اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ناصر عباس نیر کے افسانے ’’خوابِ سگاں‘‘کا سرسری جائزہ۔۔۔رفعت عباس

اسی سو صفحات کی ڈائری میں کتوں کے خوابوں کا اندراج تھا اور اس سے آگے کتوں کی نسلوں سے آگہی اور اپنے پوسٹ کالونیل بیانیے سے گزرتی چار حصوں پر مشتمل اس کہانی کے متںن سے کائناتی ہم آہنگی پھوٹنے کا وقت۔

رفعت عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کہانی کے کاٹھ پر مسلسل اسی کہانی کے ایک ان دیکھے ہیولے کی دھمک سنائی دیتی ہے۔یہ گونج حقیقت کے عقب میں امڈتے ہوئے اس خواب کی ہے جو اِس حقیقت کو آگے بڑھانے کا وعدہ ہے۔یہ سریلزم سے حیرت انگیز حد تک مختلف تکنیک ہے جہاں خواب حقیقت کے تعاقب میں رہتے ہوئے بھی حقیقت میں ضم نہیں ہوتا۔یہاں حقیقت اور عقبی خواب سے آگے ماورائے حقیقت کا وہ در ہے جہاں اس کہانی کی دستک ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناصر عباس نیر کی افسانوی بنت کافکا کے خواب ناک بہائو یا نیر مسعود کے خواب کے کہرے میں چلنے سے نہایت مختلف ہے۔وہ نجیب محفوظ کی طرح حقیقت اور خواب کے الگ الگ ٹکڑوں کو بھی نہیں جوڑتا کہ قاری تمام زندگی یہ فیصلہ کرتا رہے کہ حقیقت کہاں ختم ہوئی اور خواب کہاں سے شروع ہوا۔اردو زبان کا یہ کہانی کار اپنے ہنر اور انہماک کے باعث لوئس بورخیس جیسی افسانوی توانائی کا حامل ہے لیکن اس کی کہانی بھول بھلیوں کے دوسرے کنارے سے آغاز ہوتی ہے۔
کہانی’’خوابِ سگاں‘‘کا متکلم ایک زمان و مکاں کے قطعے میں اس بات پر معمور ہے کہ وہ ان تین کتوں کے خواب بیان کرے جو ایک کردار سراج صاحب کے مطابق حقیقت اور ماورائے حقیقت رابطے کی اہم اور آخری کڑی ہیں۔
’’میری بات کا یقین کرو۔ہمیں اس
کائنات کو برباد ہونے سے بچانا ہے تو
اس نسل کے آخری کتوں کے خوابوں
کو بچانا ہو گا‘‘
اس اجنبی صورت حال سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے متکلم نے اس ہمک پر قابو پایا جو کتوں کے بدن سے اٹھتی،نتھنوں میں گھستی اور ذہنی انتشار کا باعث بنتی۔
’’مجھے سب سے پہلے اس ہمک پر قابو
پانا تھا جو کتوں کے قریب جاتے ہی
میرے نتھنوں میں غلیظ دھوئیں کی
مانند گھستی اور مجھے بے بس کر
ڈالتی۔‘‘
اس متن کی پہلی جہت میں کتے کوئی نشان یا استعارہ بنائے یا اپنے معنی کی تنگی یا وسعت میں بھٹکے بغیر کہانی کے اس تیقن کا اظہار ہیں جہاں ہر چیز قائم اور مکمل ہے۔یہ واقعتا وہ آخری تین کتے ہیں جو بسیط کائنات کے اسرار سےمربوط اور ان کے خواب کسی کائناتی انکشاف کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ کہانی سنانے کا وہ ایقان ہے جو ارتباطِ عالم کا باعث ہے۔یہ وہ مکاں ہے جہاں کہانی کی بنت زندگی کو نئے سرے سے خلق کرتی ہے۔بعینہ یہ کہانی کی پڑھت کا وہ زماں ہے جہاں کہنہ طلسم کے در وا ہوتے اور پرانی سرنگوں کے ادھر روشنی کی لکیر دکھائی دیتی ہے۔
’’میرے پاس اس یقین کے سوا چارہ نہیں
تھا کہیں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ میں ہی
کتوں کے خوابوں کو محفوظ کروں گا۔‘‘
اس متن کی دوسری جہت میں سیال معنویت یا استعارے کا سفر شروع ہوتا ہے۔کسی متن کی آسودہ پڑھت ہی استعارے کو روشن کرتی ہے۔یہاں کتے کرہ ارض پر معدوم ہوتی کسی ہھی نوع کا استعارہ بن جاتے ہیں۔یہ استعارہ اس بات کا غماز ہے کہ ہر نوع/ہر چیز کا وجود کائنات کی ثروت اور عدم وجود کائنات کی عدم ثروت کا باعث ہے۔یہ کہانی اس کرہ ارض پر ان استعمار زدہ لوگوں کا واقعہ بھی بن جاتی ہے جن کی زبان، تاریخ،اساطیر اور خواب منتشر اور وہ معدومی سے ہمکنار ہیں۔استعارے کے حوالے سے ناصر عباس نیر کا اپنا کہنا ہے:
’’کسی طاق میں بجھتے چراغ ،ہوا کی لرزش
سے گر جانے والے خشک زرد پتے،کسی گلی کے موڑ
پر طوفان کے زور سے گرجانے والے پرانے
شجر—-ان سب کا ہر اس شے یا وجود سے رشتہ ہے
جو آخری سانسیں لے رہا ہے۔‘‘
(استعارہ،حقیقت سازی اور معنی کی گردش)
اپنے خوابوں کے راستے کتوں کے خوابوں تک پہنچنا ایک حیرت انگیز مہم تھی جو متکلم نے سر کی۔اس مہم کی کامیابی کے پیچھے حیات اور نفس کی وہ سعادت فروزاں ہے جو نقش وجود کا حاصل ہے ۔متکلم اپنے خوابوں کی ہم آہنگی میں کتوں کے خوابوں تک پہنچتا ہے اور ایک کائناتی سرشاری کا وقت شروع ہو جاتا ہا۔
’’میں نے ہر رات کئی خواب دیکھے۔صبح
سب کو لکھ لیتا۔تین ہفتوں میں سو
صفحہ بھر گیا۔‘‘
اسی سو صفحات کی ڈائری میں کتوں کے خوابوں کا اندراج تھا اور اس سے آگے کتوں کی نسلوں سے آگہی اور اپنے پوسٹ کالونیل بیانیے سے گزرتی چار حصوں پر مشتمل اس کہانی کے متںن سے کائناتی ہم آہنگی پھوٹنے کا وقت۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: