اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انگریز تاریخ دان اور ڈیرہ اسماعیل خان۔۔۔عباس سیال

”ڈیرہ اسماعیل خان دریا ئے سندھ سے چند سو گز کے فاصلے پر کجھوروں کے ایک بہت بڑے جُھنڈ میں آباد ہے۔ اس شہر کے گرد کچی اینٹوں کی ایک شکستہ حال فصیل بھی دکھائی دیتی ہے۔1971 ء میں جب محکمہ آثار قدیمہ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے 22 کلو میٹر جنوب کی جانب کسی قدیم بستی کے آثار ملے تو وہاں کی باقیات کا پتہ چلانے کیلئے کھدائی کا آغاز کر دیا گیا ۔جیسے جیسے کھدائی گہری ہوتی گئی مٹی کی آغوش میں صدیوں سے سانسیں روکے بیٹھی انسانی تہذیب کے مٹیالے خدوخال نمودار ہونا شروع ہونے لگے ۔ 1976ء سے 1982ء تک کے درمیانی عرصے میں پورے زور و شور سے کھدائی کا کام جاری رہا،جس کے آخر میں ایک مستطیل شکل کی ٹیلہ نما بستی کا سراپا ابھر کر جدید دنیا کے سامنے آیا،جسے رحمان ڈھیری کا نام دیا گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق رحمان ڈھیری سے ملنے والی باقیات تقریباً چار سے چھ ہزار سال پرانی ہیں،جسے پری ہڑپن دور کہا جاتا ہے،جبکہ ہڑپہ کی تہذیب وادی سندھ میں 1700 سے 2600 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں پروان چڑھی تھی ۔یادوں کی اس ڈھیری میں مدفن تہذیب کو متفقہ طور پر دنیا میں تانبے کی سب سے پہلی ترقی یافتہ تہذیب کے علاوہ جنوبی ایشاء کی سب سے پہلی شہری آبادی کی باقیات کے طور پر بھی تسلیم کر لیا گیاہے ۔ اپنے اردگرد مٹی کی اینٹوں سے بنی ایک مضبوط فصیل کے اندر 22 ہیکٹرز کے وسیع رقبے پر مستطیلی شکل میں پھیلی یہ شہری بستی ایک اندازے کے مطابق اپنے وقتوں میں دس ہزار سے پندرہ ہزار جیتے جاگتے انسانوں کا مسکن ہوا کرتی تھی ۔بستی میں جگہ جگہ ابھرے بلندٹیلے اور ان ٹیلوں کے اردگرد ترتیب سے بنائی گئی گلیاں، ڈیرہ سے بنوں جاتے ہوئے بنوں روڈ سے صاف دکھائی دیتی ہیں ۔مٹی کی انیٹوں سے بنائی گئی حفاظتی چار دیواری،دیواروں پر کندہ کی گئی مختلف جانوروں مثلاً پہاڑی بکرے ، بچھو اور مینڈک کی تصاویر اور مخصوص فاصلے پربنائے گئے حفاظتی واچ ٹاور نما برج نمایاں ہیں ۔کھدائی کے دوران ملنے والے مختلف پتھر،اینٹیں اور مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن جن پر نقش و نگاراورآڑھی ترچھی لکیریں کھینچی ہوئی ملی ہیں۔گھریلو استعمال کی اشیاء کے علاوہ اس وقت کی زراعت کے آلات،گندم کے دانے اور پالتو جانوروں کی ہڈ یاں بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ سب نتائج اس بستی کی قدامت اور شاندار تاریخ کے ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے چپے چپے پر گمشدہ اور گزری تہذیبوں کے آثار وافر موجو د ہیں، جو اس خطے کی عظمت کی دلیل ہیں ان میں سے زیادہ تر کو غیر ملکیوں نے آکر دریافت کیا اور انگریزی میں کتابیں تحریر کیں۔آج بھی آسٹریلیا اور برطانیہ کی لائبریریا ں سرائیکی وسیب کے لٹریچر اور ریسرچ سے بھری پڑی ہیں،جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کسی بھی بڑ ی تہذ یب کے مقابلے میں ہماری تہذ یب بڑی زورآور ہے،لیکن افسوس کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان کو سامنے لائے۔ رحمان ڈھیری کو ہی لے لیجئے کہ جہاں اب ٹھیکریاں باقی بچی ہیں۔سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث جس کے جی میں آیا وہ یہاں سے نادر اشیاء نکال کر لے گیا۔کاش اس شہر کے صاحبان علم و ادب اپنے ”اوریجن“ کی طرف متوجہ ہو ں اور وقت کے حکمرانوں کے گوش گزار کریں کہ اس خطے کی تاریخی اہمیت کے سبب گومل یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپا رٹمنٹ کھولا جائے اور ا سکے ساتھ ہی ان سارے علاقوں کی دریافت شدہ باقیات کیلئے علیحدہ سے ایک میوزیم قائم کیا جائے۔رحمان ڈھیری، بھڑکی کا قبرستان کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے محفوظ بنایا جائے اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور آثار قدیمہ سے متعلقہ افراد خصوصاً طلباء کو اس خطے کی تاریخ سے آگاہی دی جائے۔

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک سہراب خان ہوت بلوچ کا بسایا شہر ڈیرہ،موجودہ شہر سے کوئی پانچ کلومیٹر کی دوری پر دریا کے عین کنارے آباد تھا۔ یہ شہر اگرچہ صدیوں تک اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم ر ہا لیکن افسوس کہ اس شہر کے متعلق یہاں کے باسیوں کا علم نہایت ہی محدود رہا،مگر ہندوستانی معاشرت، تہذیب و تمدن اور تاریخ پر بے تحاشہ کام کرنے والے انگریز سیاحوں،تاریخ دانوں اور محققین کی لکھی کتابوں میں کہیں کہیں اس شہر بے مثال کا تذ کرہ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔مثلاًاپنے دور کا مشہور تاریخ دان اور منتظم جناب ماؤنٹ ا سٹوورٹ الفسٹون جب1809 ء میں اس علاقے سے گزرا تو اس نے اپنے پورے سفر کو یاداشتوں کی پوٹلی میں گا نٹھیں لگاتے ہوئے،شہر ڈیرہ کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کیا۔

”ڈیرہ اسماعیل خان دریا ئے سندھ سے چند سو گز کے فاصلے پر کجھوروں کے ایک بہت بڑے جُھنڈ میں آباد ہے۔ اس شہر کے گرد کچی اینٹوں کی ایک شکستہ حال فصیل بھی دکھائی دیتی ہے۔ شہر کی زیادہ تر مقامی آبادی بلوچوں پر مشتمل ہے جبکہ کچھ ہندو اور افغانی بھی یہاں بستے ہیں۔ شہر کے اندر ہندوؤں کا ایک قدیم مندر بھی موجود ہے۔ڈیرہ شہر کے باہر دریا کے کناروں پر سرکنڈوں اور جنگلی گھاس کی بہتات نظر آتی ہے،جہاں پر نایاب نسل کے پاڑہ ہرن، کا لے تیتر، جنگلی سور اور تیندوے بکثر ت د کھائی دیتے ہیں۔ شہر ڈیرہ کے ارد گرد پانی کی بہتات کی وجہ سے اکثریتی آبادی کا زریعہ معاش کھیتی باڑی ہے،جبکہ یہاں پر کئی نسل کے کجھوروں کے درختوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے“۔

1823ء کے موسم گرما میں ٹھاٹھیں مارتے شیر دریا کی طوفانی موجوں نے ملک سہراب خان بلوچ کے بسائے صدیوں پرانے شہر ڈیرہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا تھا۔1820ء کی پوری دھائی پنجاپ کے علاقوں میں گزارنے اور شہر ڈیرہ کے متعلق معلومات اکٹھے کرنے والے  انگریز محقق چارلس میسن نے 1826ء کے موسم خزاں میں اپنی یاداشت قلم بند کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا۔

”کچھ سال ہوئے کہ دریائے سندھ اس بد نصیب شہر پر چڑھ دوڑا اور سیلابی ریلے نے ہنستے بستے شہر کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ تباہی کا یہ عالم تھا کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلے اس شہر کا نام و نشان تک باقی نہ بچا اور کوئی ایسی نشانی باقی نہ رہی جس سے پرانے شہر ڈیرہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہو سکتی۔ پرانے شہر کے گرد پھیلے کجھوروں کے لا تعداد باغات میں سے صرف تین چار درخت ہی باقی بچ پائے ہیں جو اپنے ارد گرد پھیلی تباہی کے درمیان نہایت ہی استقامت کے ساتھ سینہ تانے کھڑے دکھائی دیتے ہیں“۔

پرانے شہر کی غرق یابی کے بعد لکھی مل نے چوہدری تیج بھان نندوانی کے ساتھ مل کر ایک نئے عزم، حوصلے اوربہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہر کا نقشہ ڈیزائن کیا اور اس کے مطابق گلی محلوں کی تعمیر شروع کر دی گئی۔نئے شہر کے سارے محلے کچی اینٹوں اور چونے سے بنائے گئے۔شہر کے اندر بازاروں کو ترتیب دینے کے بعد مسلمان اکثریتی آبادی نے شمال میں جبکہ ہندو اقلیتی آبادی نے جنوبی حصے میں آبا د ہونے کو ترجیح دی۔ بھاٹیہ قوم کے ہندو جنوب مغربی جانب جبکہ اروڑوں اور کھتریوں نے جنوب مشرقی حصے میں اپنے محلے آباد کیے۔ہندوآبادی نے اپنے محلوں کے عین درمیان میں شری نگر مج جی کا مندر بھی تعمیر کیا،جس کے قریب ہی دیوان لکھی مل نے اپنی قلعہ نما حویلی تعمیر کروائی جس میں حفاظت کی غرض سے باقاعدہ مورچے بنائے گئے۔ نئے شہر کی ہر گلی میں تقریباً پینے کیلئے پانی کے کنوئیں کھدوائے گئے،اس کار خیر میں ہندو آبادی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔گلی محلوں میں شام کے وقت دیواروں میں بنے چراغ دانوں میں تیل کے دیے جلا کر روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ حفاظتی نقطہ نگاہ کے پیش نظر اکثر گلیاں ایک طرف سے بند ہوا کرتی تھیں، اس قسم کی گلیاں شہر بھر میں آج بھی کہیں نہ کہیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ چھوٹی گلیوں میں نکاسی آب کیلئے ایک نالی ہوتی جو بڑی گلی میں موجود بڑی نالی میں گرتی اور پھر بڑی نالیوں کو کنوؤں کے پانی سے صاف رکھا جاتا تھا،بہت سے لوگوں نے بعد میں اپنے اپنے گھروں کے اندر بھی کنویں کھدوا لیے۔

دریائے سندھ کے سینے پر گامزن کیپٹن برنس جب1837ء میں یہاں سے گزرا تو اس نے ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے میں لکھا:”پرانے شہر کی دریا بردی کے بعد نیا شہر باقاعدہ ترتیب اور منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی گلیاں کافی ہوادار اور بازار نہایت ہی کشادہ ہیں، شہر ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔اس شہر کے زیادہ تر گھر سورج کی تپش پر پکائی گئی اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔ جوشہر میں نے دیکھا ہے وہ کافی صاف ستھرا، کشادہ اور خوبصورت توہے مگر کم آبادی کے باعث یہ تقر یباً بے رونق سا نظر آتا ہے۔ مقامی آبادی کا کہناہے کہ جب سردیوں میں افغانستان سے خراسانی پوندے اس شہر کے تاریخی تجارتی راستے سے گزرتے ہیں توشہر بھر میں رونق ہوجاتی ہے۔ ڈیرہ شہر میں پوندہ تاجروں کیلئے ایک سرائے بھی بنائی گئی ہے جہاں پر وہ قیام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا مال بھی فروخت کرتے ہیں،جس کے باعث موسم سرما میں یہاں ہر قسم کا کابلی میوہ اور خراسانی گھی عام دستیاب ہوتا ہے۔ اس وقت شہر کے بازار میں پانچ سو آٹھ تجارتی دکانیں ہیں۔ غرض اس طرح نیا ڈیرہ آہستہ آہستہ آباد ہونا تو شروع ہو گیالیکن سیاسی ہلچل کی وجہ سے ترقی کا کام سست روی کا شکار رہا۔ یہ وہی دور تھا جب سدوذئی خاندان اپنی سیاسی افادیت کھوچکا تھا،اگرچہ شیر محمد خان سدوزئی ڈیرے کا حکمران تھا مگر اس کی گرفت انتظامی امور پر نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک طرف اُسے والئی ٹانک(سرور خان کٹی خیل) کی بغاوتوں کا سامنا تھا تو دوسری طرف پوندہ تاجر اس کیلئے دردِسر بنے ہوئے تھے،جبکہ دریائے سندھ کے پار مشرقی کونے کے ڈیرے پر سکھ پہلے سے ہی قابض ہو چکے تھے۔ان مشکلات سے نبرد آذما  ہونے کی بجائے شیر محمد خان کا زیادہ تر وقت عیش و عشرت، شکار یا پھر آرام کرنے میں ہی گزرتا تھا۔ آخرکار اس تن آسان نواب نے ذمہ داریوں سے راہ فرار کرتے ہوئے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور سکھوں کو دعوت دی کہ وہ آ کر شہر کا انتظام سنبھال لیں، چنانچہ1836ء میں سردار نونہال سنگھ نے ڈیرہ میں آکر یہاں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس کا سب سے پہلا کام قلعہ اکال گڑھ کو تعمیر کروانا تھا۔اس نے نواب ڈیرہ کے دیوان لکھی مل کو اس سارے علاقے کا کاردار مقرر کیا اور ساتھ ہی سدوذئی نوابوں کی فوج کو بھی آہستہ آہستہ ختم کردیا۔ سکھا شاہی دور ڈیرہ کے ہندوؤ ں کیلئے کافی سود مند ثابت ہوا کیونکہ جہاں ایک طرف سدوذئی دور میں ان پر لاگوجزیہ اور دیگر ٹیکسز سے جان چھوٹی وہیں سکھوں کے زیر کنٹرول آتے ہی قبائلیوں کی طرف سے لاحق خطرات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ دیوان لکھی مل اپنی وفات تک ڈیرہ کا کارداررہا،اسی کی وفات کے بعداسکا بیٹا دولت رائے کاردار مقر ہوا۔دولت رائے کے ملتانی پٹھانوں کے ساتھ تعلقات کافی دوستانہ تھے مگر فتح خان ٹوانہ اور انگریز افسروں سے ٹکراؤ کے باعث اس کا دو ر کافی کٹھن ثابت ہوا۔ انگریز وں کی حریص نظریں چونکہ پورے ہندوستاں پر جمی ہوئی تھیں اسی لئے ہندوستانی نوابوں اور حکمرانوں کے ساتھ وفاداریاں تبدیل کرنا انکی پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ کبھی وہ فتح خان ٹوانہ کے ساتھ ہوتے تو کبھی سکھوں کا ساتھ دیتے مگر ایک چیز جس کے ساتھ وہ ہمیشہ وفادار رہے وہ تھا”ہندوستان پر ہمیشہ تسلط جاری رکھنے کا عزم اور اس عزم کی تکمیل کیلئے پھوٹ ڈالو، تقسیم کرو اور اپنی حکمرانی جاری رکھو“۔اس دور کے انگریز افسران سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اپنے زیر انتظام علاقوں کے متعلق اُنکا علم مقامی لوگوں سے بھی زیادہ تھا،اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے کے جغرافیے، موسم، یہاں تک کہ وہاں کی نباتات،چرند پرند، زراعت و تجارت غرضیکہ ہر چیز کے متعلق انکا علم قابل رشک تھا۔ ایسا ہی ایک گورا افسر ہربر ٹ ایڈورڈ بھی تھا جسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انتہائی سخت گھمنڈی مگر جوڑ توڑ کا ماہر شخص ہے۔اس نے ڈیرہ کے پٹھان، بلوچ اور گنڈہ پور قبائل سمیت ڈیرہ جات سے سکھوں کے خلاف مسلمان فوجیوں کا ایک لشکرترتیب دیکر ملتان پر چڑھائی کردی اور ملتان پر برٹش راج قائم ہوتے ہی سکھوں کو وہاں سے بیدخل کر دیا۔ہربرٹ ایڈورڈ جب پہلی دفعہ1847ء  میں ڈیرہ آیا تو اس نے شہر کے بارے میں لکھا:

”ڈیرہ اسماعیل خان مناسب آبادی کا شہر ہے۔اس کی زیادہ تر عمارتیں کچی اینٹوں کی بنی ہوئی ہیں، اس کے ارد گرد شہر پناہ ہے، جس کی اونچائی تقریباً دس فٹ ہے۔شہر کی گلیاں ہندوستان کے دوسرے شہروں کی نسبت کافی چوڑی اور کشادہ ہیں۔یہاں گھروں کے اندر درخت لگانے کا رواج عام ہے۔ شہر میں رونق صرف سردیوں کے دوران ہوتی ہے جب خراسانی پوندہ تاجریہاں سے گزر کر ہندوستان کا رخ کرتے ہیں۔ اس شہر کو اپنی آبادی کے لحاظ سے کافی بڑا بنایا گیا ہے، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سردیوں میں آنے والے تجارتی قافلوں کیلئے شہر میں قیام کیلئے آسانی ہو۔ میں یہاں گرمیوں میں جب آیا تو ا سوقت یہ شہر کم آبادی کے باعث مجھے ویران ویران سا لگا“۔

نواب ڈیرہ کے بارے میں وہ لکھتاہے کہ ”یہاں کا حکمران شیر محمد خان ایک بوڑھا آدمی ہے، وہ تاؤ کا دائمی مریض ہے (اس مرض میں مبتلا انسان بہت زیادہ تپش محسوس کرتا ہے) ۔وہ سردیوں میں بھی ملازموں سے پنکھے چلواتارہتا ہے، جبکہ گرمیوں میں کمر تک گہرے تالاب میں ڈوبا رہتا ہے“۔

یہ وہ دور تھا جب سہولیات نہ ہونے کے باعث ڈیرہ کسی حد تک پسماندہ اور ترقی کے لحاظ سے باقی ماندہ ہندوستانی شہروں سے پیچھے ضرور تھا لیکن اسے پھر بھی دامان کے علاقہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ چند امراء کے گھروں کو چھوڑ کر باقی سارے گھر کچے تھے، گلیوں اور بازاروں کے فرش بھی کچے تھے۔ اسی طرح دوسرے شہروں کو ملانے والی شاہرہیں بھی کچی تھیں۔ لوگ اپنے قدیمی راستوں پر اونٹ، گھوڑوں یا پھر بیل گاڑیوں کے ذریعے سفر کیا کرتے تھے۔ امن و امان برقرار رکھنے کیلئے کوئی خاص انتظام نہ تھا،جس کی وجہ سے پہاڑوں سے وزیری قبا ئل آ کر لوگوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ اُنکی لوٹ مار کا زیادہ تر نشانہ پر امن ہندو آبادی ہو اکرتی تھی۔ رسل و رسائل اورڈاک کا بھی کوئی انتظام موجود نہ تھا۔ نئے ڈیرہ کے قیام سے لیکر انگریزوں کی آمد تک عوام کیلئے صحت کا کوئی ادارہ نہ بنایا گیاتھا۔ بیماری کی صورت میں لوگ حکیموں، جراحوں یا نائیوں کے پاس جایا کرتے تھے۔کچھ سادہ لوح افراد مولویوں سے دم درود پر ہی اکتفا کر لیا کرتے تھے۔ اس دور میں کوئی مدرسہ قائم نہ تھا، شہروں میں امیر گھرانوں کے بچوں کو پڑھانے کیلئے ا ستاد گھروں پر ہی آیا کرتے تھے،جبکہ کسی دیہات میں مولوی صاحب بچوں کو قرآن پاک کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ اسی طرح عدل و انصاف کیلئے بھی کوئی باقاعدہ ادارہ نہ تھا، عام طور پر لوگ اپنے مقد مات کے فیصلے پنچائیت سے کروا لیا کرتے تھے جبکہ شرعی مسائل کے حل کیلئے علماء سے رجوع کیا جاتا تھا۔نوابوں نے اگرچہ ٹیکس وصولی کو تو یقینی بنایا ہوا تھا لیکن اس وصولی کی ساری رقم اُنکے ذاتی خزانے میں جمع ہوا کرتی تھی، جہاں سے پھر اس وصول شدہ رقم کو کبھی کابل تو کبھی پنجاب بھیج دیا جاتا تھا۔ اس طرح عوام کی محنت سے پیدا کی گئی رقم دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے حریص آقاؤ ں کی نذر ہو جایا کرتی تھی اور یہاں کی بھولی عوام اس لوٹ مار پر توجہ دیئے بغیرٹیکس دیئے جاتی تھی۔

انگریزی دور میں کرنل میکاؤلے نے شہرڈیرہ کی خوبصورتی کیلئے خصوصی طور پر انتظام کیا تھا۔اس نے شہر کے اندر تجارتی مراکز قائم کیے۔ اردگرد کی گلیوں کو پختہ کروانے کے ساتھ ساتھ شہر کے گرد موجود دائروی شاہراہ(سرکلر روڈ) کو بھی پختہ کیا گیا۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی ہندو آبادی نے بھی شہر کو خوبصورت بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ہندو علاقے میں جہاں جہاں سے سرکلر روڈ گزرتی تھی وہاں پر ایک مخصوص فاصلے پرہندو آبادی نے پانی کے کنوئیں اور تالاب بنائے تاکہ یہاں درخت اور باغات لگائے جاسکیں۔ اُس وقت سندھ کنارے بسا شہر ڈیرہ آج کے ڈیرہ شہر سے یکسر مختلف تھا۔ زندگی بہت سادہ مگر انتہائی آسان تھی۔ محنت کش،بھولی بھالی مسلم اکثریتی آبادی ہندو مسلم فسادات کے نام سے قطعاً نا واقف تھی۔اس دور میں سندھ دریا واقعی شیر دریا تھا،جس کا بھکر اور ڈیرہ کے درمیان سولہ میل کا چوڑا پاٹ تھا۔بارشوں کے موسم میں یہ دریا کچھ اونچے مقامات کو چھوڑ کر باقی پورے علاقے میں منہ زور شیر کی طرح چنگھاڑتا، مستانہ انداز میں بہا کرتا تھا۔گرمیوں کے موسم میں ڈیرہ سے بھکر کا سفر کشتیوں کے ذریعے تین دنوں میں طے ہوا کرتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں جب پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا تو دریاتین،چار شاخوں میں بٹ جایا کرتا تھا،پھر بالو تھلے کے قریب کشتیوں کا پل بنا کر اسے افسانوی انداز میں پار کیا جاتا تھا۔ اس وقت کا ڈیرہ واقعی ڈیرہ پھلا ں دا سہرا ہوا کرتا تھا۔

ماخوز:دیرہ مُکھ سرائیکستان

Refrence Books:

1. A year on the punjab frontier in 1848-49,By  Major Herbert B. Edwards,

ChapterXIV,page 491

2. Introduction to Elphinstone’s Cabul page. 39

3. Burnes Cabul Page 92

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط24)۔۔۔ عباس سیال

 پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: