مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کی سالگرہ۔۔۔گلزار احمد

تمام سٹاف دن رات ایک کر کے سٹیشن کو ٹیک آف پوزیشن میں لے آیا اور جونہی نشریات شروع ہوئیں ڈیرہ کے ارد گرد اسی کلومیٹر کے ایریا میں پروگراموں نے دھوم مچا دی۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کی سالگرہ 15 جنوری کو منائی گئی ۔
گزشتہ روز سٹیشن ڈائرکٹر الطاف احمد شاہ نے کئی سالوں کے وقفے کے بعد ریڈیو کی سالگرہ کی تقریب منعقد کر ڈالی جو ہر لحاظ سے ایک کامیاب تقریب تھی جس کے لیے وہ مباکباد باد کے مستحق ہیں۔ ریڈیو کی تقریب کو دیکھ کر ماضی کی یادیں ذھن میں ایک فلم کی طرح گھومنے لگیں ۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جب ہم شعور میں آۓ تو شھر ایک پوری تہذیب اور ثقافت کے رنگوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔ ڈیرہ ٹاون ہال ہمارے لئے بیک وقت ایک پارک۔کھیل کا میدان ۔لائیبریری۔پریس کلب اور تھیٹر تھا۔ اس ھال میں ڈیرہ کے فنکار ڈرامے کرتے۔مداری تماشا دکھاتے۔ گلوکار نغمے سناتے اور جُھومر ڈانس ھوتا۔۔جرگے ھوتے۔ قرات کے مقابلے ھوتے ۔ عید نماز ھوتی۔ ھال کے اردگرد باھر ٹینس اور باڈی بلڈنگ ہوتی ایک طرف فٹبال جاری رھتی۔ کئ جوان بیڈ منٹن کا نیٹ لگاتے ۔
غرض ہر عمر کے بندے کے لئے کوئی نہ کوئی سرگرمی نظر آتی ۔لائبریری میں نایاب کتابیں موجود تھیں اور باقائدگی سے طالب علم لے جاتے۔ ایک لمبے میز پر تمام اخبارات رکھے ہوتے اور اردگرد دو درجن کرسیاں اخبار بینوں سے پُر ھوتیں۔ پریس کلب میں بڑے لوگ آتے اور صحافیوں کی تربیتی کورس بھی منعقد ہوتے۔ ادھر سرسید ڈیرہ نواب اللہ نواز خان نےگومل یونیورسٹی میں سارے پاکستان سے سکالر اکٹھے کئے اور ایک گیلیکسی بنادی ۔
ابتداء میں جن لوگوں نے یونیورسٹی شروع کی وہ پاکستان کی کریم تھی جو نواب صاحب ہیروں کی کان سے نکال کے لاۓ تھے۔ نواب صاحب خود برطانیہ سے اعلی تعلیم یافتہ اور بے پناہ تجربہ رکھتے تھے. ایسے ماحول میں ریڈیو سٹیشن کی کمی محسوس ہو رہی تھی جس میں فنکار اپنے فن کو نکھار سکیں۔یونیورسٹی کے سات سال بعد ریڈیو پاکستان ڈیرہ قائم ھوا تو وہاں مقامی ثقافت کے رنگ کھلنے لگے۔ اس سے پہلے حاجی علیم اکبر صاحب۔ یامین سید صاحب۔پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید صاحب ۔عزیزاللہ اعوان صاحب میر واعظ صاحب ڈیرہ آرٹ کونسل چلا رھے تھے جو فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور عوام میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے کے لئے پروگرام کرتے۔ حلقہ ادب ثقافت ہمارے دوست اور صحافی لطیف الرحمان صاحب بڑی عمدگی سے چلا رھے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں کے بھت سے حلقے تھے۔ دریا سندھ کا کنارہ ڈیرہ کے ثقافت کا امین رہا ھے۔ چھاونی کے اندر جانے کی چار سڑکیں کھلی تھیں اور لوگ آزادی سے دریا کے کنارے پہچتے۔ مڈوے ھوٹل ۔
انڈس ھوٹل پر ہجوم ھوتا ۔طالب علم اور پروفیسر اکٹھے بیٹھ کے چاۓ کی میز پر علمی بحثیں کرتے۔۔ 15 جنوری 1981 کو اس وقت کے KPK کے گورنر لیفٹنٹ جنرل فضل حق مرحوم نے ریڈیو ڈیرہ کا افتتاح کیا۔افتتاح سے چار مہینے پہلے ہی اس وقت کے DG ریڈیو پاکستان قاضی سعید احمد نے سٹیشن پر نہایت تجربہ کار عملہ تعینات کر دیا تھا تاکہ جب نشریات شروع ہوں تو کوئ خامی نہ رھے۔ سٹیشن ڈائرکٹر یعقوب بنگش آۓ جو ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔
پروگرام سیکشن کو عمر ناصر۔عرفان اللہ عرفان ۔اور عطاءالاکبر جیسے منجھے ہوۓ پروڈیوسر ملے۔نیوز سیکشن کو اسلام آباد سے خالد محمود اور گلزار احمد نے چلایا۔ انجنیرنگ سیکشن کے ہیڈ ذولفقار احمد تھے جبکہ امان اللہ خان۔افتخار شاہ۔محمد سلیم ۔محمد یار بھٹی۔جمشید صاحب۔علی جان۔شھزادہ امتیاز۔۔ محمد علی اظہر جیسے انجینیر موجود تھے۔ اکاٶنٹ سیکشن کو کو نذیر صاحب۔ اسلم مروت صاحب اور ایڈمن کو ملازم حسین اور سعید احمد نے آباد کیا۔
تمام سٹاف دن رات ایک کر کے سٹیشن کو ٹیک آف پوزیشن میں لے آیا اور جونہی نشریات شروع ہوئیں ڈیرہ کے ارد گرد اسی کلومیٹر کے ایریا میں پروگراموں نے دھوم مچا دی۔نشریات تین زبانوں میں تھی۔اردو سیکشن کو عمر ناصر۔سرائیکی کو عطاء الاکبر اور پشتو کو عرفان اللہ عرفان چلا رھے تھے۔نیوز بلیٹن بھی انہی تینوں زبانوں میں روزانہ نشر ھوتے تھے۔روزانہ ایک گھنٹہ پروگرام میٹنگ ھوتی اور پروگرام کو بہتر بنانے کے موقع پر فوری فیصلے ھوتے۔
ہر پروگرام کے لئےدرجنوں خطوط اور ٹیلیفون کال روزانہ موصول ھو رہی تھیں جن کی روشنی میں سامعین کی آرا بھی پروگراموں میں شامل کی جاتیں۔ ان چالیس سالوں میں ضلع میں دو تین سیلاب آۓ۔دھشت گردی ہوئ۔ IDPs یعنی دھشت گردی سے لوگ بے گھر ہوۓ کرونا وائرس کا حملہ ہوا تو ریڈیو قوم کے شانہ بشانہ کھڑا رہا اور حوصلہ دیتا رہا۔ زراعت۔تعلیم۔صحت کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کی۔ ڈیرہ کے لوگ سرائیکی اور پشتو بولتے تو تھے مگر لکھنا نہیں آتا تھا ریڈیو ڈیرہ نے اکیڈیمی کا کردار ادا کیا اور انہیں لکھنا سکھایا۔ سب سے بڑھ کر یہ بات ہوئ کہ پاکستان کے بہترین براڈکاسٹرز نے یہاں خدمات سرانجام دیں اور یہاں کے ادب وثقافت کو فروغ ملا۔
ان لوگوں میں ۔یعقوب بنگش ۔ عمر ناصر۔حمداللہ جان بسمل۔ملک عزیزالرحمان۔ظفر خان نیازی ۔امداد علی خواجہ۔اسلم جدون۔ فیاض بلوچ۔عارف اللہ ۔اکرم شاد۔الطاف شاہ۔نجم الحسن۔لیاقت سیماب۔سردار علی۔ قاضی مظفرحسین۔ اور خالد اقبال شامل ہیں ۔اس عرصے کے دوران کئ نئے سنگر ۔شاعر۔رائٹر۔ادیب۔ڈرامہ آرٹسٹ۔کمپیر۔نیوز ریڈراور قاری تربیت پاکر اعلی مقام تک پہنچے۔پروفیسر غلام فرید۔پرفیسر نزیر اشک ۔ڈاکٹر شاہ جہان بلوچ۔فاروق احمد جان آذاد ۔وسدیاں جھوکاں کے اعجاز قریشی ۔قیوم نواز۔ ان کے ساتھ ساتھ شوکت علی جان۔ بہرام ساحل۔ سعیداللہ مروت۔ حاجی علیم اکبر ۔قیوم نواز آواز۔۔تسلیم فیروز۔سلیم شھزاد مرحوم ۔نیر سرحدی۔کنول بخاری۔آمنہ سید ۔نیازحسین زیدی۔محمد خالد۔جلیل بلوچ۔ پشتو پروگرام کے محمد طارق ۔ فرید اور ثنا اللہ شمیم ایڈو کیٹ خدمت کرتے رہے ۔چالیس سالوں میں ریڈیو کی نئ عمارت بنی۔ٹرانسمیٹر کی پاور دس سے بڑھا کر سو کر دی گئ اور قران کا ایف ایم چینل کُھلا۔۔۔
حیران کن بات یہ ھے کہ آج ریڈیو پاکستان کا قومی ادارہ جو آزادی سے پہلے قائم ھوا مشکل ترین دور سے گزر رہا ھے۔ اس ادارے کو تباہ کرنے کی ذمہ داری انہیں حکمرانوں پر آتی ھے جنہوں نے PIA۔۔سٹیل ملز اور دوسرے کئی ادارے برباد کر ڈالے۔۔ ہمارے شھر میں نیشنل سنٹر تھا اور وہ یہاں کے لوگوں کے علم وثقافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔اس کو پورے ملک میں بند کر دیا گیا اور ہم ایک علمی و ثقافتی ورثے سے محروم ھو گئے۔۔۔یہاں پر PID کا بہت پرانا دفتر بند کیا گیا ۔ ڈیرہ کی تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ حکومت ہمارے ثقافتی ورثوں کو محفوظ کرنے پر توجہ دے۔

%d bloggers like this: