اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (2)۔۔۔رانا محبوب اختر

کولہی قبیلے کے آٹھ ہزار لڑاکا جوان اس جنگ میں شریک تھے جن کے لیڈر روپلو کولہی، مادو کولہی اور چھترو کولہی تھے۔کرنل تروٹ نے دیو مل نامی ایک شخص کو مجسٹریٹ یا مختار کار مقرر کر کے اسے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

میانی کی جنگ میں عام سندھی نہیں، حکمران اشرافیہ ہاری تھی

ننگر پارکر میں پورے سولہ سال مزاحمت
جاری رہی
کرنل تروٹ کو رانوں، کولہیوں ،کھوسوں اور مقامیوں نے شکست دے دی تھی!

اس کا نام روپو گوئیل تھا۔گوئیل کولہیوں کی ایک شاخ ہے۔روپلو کے باپ کا نام شامتو رام اور اماں کا نام کیسر بائی تھا۔وہ 1818 میں کارونجھر کے پاس کونبھاری نام کے گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔1818 میں کارل مارکس بھی پیدا ہوا تھا۔جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا کہ وہ پیغمبر تو نہیں تھا مگر اس کے پاس کتاب تھی۔جس نے یہ بات کہہ کر تاریخ کا رخ موڑ دیا کہ تمام تاریخ دراصل طبقات کی کشمکش ہے۔.

سرمائے اور محنت کی چپقلش ہے۔گورے تاجر ہندوستان کی دولت لوٹنے آئے تھے اور مقامی اشرافیہ بھی حسب ِمعمول حملہ آور کے ساتھ تھی۔کاورنجھر کا امر روپلو کولہی استعمار سے لڑتا تھا۔ میانی کی جنگ میں سندھی نہیں ، حکمران اشرافیہ ہاری تھی!سندھ کے مختلف حصوں میں مزاحمت جاری تھی اور گورے، مفاد پرستوں اور جاگیرداروں کے تعاون سے مکمل قبضے کی جنگ لڑتے تھے۔ننگر پارکر ، مزاحمت کاروں کا مرکز تھا اور ٹھاکر لدھو سنگھ، لدھو کا بیٹا ادھے سنگھ، سوڈھا کلجی ، روپلو کولہی، شادی خاں کھوسو، کاپڑی خاں کھوسو، راجہ خاں کھوسو اور بہار خاں کھوسو اس تحریک ِمزاحمت کے روح ِرواں تھے۔

کولہی قبیلے کے آٹھ ہزار لڑاکا جوان اس جنگ میں شریک تھے جن کے لیڈر روپلو کولہی، مادو کولہی اور چھترو کولہی تھے۔کرنل تروٹ نے دیو مل نامی ایک شخص کو مجسٹریٹ یا مختار کار مقرر کر کے اسے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا۔

مقامی لوگ ٹیکس دینے سے انکاری تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سامراجی مشین ٹیکس کے پیسے سے چلتی ہے۔ آزادی کے کارونجھری سپاہیوں نے کمپنی کے دفاتر، تھانے، مال اور ٹیلی گراف کی اسٹیبلشمنٹ پر قبضہ کر کے گوری فوج کو شکست دے دی تھی۔

کرنل تروٹ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا تھا اور لدھو میگھواڑ کے گھر ایک مٹی کے بڑے "کلہوٹ” میں جان بچانے جا چھپا تھا۔ فتح کے بعد سندھ کے بھٹ اور چارن روپلو کے دوہے اور گیت گاتے تھے۔سگھڑ قصہ کرتے تھے۔شکست خوردہ تروٹ حیدر آباد پہنچ کر زخم چاٹتا تھا اور کرنل Avenes کے ساتھ مل کر دوبارہ حملے کی تیاری کرتا تھا۔ایک بڑی برطانوی فوج پھر کیل کانٹے سے لیس ہو کر میر پور خاص، مٹھی اور اسلام کوٹ کے راستے ویر واہ کی طرف روانہ ہوئی۔

اسی دوران بھوڈیسر کا ٹھاکر گوروں سے مل گیا اور سوڈھا کلجی مارا گیا۔سینکڑوں کولہی اور رانے مگر دھرتی پر قربان ہونے کو تیار تھے۔کاورنجھر کو اپنا محبوب کہنے والے اللہ رکھیو کھوسو نے بتایا کہ ہم لوگ دھرتی ماں کے لئے مرنے والے مسلمانوں کو شہید اور ہندوؤں کو”امر”کہتے ہیں۔کارونجھر جبل پر امر ہندوؤں اور مسلمان شہیدوں کے خون کی سرخی کا پہرہ ہے ۔کارونجھر صحرائے تھر کا گلاب ہے۔پارکر کے سینے پر جاوداںگلاب کی طرح کھلا ہے۔

گوری سپاہ کے اسلحے اور بارود کے مقابلے میں مقامی مزاحمت کاروں کے پاس روایتی ہتھیار، تیر، بھالے اور کٹار تھے۔رانوں اور روپلو نے دشمن فوج کو ناکوں چنے چبوائے مگر کئی مقامی گوری فوج کے ساتھ مل گئے تھے۔تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ مقامی حکمران اشرافیہ بھی اکثر عوام سے بدیسی حکمرانوں کی طرح کا سلوک کرتی ہے! مقامی حکمرانوں کی عوام سے بیگانگی اور ظلم غیرملکی حکمرانوں سا ہوتا ہے۔

ان کے رویوں میں چمڑی کے رنگ کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہوتا کہ عوام کو لوٹنے اور ظلم کرنے میں سب حکمران طاق ہوتے ہیں۔مقامی دشمنیاں ، رقابتیں اور مفادات کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ کمزوری اور لالچ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔رفعت عباس کا تاریخ ساز ناول،”نمک کا جیون گھر”جہاں دوسرے موضوعات کو زیرِبحث لاتا ہے وہاں سامراجی حکمرانوں کی سفاکیت اور مقامی حاکموں کے ظلم اور مغائرت کو بھی کھوجتا ہے!

مقامیوں اور کرنل تروٹ کے درمیان اس یدھ میں لدھو سنگھ گرفتار ہو گئے اور رانا کرن سنگھ اور روپلو تزویراتی طور پر روپوش ہو کر گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔وہ چھپ کر دشمن پر حملہ کرتے اور کارونجھر پہاڑ کی پناہ میں چلے جاتے تھے۔دوسری طرف کولونیل قبضہ گیر آزمودہ حربے آزماتے تھے۔ساردھرو مندر کا ایک ہنس پری نام کا پجاری گورے سے مل گیا۔کاسبو کے مہاوجی لوہانڑو نیدشمن سے سازباز کر لی تھی۔

وہ مخبری کرتے تھے۔روپلو رات کو ایک کنوے سے پانی بھرنے آتا تھا۔ اسے وہیں سے گرفتار کرا دیا گیا۔گرفتاری کے بعد روپلو سے کہا گیا کہ وہ اگر معافی مانگ لے تو اس کی دنیا سنور جائے گی۔اسے بے پناہ مال و دولت کا لالچ دیا گیا۔مگر اس نے تروٹ کی ہر پیشکش تھکرا دی تھی۔روپلو روپے پیسے کے لالچ میں نہ آیا تو اس کے انکار کو اقرار میں بدلنے کے لئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔کہ جسم سامراج کی جنگ کا اصل میدان ہے۔بہیمانہ جسمانی تشدد پسندیدہ سامراجی ہتھیار ہے۔

انسانی جسم پر برسنے والا ہر کوڑا ، لاٹھی اور گولی کی زبان سے استعماری اطاعت اور بیعت کا پیغام ہوتاہے۔غریب کی پشت پر پڑنے والا تھانیدار کا ہر "چھتر”حمکران کا خط ہے،جو ایک سطر پر مشتمل ہوتا ہے کہ "تم غلام ہو”روپلو کی انگلیوں کوروئی میں لپیٹ کر ان پر تیل چھڑکا جاتا اور آگ لگائی جاتی تھی۔ ایک سوال امر روپلو کولہی سے پوچھا جاتا تھا کہ رانا کرن سنگھ کہاں ہے؟مگر بہادر روپلو کا انکار پہاڑ کی طرح تھا۔

اس نے جھکنے اور ٹوٹنے سے انکار کر دیا۔آخری حربے کے طور پر تریوٹ نے روپلو کی بیوی مینڑاوتی کو اس کے پاس بھیجا کہ وہ اپنے خاوند کو تعاون پر آمادہ کرے ورنہ بیوہ ہو جائے گی۔توقعات کے برعکس سورما کی بیوی نے روپلو سے کہا :”اگر تو نے وطن سے غداری کی تو لوگ مجھے طعنے دیں گے۔میں ایک غدار کی بیوی کی بجائے ایک بہادر کی بیوہ کے طور پر زندہ رہنا چاہوں گی”۔لادھو میگھواڑ کو پورن واہ، پنڈت ہنس پوری کو کارونجھر اور مہاوجی لوہانڑو کو کاسبو میں جاگیریں دی گئی تھیں۔ 22 اگست 1859 کو گوردھڑو ندی کے کنارے ببول کے ایک درخت پر لٹکا کر پھانسی دی گئی تھی۔جس ببول پر روپلو کولہی کو پھانسی دی گئی تھی اس پر کانٹے اگتے ہیں۔ وہ روپلو کے سوگ میں سوکھتا ہے۔کٹتا ہے، جلتا ہے۔روپلو کولہی کے خون سے مگر لالہ و گل نمایاں ہیں!
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
کون جانتا ہے کہ کتنے ہندو، جین ، بدھ، صوفی ، دہریے ، تشکیک پسند ، سوفسطائی اور ایمان والے کارونجھر کی گھپاوں میں مباحثوں اور مراقبوں میں مشغول رہے ہوں گے۔ماضی کا ایک سمندر کارونجھر کے گلابی پتھروں کو چھو کر گیا ہے۔کوروں اور پانڈوں کی تاریخی مہابھارت کے وقت پانڈو جلاوطن ہوکر کارونجھر کی پناہ میں آئے تھے۔بھیم گوڈو، گئو مکھ اور ساڑدھرو اساطیری حوالے ہیں۔جین اور بدھ مت کے کوئی دس ہزار بھکشو ایک وقت میں سندھ کی خاک چھانتے تھے۔

سندھ کا صوفی مزاج صدیوں سے شاہ لطیف رح کے استقبال کی تیاری کرتا تھا۔کارونجھر سندھ دھرتی کا ثقافتی قلعہ اور سندھ کے دفاع کا مضبوط مورچہ ہے۔ یہ قلعہ سندھ حکومت کے ایماء پر کچھ ٹھیکیدار ڈائنامیٹ رکھ کر اڑاتے تھے۔گلابی پتھر بازار میں بیچنے کا حکم لئے پھرتے تھے۔ خلیل کمبھار، اللہ رکھیو کھوسو اور امام علی جھانجھی جیسے سندھ کے بیٹوں نے کارونجھر کو بچانے کی تحریک چلائی ہوئی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کارونجھر جبل، آثار_قدیمہ اور ایکالوجی کی بنیاد پر شہریوں کی پٹیشن کی سماعت کر رہی تھی۔یہ اگست 2020 کا قصہ ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ تاریخی شعور رکھنے والی پیپلزپارٹی ایک طرف کرشنا کولہی کو سینیٹر بنا کر روپلو کولہی کے قبیلے سے افتخار کا تمغہ لیتی ہے اور دوسری طرف کولونیل ازم کے خلاف کولہیوں، رانوں اور کھوسوں کا کارونجھر سا مورچہ توڑتی ہے۔ایک پارکری نے کہا کہ گرینائٹ کے لالچ میں کارونجھر کو توڑنا امر روپلو کولہی کو بار بار قتل کرنا ہے ۔

دعا ہے کہ کارونجھر کا گلابی پہاڑ اور امر روپلو کولہی جیسے سندھ کے بیٹوں کے حوصلے جاوداں سلامت رہیں۔ اساطیری مہمان خانے میں نیند اور خواب ایک ہو گئے تھے۔شو کے سندھیا تانڈو رقص، کاسبو کے مندر میں ناچتے مور ، رام دیو مندر ، جین مندر، کارونجھر میں شو کے ٹھکانے ، قدیم ایک مسجد اور امر روپلو کولہی کی تصویریں دل کے نگار خانے میں سج گئی تھیں۔کمرے کی چھت پر برکھا نے خیال _ یار کی سنگت میں راگ ملہار چھیڑ دیا تھا۔ یاتری اساطیری منظروں کو گلے لگانے کو ایک سندر اوشا کا انتظار کرتا تھا!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: