اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوہ سلیمان کا ایک یاد گاردورہ ۔۔۔ شکیل نتکانی

دو ہزار گیارہ میں چاچا اللہ بخش بزدار کے ساتھ کوہ سلیمان میں بزدار قبیلے کے علاقے میں جانے کا موقع ملا اور ضلع موسیٰ خیل کے ایک قصبے جس کا نام تو یاد نہیں رہا لیکن وہاں ایک بزرگ کا مزار تھا تک گئے تھے۔

شکیل نتکانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ہزار گیارہ میں چاچا اللہ بخش بزدار کے ساتھ کوہ سلیمان میں بزدار قبیلے کے علاقے میں جانے کا موقع ملا اور ضلع موسیٰ خیل کے ایک قصبے جس کا نام تو یاد نہیں رہا لیکن وہاں ایک بزرگ کا مزار تھا تک گئے تھے۔
کوہ سلیمان کا یہ سفر کم و بیش ایک ہفتے پر مشتمل تھا۔ غضنفر کے ساتھ ساتھ ملتان سے شعبہ صحافت سے منسلک مظہر خان، خضر بھٹہ، عمران گبول اور رؤف مان شریکِ سفر تھے۔
کوہ سلیمان ایک طلسماتی، خوبصورت اور رنگین پہاڑوں پر مشتمل سلسلہ ہے آپ پیدل چلتے جائیں اور پہاڑ اپنا رنگ تبدیل کرتا جائے گا بھورا، سرمئی، ہلکا سبز، سرخ، کالا، سفید، کتھائی غرض کہ کون سا رنگ نہیں ہے جو اس پہاڑ میں دکھائی نہ دے۔
سنگلاخ چٹانوں، چھوٹی بڑی وادیوں کے بیچ گاہے دشوار گاہے سہل گذرگاہیں عجب سی سحرانگیزی لئے ہوئے ہیں لوگ اس قدر سادہ اور مہمان نواز ہیں کہ بے اختیار ان سے محبت ہو جاتی ہے اور پسماندگی اور غربت اس قدر کہ انسان کو خود سے گلے کا احساس ہونے لگ جاتا ہے کہ شاید کسی حد تک ان کی اس حالت کا زمہ دار میں بھی ہوں۔
ہم جہاں جاتے وہاں کے لوگوں کو ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی ہوتی اور پھر مہمانوں کے لئے بھیڑ ضرور ذبح ہوتی کہ مہمان نوازی کا یہ واحد طریقہ تھا۔ بھیڑیں کھا کھا کر ہم سب کو یوں محسوس ہونے لگا کہ ہم خود بھیڑ بن گئے ہوں اور اس بات کا احساس اس وقت مزید پختگی اختیار کر لیتا تھا جب ہم رفع حاجت کے لیے ایک ٹولی کی شکل میں جاتے اور ایک دوسرے سے اوٹ لیکر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے پیٹ سے خارج ہونے والی آوازوں کو سنتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے بھیڑیں آپس میں باتیں کر رہی ہوں۔
اب رفع حاجت کا کوئی مخصوص وقت بھی نہیں رہا تھا کسی بھی وقت ایمرجنسی ہو جاتی تھی۔ ہم آدابِ مہمانانی بالائے طاق رکھ کر میزبانوں سے پوچھنے لگ گئے تھے کہ گوشت کے علاؤہ کچھ اور کھانے کو مل سکتا ہے تو میزبان بے چارگی کا اظہار کرتے۔
چونکہ میں نے چاچا اللہ بخش سے اس سفر کی بات کی تھی جس پر انہوں نے تمام انتظامات کئے تھے اس لئے سب لوگوں نے مجھے واضح طور مجھے بتا دیا کہ کچھ ہو جائے اب ہم گوشت نہیں کھائیں گے۔
ایک سہ پہر ہم ایک جگہ پہنچے پہلے حال احوال کا سلسلہ چلا، اب ہمیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا کہ بلوچی میں کیا بات ہو رہی ہے۔ جونہی لفظ ‘مانی’ نکلا میں نے چاچا سے فوری کہا چاچا اگر بھیڑ ذبح ہوتی ہے تو آپ خود کھانا ہم نہیں کھائیں گے۔ چاچا گھبرا گیا لیکن معاملہ فہم بندہ ہے ہماری مجبوری اور حالت اس کی سمجھ میں آ گئی اس نے میزبان سے کہا کہ بھیڑ ذبح نہ کریں۔
ہمارے ادھیڑ عمر میزبان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور چاچے کی منت پر اتر آیا بولا کہ میں علاقے میں لوگوں کو کیسے منہ دکھاؤں گا جب سب کو پتہ چلے گا کہ مہمان آئے تھے اور بھیڑ ذبح نہیں ہوئی تھی۔
چاچے کے اور ہمارے حساب سے ابھی ہم نے دو دن مزید کوہ سلیمان کے مختلف علاقوں میں جانا تھا لیکن بھیڑیں کھا کھا کر اب سب کی بس ہو گئی تھی مجھے کہا گیا کہ میں چاچا سے بات کروں کہ اب ہم نے واپس جانا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ چاچا آگے اطلاعات پہنچا چکا تھا کہ ہم آ رہے ہیں ہمارے زیادہ مجبور کرنے پر چاچا نے اپنے ایک جگہ ضروری جانے کا کہا ہم وہاں گئے رات گزاری اور صبح ملتان کے لئے نکل پڑے۔
یہ ایک یادگار سفر تھا۔ کوہ سلیمان کے مکینوں کے مسائل کا ادراک صرف وہاں جا کر ہو سکتا ہے۔ اب بھی کبھی کبھار جب کبھی اس سفر کا ذکر ہوتا ہے تو سب لوگ کہتے ہیں یار ایک دفعہ پھر ضرور جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: