مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمشید کمتر: سرائیکی زبان کےایک درویش شاعر۔۔۔ غازی امان اللہ

سرائیکی زبان کےایک درویش شاعر کا نام جمشید کمتر بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع راجن پور سے ہے ، یہ بہت عاجزی اور انکساری کے اوصاف رکھتے ہیں۔

غازی امان اللہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی زبان کےایک درویش شاعر کا نام جمشید کمتر بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع راجن پور سے ہے ، یہ بہت عاجزی اور انکساری کے اوصاف رکھتے ہیں۔ ایک عبرت سے بھرپور واقعہ یاد آگیا ۔ میں راجن پور میں بطور ڈی سی او 2011 سے 2015 تک تعینات رہا ۔ اس دوران زمین پر رہنے والوں کی زندگی کی المناک داستان کا قریب سے مشاہدہ کیا، ساتھ ہی زمین پر پیدا ہونے والے عرش نشینوں کی طاقت و جبروت سے بھی واسطہ رہا، یہ یاد رہے کہ میرے روحانی مرشد حضرت واصف علی واصف کا یہ قول ہمیشہ میرا ہمسفر تھا کہ لوگوں کے لۓ رحمت بن جاؤ تو رحمۃ اللعالمین کی رحمت کا سایہ ضرور ملے گا ، ساتھ ساتھ منشی پریم چند کا آفاقی افسانہ بہ عنوان ‘ کفن ، اور مرحوم سجاد ظہیر کی مشہور کتاب ‘ رُو شنایء ، کی روشنی بھی میرے استفادے میں رہی ، جناب جاوید محمود سابق چیف سیکرٹری نے یہ کتاب فرمائش کرکے مجھ سے منگوایء تھی مگر اس وقت وہ ریٹائر ہو چکے تھے اور معاشرے کو کوئی فیض پہنچا نے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتاہوں۔ حکومتِ پاکستان ہر سال 14 اگست یومِ آزادی کے موقعہ پر ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لۓ ایوارڈ دیتی ہے۔ علاقائی ادیبوں اور شاعروں کے نام صوبائی حکومتیں ارسال کرتی ہیں ،ایسا ہی ایک اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں ، میں اپنے ضلع کے ادیبوں کی فہرست کے ساتھ شامل ہوا ۔ عطاءالحق قاسمی نے حکومتِ پنجاب کی طرف سے اجلاس کی صدارت کی۔ دیگر سینئر آفیسر ز بھی تھے۔ میری باری آئی تو میں نے اپنے ضلع کی فہرست میں شامل ادیبوں کا تعارف اور ان کی ادبی خدمات کے بارے میں بتایا۔ میں نے جب جناب جمشید کمتر کا ذکر کیا تو عطاء الحق قاسمی نہایت طنزیہ انداز میں بولے کہ ُ کمتر کا یہاں کیا کام ،
اس تکبر اور رعونت کو انسان کیا کہے ، ہزار بار استغفار۔
دائیں سے بائیں : جمشید کمتر اور آفتاب نواز مستوئی

پھر وہ وقت بھی تاریخ نے دیکھا کہ ثاقب نثار کی عدالت نے دہرا دہرا کر عطاء الحق قاسمی کی نام نہاد عظمت اور جعلی ادبی حیثیت کا دامن تار تار کر دیا۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قومِ ثمود صرف ایک شخص کی متکبرانہ روش کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئ۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ذاتی اور وقتی مفادات کے لۓ عطاء الحق قاسمی جیسے لال بجھکڑ پال رکھے ہیں جنکی کم ظرفی اور ناقص شخصیت کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب کسی استحقاق کے بغیر ان کو کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا جاتا ہے
بےدلی ہاۓ تماشا ! کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہاۓ تمنّا ! کہ نہ دنیا ہے نہ دین (غالب )
اس سارے پس منظر اور المناک رُوداد کے بعد کُچلے ہوۓ طبقات کے نمائندہ سرائیکی شاعر جناب جمشید کمتر صاحب کو سُنیں اور پڑھیں

%d bloggers like this: