اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

متحدہ پنجاب اور سرائیکی خطے کا خوبصورت ثقافتی تہوار (لوہڑی)۔۔۔عباس سیال

ایک روایت کے مطابق لوہڑی کا تہواربیٹوں کی پیدائش کی خوشی میں بھی منایاجاتا تھا۔ تہوار والے دن یا اس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کیلئے کہا جاتا تھا کہ یہ ا سکی پہلی لوہڑی ہے،

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی وٹس ایپ پر دہلی میں بسے ڈیرے وال دوست مکیش اسیجا کی بھیجی ایک تصویر دیکھنے کو ملی جس کے نیچے (Happy Lohri – ASIJA @ B23)درج تھا۔ اسیجا ہاؤس کے داخلی دروازے کے اندر فرش پر الاؤ روشن تھا جس کے گرد چند لوگ گرم چادریں اوڑھے مزے سے کرسیوں پر بیٹھے تھے۔میرے استفار پر مکیش نے بتایا کہ(اِتھاں دِلی وِچ ادھی رات دا سمے ہے تے اساں مل کے لوڑی منیندے پے ہیں)۔مکیش نے لوڑی(لوہڑی) کے بارے میں چند تعارفی جملے بھیجے۔مکیش بھرا تعارف نامکمل ہے، میکوں تفصیل نال فون کرکے ڈساؤ۔پھر مکیش اور ان کے والدین کی زبانی جو کچھ معلوم ہوا، تفصیل نیچے درج ہے۔
جس طرح ہماری دھرتی(پاکستان) کے روایتی تہوار موسموں کی مناسبت سے منائے جاتے تھے، لوہڑی بھی ان میں سے ایک تہوار تھا جو بدلتے موسم کا سندیسہ لے کر آتا تھا کہ گویاں سردیاں اب رخصت ہو رہی ہیں،گنا(کماد)، مونگ پھلی، دالوں کی کٹائی شروع ہو چکی ہے اور گنے کا رس نکالنے کیلئے ویلنے متحرک ہوچکے ہیں۔ کھیتوں میں گُڑ بن رہا ہے، ہر طرف مٹھاس رچی ہے اور انتظار اب صرف بہار کا ہے۔
کہتے ہیں کہ تقسیم سے قبل لوہڑی کا تہوارہر سال 13 جنوری (دیسی کیلنڈر کے مطابق پوہ کی آخری رات)کو صرف مشرقی و مغربی پنجاب اور سرائیکی خطے میں ہی منایا جاتا تھا، گویا گنگا جمنی دھارا یعنی موجودہ بھارت کے باسی اس تہوار سے ناواقف تھے،مگر تقسیم کے بعدہمارے خطے سے ہندو اور سکھ آبادی کثیر تعداد میں ہجرت کرکے مشرقی پنجاب اور شمالی بھارت (دِلی،غازی آباد، فرید آباد، لدھیانہ،آگرہ، گُڑگاؤں،ڈیرہ دُون) چلی گئی تو وہ اپنے ہماری دھرتی کے سارے رنگ اور ہمارے موسمی تہوار بھی اپنے ساتھ لے گئے جسے انہوں نے گنگا جمنی باشندوں کے سامنے نئے سرے سے متعارف کروایا۔
تقسیم سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی ہندو اور سکھ برادری 13 جنوری کی شام لوہڑی کا تہوار روایتی جوش و خروش سے منایاکرتی تھی۔ سردموسم کی مناسب سے رات کو ساگ، مکئی کی روٹی،گجریلہ، تِل کے لڈو، گُڑاور چاولوں کی آمیزش سے بنی ڈش (بھت) پکا ئی جاتی تھی۔سرِ شام ہندو اپنی گلیوں میں آگ روشن کرتے، آگ کا سب سے بڑا الاؤ ڈاکٹر جھنڈا رام کلینک کے چوراہے پرروشن کیا جاتا تھاجس کے گرد کھڑے ہو کر لوک گیت گائے جاتے، جھمریں ڈالی جاتیں اور خشک میویخصوصاً مونگ پھلی، تِل اور گُڑ سے بنی میٹھی اشیاء مثلاًتِلاں والی پاپڑی، گُڑ،گُڑدھانی، ریوڑیاں، الائچی دانے،مرونڈے، بوندی والے لڈو، پتاسے کھانے کے ساتھ ساتھ آگ میں بھی پھینکتے جاتے تھے۔ہندو عورتیں لوہڑی(الاؤ) کے سامنے بیٹھ کر منتیں مانتیں اور اِرداس کیا کرتیں۔”شالا اساڈے پاپ جھڑن تے پُن پھلِن“ یعنی ہمارے گناہ کم ہوں، نیک کام زیادہ ہوں۔پچھلے سال کی لوہڑی میں جس عورت کی منت پوری ہو چکی ہوتی وہ اس خوشی کے موقع پر اپنا چرخہ آگ کی نذر کر دیاکرتی تھی، چرخہ آگ میں ڈالنے کی روایت صرف ڈیرہ تک محدود تھی۔ آگ بجھتے ہی ہندو واپس اپنے گھروں میں جا کر سو جاتے اورڈیرہ میونسپل کمیٹی کے اہلکار صبح سویرے اُن کی گلیوں میں بجھی راکھ اور کوئلوں کو سمیٹ کر صفائی کر دیا کرتے تھے۔
ایک روایت کے مطابق لوہڑی کا تہواربیٹوں کی پیدائش کی خوشی میں بھی منایاجاتا تھا۔ تہوار والے دن یا اس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کیلئے کہا جاتا تھا کہ یہ ا سکی پہلی لوہڑی ہے، اس موقع پر بچے کے والدین گھر میں دعوت کا اہتمام کیا کرتے تھے جس میں عزیز رشتے داروں کو بلایا جاتا تھا۔لوہڑی کے اگلے دن یعنی چودہ جنوری (ماگھ مہینے کے پہلے دن) کو پُونی کا دن کہا جاتا تھا۔اس دن ہندولڑکیاں مل کر محلے کے ان گھروں میں جاتی تھیں جہاں کسی بچے نے جنم لیا ہو، یہ اس بچے کو آشیر باد(مبارک باد) دیتیں اور لڑکے کے والدین حسب توفیق ان لڑکیوں کو اٹھنیاں چونیاں دے کر رخصت کیا کرتے تھے۔
مکیش نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ ماگھ کے شروع میں ہندوؤں کا نیا سال بھی شروع ہو جاتا ہے اسی لئے اسے سالِ نو کی خوشی میں بھی منایا جاتاہے، مگرمتحدہ پنجاب اور سرائیکی علاقوں کے ہندو لوہڑی کے تہوار کو دھرم کی بجائے ثقافتی ورثے کے طور پر منایا کرتے تھے، جسے وہ دُلے بھٹی کی شجاعت سے منسوب کیا کرتے تھے۔ایک روایت کے مطابق مغل بادشاہ اکبر کے دور میں ایک با اثر زمیندار کسی ہندو لڑکی کو اغواء کرکے لے جا رہا تھا کہ دُلے بھٹی نے اس لڑکی کو بازیاب کروانے کے بعد اپنی بیٹی بنالیا تھا اور پھر کسی ہندو لڑکے سے اس کی شادی کروائی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری دھرتی دُلے بھٹی، احمدخان کھرل،بھگت سنگھ، میر چاکر جیسے جانبازوں۔ شاہ حسین، بلھے شاہ،بابا فرید،خواجہ غلام فرید،سلطان باہو، میاں محمد بخش اور رحمان بابا جیسے صوفیوں، شاعروں کی دھرتی ہے، لیکن افسو س کہ ہمارے علمی نصاب کو مرتب کرنے والوں نے کبھی ہمارے مقامی ہیرو ز، ان کے کارناموں، اسٹریٹ وزڈم، علم وحکمت سے بھری باتوں، دھرتی کی خوبصورت زبانوں اور ہمارے ثقافتی تہوار وں کو متعارف کروانے کیلئے کوئی عملی کام نہیں کیا۔ نہایت دکھ کا مقام ہے کہ ہم جیسے لوگ اب مکیش جیسے دوستوں سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں ہماری دھرتی(موجودہ پاکستان) کے قدیمی تہواروں کے بارے میں بتایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط24)۔۔۔ عباس سیال

 پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

%d bloggers like this: