مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لون دا جیون گھر: مقامیت کی تلاش کا ایک سفر۔۔۔ڈاکٹر اورنگزیب نیازی

ناول کی ابتدا میں یہ جملہ:ایہ لونی شہر ھا۔ایں شہر اچ خدا ھئی، جنگ ھئی نہ موت"قاری کو اپنی گرفت میں لینے اور آخر تک ساتھ لے کر چلنے کی بھرپور طاقت رکھتا ھے۔

ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لون دا جیون گھر۔۔۔۔سرائیکی کے مہان شاعر اور دانشور رفعت عباس کا پہلا ناول ھے۔
تاریخ کی باز پڑھت اور نو آبادیاتی متون کی رد تشکیل سے بہت پہلے رفعت عباس نے اپنی سرائیکی شاعری کے ذریعے مقامیت کی بازیافت، مقامی شناخت کی بحالی اور مقامی آدمی کی روح کو استعماری جبر سے آزاد کرانے کی بات کی تھی۔

استعمار کے ذکر سے لا محالہ ھمارا ذھن انگریزی استعماریت کی طرف منتقل ھوتا ھے لیکن رفعت عباس کا مؤقف مختلف ھے۔ان کے نزدیک انگریزی نو آبادیات، مذھبی جارحیت، فوجی آمریت اور جاگیردارانہ جمہوریت ،سب استعمار کی شکلیں ھیں۔رفعت عباس کا خطہ صدیوں سے مغلوب و مفتوح ھے اس لیے ان کے نزدیک عرب، افغان، منگول، پرتگالی اور انگریز سب استعمار کے روپ ھیں، جنھوں نے اس خطے کی مقامی شناخت کو اپنے اپنے بیانیوں سے مسخ کرنے کی کوشش کی ھے۔”لون دا جیون گھر”اس شناخت کو واگزار کرانے کی ایک کوشش ھے۔

ناول کی ابتدا میں یہ جملہ:ایہ لونی شہر ھا۔ایں شہر اچ خدا ھئی، جنگ ھئی نہ موت”قاری کو اپنی گرفت میں لینے اور آخر تک ساتھ لے کر چلنے کی بھرپور طاقت رکھتا ھے۔
لونی شہر کے باسی نمک سے شیشہ بناتے ھیں، شیشے میں عکس در عکس زندگی چلتی ھے۔اس شہر میں بادل اترتے ھیں۔شہر کے باسی بادل اور بارش کے گٹھے بنا کر دوسرے ملکوں، شہروں اور بستیوں کو بیچتے ھیں۔اس شہر کی زندگی سے موت منہا ھو چکی ھے، یہاں جنگ، خدا اور موت نہیں ھے، رقص، سنگیت، سر ،ناٹک اور چتر کاری ھے۔

اس شہر میں وقت کی اپنی تقسیم ھے اور اپنی تقویم۔اس شہر میں تاریخ کو نئے انداز میں پڑھا جاتا ھے۔مہا بھارت اور رامائن کی نئی تعبیر ھوتی ھے۔شیو ،دیوتا کے استھان سے اتر کر عام آدمی کے روپ میں سامنے آتا ھے، سکندر مقدونی الگ روپ میں دکھائی دیتا ھے۔شہر کے باسیوں نے ھزاروں سال میں کبھی جنگ نہیں کی لیکن محمد بن قاسم کی پیشکش کو ٹھکرا کر اپنے شہر کو اس کے لشکر سے چھپا لیتے ھیں۔

یہ انگریز کیپٹن رابرٹس کی استعماری سوچ کو اپنے ناٹک گھر میں چیلنج کرتے ھیں۔ناول کا آغاز لونکا کی گمشدگی سے ھوتا ھے، لونکا مقامی آدمی ھے۔یہ یرشلم کےیسوع مسیح کی طرح خدا وند نہیں ھے،

عام بندہ ھے۔لونکا کی محبوب بیوی نسرا اسے اپنے اور بستی والوں کے خوابوں میں تلاش کرتی ھے، وہ سو سال تک کسی خواب میں نظر نہیں آتا، اگلی نسل لونکا کو داستانوں میں ڈھونڈتی ھے ،وہ دکھائی نہیں دیتا، سارنگ اسے ھندوستان کی چودہ ریاستوں میں گندھارا سے مگدھ تک تلاش کرتا ھے، وہ نہیں ملتا۔چندرمایہ اسے شاعری، رقص، پرندوں، درختوں، جھیلوں اور ساگروں میں تلاش کرتا ھے، اگاس اس کی تلاش میں دنیا بھر کی زبانیں کھنگالتا ھے۔۔۔

لونکا پھیل جاتا ھے، تحلیل ھو جاتا ھے، اپنے شہر سے نکل کر ارد، گرد پھیل جاتا ھے۔اس کی گمشدگی کی خبر دنیا میں پھیل جاتی ھے۔ماؤں کو یقین ھے کہ اب لونکا ان کی کوکھ سے جنم لے گا۔۔۔مقامیت کی تلاش صرف ناول نگار کے خطے کا نہیں ایک عالمگیر مسئلہ ھے۔لونکا کی تلاش کا یہ سفر 2019ء میں ملتان شہر تک پہنچتا ھے۔۔۔۔لونکا کی، مقامی آدمی کی تلاش کا یہ سفر ابھی جاری ھے۔

رفعت عباس نے محض کہانی پن کے شوق میں قصہ نہیں گھڑا۔نہ ہی مقبول عام روش کی پیروی کی ھے۔انھوں نے تارخ کے بہتے ھوئے دھارے میں سے اپنی دھرتی کے زخم اٹھائے ھیں، زخم لو دیتے گئے، کہانی بنتی گئی۔یہ تاریخی ناول نہیں ھے، اس کے کردار لونکا، نسرا، درشا، شوبھا، سارنگ، چندر جایہ، اگاس تاریخی کردار نہیں ھیں، تاریخ کے اجزا ھیں، یہ تاریخ کے مسافر ھیں جو مختلف مکانوں اور زمانوں سے گزرتے ھیں۔

کہانی کے کردار، لوکیل اور ثقافتی و حیاتیاتی مظاہر مل کر ایک اساطیری فضا کو جنم دیتے ھیں۔لوک دانش حکایتی اسلوب کے اندر سے ظہور کرتی ھے۔رفعت عباس کے تاریخی شعور اور طرز احساس نے فکشن کو آرٹ کی سطح پر برتا ھے۔

ناول کی زبان مشکل ھے، یہ ٹھیٹھ سرائیکی ھے۔ انگریزی، عربی، فارسی اور اردو کے الفاظ سے انکار در حقیقت لسانی استعماریت کے انکار سے عبارت ھے۔۔
رفعت عباس سے اسی سطح کے ناول کی امید تھی، انھوں نے اپنے قاری کو مایوس نہیں کیا۔

لونڑی شہر کے اس کاتھی کے لیے بہت مبارک۔
**دو روز قبل رفعت صاحب نے یہ خوش خبری بھی سنائی ھے کہ اس ناول کو اردو روپ وہ خود دے رھے ھیں۔

یہ بھی پڑھیں:

مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات۔۔۔عباس سیال

نامور سرائیکی شاعر رفعت عباس کی گفتگو

%d bloggers like this: