مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایوبا ، جاؤالحک….. کمروماجوہ،فیجو میدہ…. ۔۔۔عامر حسینی

میں کبھی کبھار چھاؤنیوں میں جاتا ہوں تو انگریز دور کی بنائی رجمنٹوں کی ساری تاریخ اور یادگاریں یہاں تک کہ وہ برتن جن میں افسر شراب پیتے تھے سنبھال کر رکھی گئی ہیں

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ٹھیک اُس مقام پہ کھڑا تھا جہاں 17 دسمبر 1928ء کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے برٹش لاہور پولیس کے چیف اسکاٹ کو لالہ لاجپت رائے کے خون کا بدلہ لینے کے لیے ڈھیر کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور اُس دن اُن کی چھپٹ میں ایس ایس پی آفس کے سامنے ایس ایس پی سانڈرس آگیا تھا- اور ایک سپاہی چنن سنگھ جو بھگت سنگھ، سکھ دیو گرو اور چندر شیکھر کے پیچھے بھاگا تھا اُسے بھی گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا-
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی بھاگ کر وہاں سے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر جہاں آج اسلامیہ کالج سول لائنز ہے (یہ ڈی اے وی کالج تھا، یہیں بھگت سنگھ پڑھا کرتا تھا، اس ہاسٹل سے اٌس نے درجنوں خظ اس کے ساتھ بنے ڈی اے وی کالج کے بورڈنگ ہاؤس سے لکھے تھے جہاں عرصہ دراز تک مہاجرین قابض رہے یہ سول کورٹس لوئر مال کے ساتھ ہی جگہ ہے اور اسی بورڈنگ ہاؤس میں پولیس گھسی اور وہاں کسی کو نہ پایا……
میں اس سارے علاقے کی دیواروں پر نظریں جمائے کھڑا تھا اور چشم تصور سے اُن پوسٹرز کو دیکھتا رہا جو راتوں رات کسی نے دیواروں پہ چسپاں کرڈالے تھے جن پہ لکھا تھا: ہندوستان سوشلسٹ ری پلکن پارٹی زندہ باد – برطانوی سامراج مردہ باد لالہ لالجپت رائے کے قتل کا بدلہ لے لیا گیا…….
میں نے شام کے وقت ایس ایس پی سانڈرس اپنی موٹر سائیکل پر ایس پی آفس کی دیوار کے پاس فٹ پاتھ کے قریب رفتار آہستہ کرتے دیکھا کہ دو افراد سانڈرس کی طرف بڑھے اور اُس پہ ریوالور سے گولی چلادی سانڈرس کو میں فٹ پاتھ پر جھکتے ہوئے دیکھا اور پھر قریب آتے دو افراد کو جن میں ایک نے قریب سے سانڈرس پہ مزید گولی چلائی اور سانڈرس کا قتل کرکے وہ کورٹ اسٹریٹ میں ڈی اے وی کالج کے پرنسپل کی کوٹھی کے احاطے میں کود گئے…..
میں ایک چکر کاٹ کر ایس پی چوک سے ڈی اے وی کالج و ڈی اے وی اسکول اور کالج اور بورڈنگ ہاؤس (یہاں پہ اب ٹیچرز ٹریننگ کالج ہے) سے ہوتا ہوا واپس تھانہ انار کلی تک پہنچا جہاں میں نے ایک بار پھر تخیل سے مدد لی اور نئی عمارت کی جگہ پرانی عمارت سے اندر داخل ہوکر محرر کے کمرے میں پہنچا، چار بج کر 30 منٹ ہوئے تھے شام کے(تصوراتی وقت) اور پولیس محرر اردو میں ڈی ایس پی سانڈرس اور کانسٹیبل چنن سنگھ پر دو نامعلوم افراد کی طرف سے فائرنگ کرکے قتل کرنے کا مقدمہ درج کررہا تھا…..
یہ ایف آئی آر 90 سال بعد 2014ء میں بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے امتیاز رشید قریشی کی عدالت میں دائر درخواست پہ تھانہ انارکلی کے ریکارڈ سے برآمد ہوئی اور پتا چلا کہ سانڈرس اور چنن سنگھ کے قتل کا مقدمہ ہی دو نامعلوم افراد کے خلاف کاٹا گیا تھا-
یہی تھانہ انار کلی ہے جہاں بعد ازاں ہر مارشل لاء اور نیم مارشل لاء اور کبھی کبھی چھپا ہوا مارشل لاء کے دوران جمہوریت اور شہری حقوق کی بحالی کے لیے تحریک میں حصہ لینے والوں کو پکڑ لایا جاتا اور اُن سے بہیمانہ سلوک ہوتا- میں وہاں سے چلتے ہوئے عین اُس چوک میں پہنچا جہاں کبھی سنٹرل جیل لاہور میں پھانسی گھاٹ ہوتا تھا جس پر بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی…..
سر فروشی کی تمنا آج ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے کتنا زور بازوئے قاتل میں ہے
گاتے ہوئے سولی چڑھ گئے
اپنے سر کو سولی شناس کرنے سے تھوڑی دیر قبل بھگت سنگھ شہید نے لینن کی کتاب
Infantile Disorder of Left Wing
بائیں بازو کی طفلانہ پن کی بیماری
پڑھ کر ختم کی تھی –
بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے یہ بات جان گئے تھے کہ برطانوی سامراج سے آزادی کا وہ مطلب تو نرا جھوٹ ہے جو اس ملک کے جاگیردار اور پیٹی بورژوازی وکیل بابو سیاست دانوں کی قوم پرست فوج ظفر موج اُن کے سامنے روز رکھتی ہے جس میں نوآبادیاتی سامراج کی بنائی ریاست کا ڈھانچہ جوں کا توں گوری چمڑی والے آقاؤں کے ہاتھ سے دیسی چمڑی والے آقاؤن کے ہاتھ منتقل ہوگا جن کی ذہنیت کالونیل ہی ہوگی………
بھگت سنگھ اور اُس کے کامریڈ ساتھیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا جس علاقے میں وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ آنے والی آزادی کی قیادت اگر محنت کشوں کے ہاتھ نہ آئی تو جاگیردار و پیٹی بورژوازی وکیل بابو اس پہ قابض ہوکر ورکنگ کلاس کو غلام بنائے رکھیں گے، اگر اُن کو یہ پتا ہوتا کہ یہ علاقے ایسی ریاست کا حصہ ہوں گے جہاں بورژوازی جمہوریت بھی خواب بنی رہے گی اور ریاست و عوام کے مالک رائل انڈین آرمی سے بننے والی دیسی آرمی کے سیاست زدہ جرنیل کبھی براہ راست تو کبھی سلیکٹڈ کے زریعے ریاست کے اقتدار اعلیٰ کے بلاشرکت غیرے مالک بن کر بیٹھ جائیں گے تو اُن پہ کیا گزرتی؟
لالہ لاجپت رائے سے لیکر بھگت سنگھ تک اور آزادہند فوج کے کیپٹن شاہنواز تک درجنوں آزادی کے بے مثال سیاسی کارکنوں کی یادگاریں اور کئی”فریڈم میوزیم ہاؤس” لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال، ملتان اور راولپنڈی میں بنائے جاتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا-
اُلٹا آزادی کے مجاہدوں کی راہ پہ چلنے والے سیاسی کارکنوں پر فوجی، پولیس کے سپاہی، سادہ کپڑوں میں ملبوس سی آئی ڈی، سپیشل برانچ، آئی بی، ایم آئی، آئی ایس آئی اور اب رینجرز و ایف سی کے انٹیلی جنس ونگز کے اہلکار ایسے ٹوٹ کر پڑے جیسے شکاری کُتے معصوم جانوروں کے پیچھے پڑتے ہیں……. بھگت سنگھ کے راستے کا پیرو حسن ناصر اسی لاہور کے شاہی قلعے کی جیل کے خفیہ ٹارچر سیل میں مارڈالا گیا…….. میں اپنے ہوٹل واقع نابھہ روڈ کی سمت بڑھتا ہوا جب ریگل چوک پہنچا تو میں نے چشم تصور سے مال روڈ پہ ہزاروں لوگوں کا اجتماع دیکھا جو نعرے لگارہے تھے
جیڑھا واوے… اوہی کھاوے
سوشلزم آوے ای آوے…..
پھر میں نے چشم تصور سے زرا ماضی قریب میں دیکھا نعرے بدل گئے تھے لوگ نعرہ لگارہے
بھکے مرگئے میں تے توں
لُٹ کے کھاگیا……ج…. ا…. ک…. و
یہ ک…. ر کم…. ڈر …….. ت
یہ و….. ی…………………… ت
بنگالی کو ماریں….. ت
بلوچ کو ماریں….. ت
سندھی کو ماریں… ت
پنجابی کو ماریں…. ت
جناح کے قاتل…… ت
لیاقت کے قاتل…. ت
قائد کی بہن کے قاتل…. ت
بھٹو کے قاتل…… ت
نذیر عباسی کے قاتل
بی بی کے قاتل…… ت
لاہور شہر میں ہر وہ تاریخی عمارت یا تو غائب کردی گئی جس کا تعلق جمہور اور عوام کی سیاست سےتھا یا وہ انتہائی بُری حالت میں ہے آزادی پسند انگریز رہنما چارلز بریڈلو کی یاد میں تعمیر داتا دربار کے عقب میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی یادگار ہال بریڈلوہال کو برباد کردیا گیا یہ ہال کبھی بھگت سنگھ جیسے آزادی پسند کی تقریروں سے گونجتا رہا اور پھر کبھی یہ گودام تو کبھی کسی نام نہاد ملی تکنیکی ادارے تو کبھی کسی اسکول تو کبھی کسی کوچنگ سنٹر میں بدلا جاتا رہا…..
میں کبھی کبھار چھاؤنیوں میں جاتا ہوں تو انگریز دور کی بنائی رجمنٹوں کی ساری تاریخ اور یادگاریں یہاں تک کہ وہ برتن جن میں افسر شراب پیتے تھے سنبھال کر رکھی گئی ہیں اور تاریخ کا ایک ایک ریکارڈ محفوظ ہے اور اُس رجمنٹ کے افسران کو اُس سے مکمل آگاہی دی جاتی ہے اور جو عوام کی اپنی تاریخ اور ورثہ ہے اُسے بار بار تاراج کردیا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ تاریخی ورثہ باقی رہے گا تو پھر نام نہاد مین سٹریم میڈیا پر جھوٹی اور مصنوعی تاریخ کا پرچار کیسے کیا جائے گا؟ اگر بھگت سنگھ، حسن ناصر سے لیکر نذیر عباسی شہید اور نواب نوروز خان سے لیکر بانک کریمہ بلوچ اور باچا خان سے لیکر مولانا پوپلزئی سے تک اور سرائیکی خطے کے قسور گردیزی سے لیکر رزاق جھرنا سے وابستہ عوامی ورثہ بچالیا جاتا اور اُن کی یادگاریں تعمیر ہوتیں تو پھر ایوب خان سے لیکر مشرف تک اور اس سے آگے کمرو ماجوہ سے پھجو میدا تک کو نجات دہندہ و محسن بناکر کیسے پیش کیا جاسکتا تھا

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: