مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہور دسو کی حال اے؟۔۔۔گلزار احمد

اس کتاب کے صفحہ 113 پر یہاں کی سماجی زندگی کو موضوع بنایا گیا ھے۔لکھا ھے ڈیرہ کے شھری اور دیہی آبادی کی اکثریت کچے گھروں میں مقیم ھے۔ان گھروں کی دیواریں کچی مٹی جسے چویڑی کہتے ہیں سے بنائی گئی ہیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

مشہور سائینسدان البرٹ آئنسٹائن Albert Einstein نے کہا تھا کہ میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب ٹکنالوجی اتنی ترقی کر لے گی کہ وہ انسانی میل جول کا خاتمہ کر دے گی اس وقت دنیا میں ایک ایسی نسل پیدا ہوگی جو idiot یا بالکل پاگل بے حس اور بے کار نسل بن جاۓ گی ۔

کمال کی بات یہ ہے کہ البرٹ کی پیشنگوئی اتنی جلدی پوری ہو گئی اور ہم وہ لوگ ہیں جو اس نسل میں موجود ہیں۔ پرانی زمانے میں ایک زومبی zombie مخلوق کا تصور پایا جاتا تھا جو بالکل نہیں بولتے تھے ۔
اب ہمارے گھروں میں چونکہ ہر بڑے اور بچے کے ہاتھ میں موبائیل فون آ گیا ہے اس لیے ہر بندہ سر جھکاے اس پر فیس بک۔واٹس ایپ۔میسینجر ۔ایس ایم ایس کر رہا ہے اور اس کو اردگرد کی دنیا کا کچھ پتہ نہیں ۔
گھر میں ہمارے جیسے پرانی بود و باش کے لوگ چاہتے ہیں کہ بچے دفتر یا سکول سے گھر آئیں تو ہمارے ساتھ باتیں کر یں مگر کسی بچے کے پاس بات کرنے کا وقت نہیں۔
چھوٹے بچے جب غوں غاں شروع کرتے تو ماں باپ کے ساتھ ہنستے اور عجیب لفظ بول کر دل خوش کرتے اب وہ کلچر بھی ختم ہو گیا ۔بچوں کو پیدا ہوتے ہیں کارٹون نیٹ ورک کے سامنے سلا دیا جاتا ہے اور وہ رنگ برنگی دنیا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
لندن میں ایک خاتون نے ایک مشہور پامسٹ سے اپائٹمنٹ لی وہ ہر گاہک سے کئی پونڈ فیس لے کر دس منٹ اس کے ہاتھ کی لکیریں دیکھتا اور قسمت کا حال بتاتا۔ چنانچہ جب اس خاتون کا نمبر آیا تو وہ پامسٹ کے سامنے جا بیٹھی۔
پامسٹ نے اس سے کہا مجھے ہاتھ دکھاٶ میں تمھیں قسمت کا حال بتاٶں ۔خاتون نے کہا مجھے ہاتھ نہیں دکھانا اور نہ ہی قسمت کا حال معلوم کرنا ہے۔۔ پامسٹ نے پوچھا پھر تم اتنی بھاری فیس ادا کر کے میرے پاس کیوں آئی ہو۔
خاتون نے کہاں میرے بال بچے یا تو نوکری کرنے چلے جاتے ہیں یا گھر میں آ کر سیل فون پر بیٹھ جاتے ہیں کوئی کسی سے بات نہیں کرتا کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا بس ہر کوئی سکرین پر انگلیاں چلا رہا ہے۔
مجھ سے نہ کوئی پڑوسی بات کرتا ہے نہ رشتہ دار میں پرانی روایات کی پابند عورت ہوں میں چاہتی ہوں کوئی شخص میرے پاس آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرے مگر موبائیل فون کی وجہ سے کسی کے پاس ٹایم نہیں۔پھر میں نے اشتہار میں آپ کا پڑھا کہ آپ فیس لے کر دس منٹ میں قسمت کا حال بتاتے ہیں ۔
میں نے بکنگ کرائی اب دس منٹ میرے بک ہیں میں صرف دس منٹ آپ سے باتیں کروں گی اور چلی جاوں گی۔ پامسٹ اس کی بات سن کر حیران ہوا لیکن اس نے خاتون کو بتایا کہ مجھ سے بھی گھر میں کوئی بات نہیں کرتا تھا پھر میں نے پامسٹری اس لیے سیکھی تاکہ لوگ میرے پاس آئیں مجھ سے باتیں کریں
اس طرح ہر روز طرح طرح کے لوگ مجھے ہاتھ دکھانے آتے ہیں اور میں ان سے جی بھر کر باتیں کر کے گھر چلا جاتا ہوں۔ موبائیل فون کے استعمال نے ہماری سماجی اور تعلیمی زندگی تباہ کر دی اور دفتری کاموں کا بیڑا غرق کر دیا۔
آپ بل ادا کرنے بنک کی کھڑکی کے آگے قطار میں کھڑے ہیں جب کہ بل وصول کرنے والا کلرک موبائیل پر مصروف ہے۔آپ بھاری فیس دے کے ڈاکٹر کے آگے بیٹھے ہیں وہ فون کان میں لگا کے باتیں کر رہا ہے اور آپ کا نسخہ لکھ رہا ہے۔
آپ موٹر سائیکل ۔رکشا۔کار۔بس چلا رہے ہیں کان میں موبائیل لگا ہوا ہے اور درجنوں حادثات روزانہ ہو رہے ہیں۔مسجد میں جماعت کی تلاوت ہو رہی ہے اور اچانک موبائیل پر فلمی دھن کی ٹون بجنا شروع ہو جاتی ہے آپ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور کان میں موبائیل سے باتیں ہو رہی ہیں۔
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر تھا جب کلاس میں لیکچر دے رہا ہوتا تو آدھی کلاس موبائیل پر ٹیکس میسیج کر رہی ہوتی تھی۔ آپ کسی تقریب میں چلے جائیں کسی کو کسی کا ہوش نہیں بس موبائیل پر بات ہو رہی ہے یا انگلیوں سے ٹیکس میسیج دیے جا رہے ہیں
آپ کا کسی دفتر میں دس منٹ کا کام ہے وہ دو گھنٹے میں سرانجام پاتا ہے کیونکہ صاحب موبائیل پر مصروف ہے۔ یار ہر سھولت ہمارے لیے عذاب کیوں بن جاتی ہے؟ ہمیں فون کرنے کے آداب ہی پتہ نہیں ۔ہم لوگوں سے کچن میں ہانڈی ڈسکس کر رہے ہیں۔کپڑوں کے ڈیزائین پوچھے جارہے ہیں ورنہ۔۔۔ایک فقرہ سو بار دہرایا جاتا ۔۔
ہور دسو کی حال اے ؟

%d bloggers like this: