مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظام و روایات اور انتقالِ اقتدار۔۔۔ رسول بخش رئیس

مقابلہ تو کانٹے دار تھا‘ ٹرمپ نے چار سال پہلے کی نسبت اس مرتبہ زیادہ ووٹ لئے‘ مگر کیا کریں صدر جو بائیڈن نے ان سے نوے لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ ٹرمپ امریکی تاریخ میں ایک مضبوط‘ منفی ہی سہی‘ حوالہ بن چکے ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی ریاست میں کوئی نظام بطورِ خود مکمل‘ تمام اور بہترین نمونہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی نظام تو آئین‘ قوانین‘ ریاستی اداروں اور ان کے مابین طاقت کے توازن سے ترتیب پاتا ہے۔ مغربی ممالک میں‘ یورپ سے لے کر شمالی اور جنوبی امریکہ تک‘ اس وقت کئی جمہوری ممالک ہیں‘ مگر ہر ایک کا نظام منفرد ہے۔ اگرچہ جمہوری نظام کے بنیادی اصول اور فلسفہ‘ دونوں اب عالمگیر قبولیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے بارے میں اتفاق رائے موجود ہے‘ مگر نظام کو عملی شکل دینا‘ اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم‘ چنائو کا طریق کار اور حکومت چلانا کس کی ذمہ داری ہو گی‘ اس کے بارے میں ہر ملک نے اپنے سیاسی پس منظر‘ تاریخ اور طاقت ور طبقات کے مفادات کے پیشِ نظر الگ انداز اپنایا ہے۔
امریکہ کی آزادی اور اس کے متحد ہونے سے پہلے تیرہ آزاد اور خود مختار ریاستیں تھیں۔ آزادی کی جنگ سب نے انگریز حکومت کے خلاف مل کر لڑی‘ اعلانِ آزادی پر سب کے دستخط ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے اور ساتھ ہی مرنے کے عہد و پیمان باندھے گئے۔ پہلے بارہ سال تو نیم وفاقی نظام قائم رکھا گیا اور مرکزی حکومت اور اس کے کلیدی ادارے اٹھانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ہر ریاست کو اپنا سکہ چلانے‘ اپنی حکومت بنانے‘ اپنی مقننہ اور عدلیہ ترتیب دینے اور انفرادی طور پر تجارت کا حق تھا۔ یہاں صرف تاریخی حوالہ دینا مقصود ہے کہ مشترکہ مفادات‘ جن میں سلامتی‘ امن‘ معاشرتی استحکام اور اقتصادی ترقی نمایاں تھے‘ نے ایک نیا عمرانی معاہدہ طے کرنے کی تحریک پیدا کی۔ آئین بنانے اور اس کی تائید اور تردید میں عالمانہ بحث و تمحیص کئی ماہ رہی۔ ان دستاویزات کو فیڈرل پیپرز کہا جاتا ہے‘ جنہیں سیاسیات کا ہر طالب علم پڑھنا فرض سمجھتا ہے۔
امریکہ کے بانی تاریخ‘ فلسفہ‘ قانون اور سماجی علوم کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ جو کچھ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں نئی کتابوں‘ رسالوں اور مقالات کی صورت میں شائع ہوتا‘ وہ نئی دنیا میں دستیاب ہوتا۔ ذاتی کتب خانوں کی روایت تھی اور علمی مکالموں کی بھی۔ جن تیرہ ریاستوں کی بات کر رہا ہوں‘ ہر ایک میں انتخابات ہوتے‘ آئین تھا‘ اور تمام ریاستی ادارے مقامی حکومتوں سے لے کر ریاستی سطح تک‘ پختہ اساس رکھتے تھے۔
آج بھی ہر ریاست کا اپنا آئین اور جھنڈا اسی روایت کا حصہ ہے۔ انگریزی غلبے کی علامات میں قانون سازی میں برطانوی پارلیمان کی فوقیت‘ اس کی افواج اور گورنر کی تقرری وغیرہ شامل تھیں۔ آباد کار برطانیہ کو ماں کا سا درجہ دیتے تھے اور اس کے تحفظ کے سائے میں انہوں نے اپنے مغربی اور آبائی باشندوں کا مقابلہ کیا تھا‘ مگر اٹھارہویں صدی کے وسط میں آباد کاروں میں امریکی شناخت کا رجحان ابھرا‘ برطانوی ٹیکس بوجھ محسوس ہونے لگے اور برطانیہ کی پارلیمان میں نمائندگی کا مطالبہ بھی مذاکرات کی میز پر رہا۔
جذبۂ آزادی ایک طوفان کی مانند اٹھا اور اس نے آباد کاروں کے جذبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سترہ سو چھہتر میں ”اعلانِ آزادی‘‘ جو فلسفۂ آزادی اور قومیت کا بہترین بیان خیال کیا جاتا ہے‘ امریکیوں کے لہو کو گرم کرنے لگا۔ آزادی اعلانوں سے نہیں‘ میدانوں میں اترنے سے ملتی ہے‘ کئی سالوں کی مسلح جدوجہد رنگ لائی اور برطانیہ نے آزادی سے سمجھوتہ کرکے شمال کی راہ لی۔
بات تو آئین اور نظام کی ہو رہی تھی‘ لیکن یہ تاریخی حوالے ضروری خیال کرتا ہوں تاکہ بیس جنوری کو جو پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا‘ اور جس شائستگی اور وقار کے ساتھ سب کچھ دنیا نے ہوتے دیکھا‘ اس سے جمہوری روایات اور آئین کی طاقت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ تقریباً دو سو پچاس سالہ تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا کہ ہارنے والا صدارتی امیدوار نتائج ماننے سے انکار کر دے۔ میرے نزدیک اینڈریو جیکسن کے ساتھ دھاندلی ہوئی تھی۔
یہ اٹھارہ سو اٹھائیس کے انتخابات تھے۔ دونوں صدارتی امیدواروں کے الیکٹورل ووٹ برابر تھے۔ ایسی صورت میں فیصلہ کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں موجود ریاستوں کے نمائندوں نے کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ووٹ غلط ڈالے گئے‘ بلکہ ان کے مقابل صدارتی امیدوار اور سپیکر میں گٹھ جوڑ تھا۔ سپیکر غیر جانب دار نہ رہا‘ اور انعام کے طور پر انہیں سیکرٹری آف سٹیٹ کا عہدہ دیا گیا۔ اینڈریو جیکسن فوجی جرنیل اور قومی ہیرو تھا۔ وہ اگلے چار سال تک آندھی اور طوفان کی مانند عوام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ چکر لگاتا رہا‘ اور انہیں محلاتی سازشیں کرنے والے سیاست دانوں کے خلاف اکساتا رہا۔ وہ دنیا کی تاریخ میں عوامی سیاست کرنے والا پہلا سیاست دان مانا جاتا ہے۔
میرا قیاس یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی ناکام ہو گئی تو وہ اینڈریو جیکسن کی سیاست کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیانیہ کہ ”دھاندلی‘‘ ہوئی ہے‘ سوائے ان کے سیاسی عقیدت مندوں کے ان کی اپنی پارٹی میں بھی جائز تسلیم نہیں کیا گیا۔ سچ کہتے ہیں‘ سیاست کی اخلاقیات پیشِ نظر مفادات سے بنتی اور سنورتی ہیں۔
مقابلہ تو کانٹے دار تھا‘ ٹرمپ نے چار سال پہلے کی نسبت اس مرتبہ زیادہ ووٹ لئے‘ مگر کیا کریں صدر جو بائیڈن نے ان سے نوے لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ ٹرمپ امریکی تاریخ میں ایک مضبوط‘ منفی ہی سہی‘ حوالہ بن چکے ہیں۔
ہار ابھی تک تسلیم نہیں کی‘ ساٹھ مختلف عدالتوں میں اور مختلف ریاستوں میں انتخابات کے نتائج رکوانے اور ووٹوں کی چھانٹی کرانے میں جُتے رہے۔ سب ہار گئے۔ وہی وفاقی عدالتوں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان تھے‘ جنہیں صدر ٹرمپ نے عہدوں پر لگایا تھا‘ مگر انہوں نے آئین ‘ نظام اور قانون کا ساتھ دیا۔ مہذب معاشروں میں انسان قانون کا ساتھ دیتا ہے۔ وفاداری آئین کے ساتھ ہوتی ہے‘ اور نظام سے بغاوت نہیں کرتا۔
ذاتی وفاداریاں‘ ہماری طرح مغرب میں بھی معاشرتی رویوں کا حصہ ہیں۔ ہماری طرح امریکہ میں بھی سیاسی تقسیم گہری ہو چکی ہے‘ جسے ہوا دینے میں صدر ٹرمپ نے ایوان صدر کی طاقت اور اپنی قدامت پسند حلقوں میں مقبولیت کو استعمال کیا۔ اس سلسلے میں ان کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ‘ٹویٹر‘ نے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے
ملک کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے گئے‘ لیکن آخر کار امریکہ جیت گیا‘ جمہوریت نے انہیں شکست دی۔
پتہ نہیں ٹرمپ کس موج میں تھے کہ اپنے حمایتیوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی‘ خطاب کیا اور انہیں اکسایا کہ کانگریس کی عمارت پر‘ جہاں اراکینِ کانگریس الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کر رہے ہیں‘ ہلہ بول دیں۔ یہ مقامی آبادیوں میں سے بھی تھے لیکن ان میں سے سینکڑوں دور دراز کی ریاستوں سے سفر کر کے آئے تھے۔
چھ جنوری امریکہ کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔ اس روز حملے میں پانچ لوگ‘ جن میں مظاہرین بھی تھے‘ مارے گئے۔ یہ کارروائی منظم طور پر کی گئی تھی۔ اس جتھے کے کرتا دھرتا سفید فام نسل پرستوں میں انتہا پسند گروہوں کے نمائندے تھے۔ مقصد انتشار پھیلانا‘ خوف کی فضا پیدا کرنا تھا۔ ٹرمپ اور ان کے انتہا پسند حمایتیوں کو توقع تھی کہ نائب صدر مائیک پینس آئین کو چھوڑ کر انتخابات کو متنازع بنانے کے لئے ان کا ساتھ دیں گے۔
ایسا انہوں نے نہ کیا‘ اور اگر کرتے بھی تو اس کی زیادہ اہمیت نہ ہوتی۔ صدیوں سے جاری انتقالِ اقتدار کا طریقہ کار برقرار رہا‘ کوئی تعطل پیدا نہ کر سکا۔ نظام کو روایات مضبوط کرتی ہیں‘ وہ مضبوط ہوں تو نظام کو کوئی بھی نہیں گرا سکتا۔ ہمارے ہاں تو شفاف انتخابات کو صرف وہی جماعت مانتی ہے‘ جو حکومت بناتی ہے۔ اس نظام میں ہار جائیں تو دھاندلی‘ جیت جائیں تو انتخابات آزادانہ اور منصفانہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ اپنے سیاست بازوں کی چال بازیوں اور گمراہ کن بیانیوں سے ملک تھک چکا ہے۔ آخر کب تک ہم انہیں انتشار اور بے چینی پھیلانے کی مہلت دیتے رہیں گے؟

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: