت قلیل ھے کچھ انتظام کرو۔ میں نے کہا کچھ کرتے ہیں اور دوسرے دن ایجوکیشن افسر کے پاس شھر دفتر پہنچا اور اسے بتایا سکول کی چھت بڑی خراب ھے لپائی کرانی ھے کچھ رقم دیں ۔
ایجوکیشن افسر نے اس شرط پر تین ھزار روپے دے دئے کہ وہ خود آ کر لپائی کا معائنہ کریں گے ۔ میں واپس آگیا اور ہر ہفتے ثوبت کھانے کا پروگرام چلنے لگا۔ ایک دن صبح صبح ایجوکیشن افسر سکول آ دھمکا اور کہا میں چھت کی لپائی کا معاینہ کرتا ھوں ۔ہمارے تو ہاتھ پاوں پھول گئے۔خیر میں نے کہا آپ تشریف رکھیں میں پڑوسیوں سے سیڑھی لاتا ھوں تاکہ آپ چڑھ کر چھت دیکھ سکیں۔
میں ساتھ والے گھر گیا اور پڑوسی کو سمجھا کر سیڑھی لے آیا اور لگا دی۔ ایجوکیشن افسر سیڑھی کی طرف لپکا تو میں نے اسے رکنے کو کہا تاکہ میں پردے کا اعلان یعنی ھوکا دے لوں ۔
اب میں نے تھوڑا اوپر چڑھ کر آواز دی۔۔۔”پڑدے آلے پڑدا کرو۔۔چاڑا چھت تے چڑدا۔۔ ابھی دوسری باری اعلان جاری تھا کہ پڑوسی نے سکول کی باونڈری وال سے سر نکال کے کہا۔۔۔” او ماسٹرو ۔خدا تہاڈا تختہ کڈے پہلے پورہ ہفتہ ساڈیاں ذالیں پڑدہ کر کے بیٹھیاں ریہن جو تہاڈی چھت دی لپائی نای ختم تھیندی اج ساڈیاں ذالیاں کپڑے دھوون شروع کیتا تاں وت تہاڈی چھت تے کم شروع تھی گئے۔ تہاکوں شرم تے حیا نیں آندی او راجوڑا ماسٹر تو ہر ویلے موری مچھی آلا منہ کھول کے ھوکا ڈیندا رہندا ھیں کجھ بالاں کو پڑھا وی ڈتا کر….
“بس اس بات کا سننا تھا کہ ایجوکیشن افسر نے موٹر سائیکل پر کک ماری اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ ثوبت کے اگلے کھانے میں پڑوسی بھی ہمارے ساتھ بیٹھا تھا۔..
استاد پھر استاد ہوتا ہے۔

سچی خوشیاں ۔۔

سن ساٹھ کی دہائی میں ڈیرہ اسمعیل خان میں جنوری کے مہینے نہریں بند ہو جاتیں اور بھل صفائی کا کام ہوتا۔ یہ مہینہ نہریں بند کرنے کے لیےاس لیے چنا جاتا کہ جنوری میں بہت بارشیں ہوتیں اور فصلوں کو قدرتی پانی ملتا نہروں کی بندش کا نقصان نہ ہوتا ۔جیسے آجکل بارش کے آنے کے لئے دیگیں پکائی جاتی ہیں اسی طرح شدید اور مسلسل بارشوں کو روکنے کے دیگیں پکا کر خیرات ھوتی تھی۔
گلیاں کچی تھیں مگر خوشیاں سچی تھیں ۔ کچھ بچے ٹوکرے کے نیچے دانہ ڈال کر رسی پکڑ کر چھپ کے بیٹھ جاتے اور چڑیاں پکڑتے اور رنگ لگا کر چھوڑ دیتے۔ اس دن کھیل کود کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے حلوہ۔ساگ۔مکھن۔مکئ کی روٹی تیار ھوتی اور آجکل جو پیزے بنتے ہیں اس سے سو گنا لذیذ اور نیوٹریشن سے پُر ھوتی۔۔ اب سب کچھ ملاوٹ ھے خوشیاں بھی مصنوعی ہیں۔

%d bloggers like this: