اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(آخری قسط)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر ملاح اور چراغی جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ دیہاتوں میں انسان اور انسان دوست جانور ایک ہی چہار دیواری میں اکھٹے زندگی گزارتے ہیں، یعنی صحن میں بیٹھنے اور سونے کے لیئے بان کی چارپائیاں اور حویلی کے کونوں میں بندھی بھینس،گائے، گدھا، گھوڑی، بھیڑ، بچھڑا، بکری، بکرا، بیل اور صحن میں آزادی سے گھومتی مرغیاں، کتا اور بلی، آزادانہ اڑتے اور چگتے کبوتر۔ درختوں پر گھونسلوں میں بیٹھی چڑیاں اور لالیاں اور خاص کر شہتوت کے درخت پر شہد کا چھتہ، یہ سب ایک ہی صحن و حویلی کے مکین تھے۔
حویلی کے ایک کونے میں کیاری بنی ہوئی تھی جس میں ہرا دھنیا، پودینہ،تھوم، مرچ، کریلے، توری اور بینگن سمیت دیگر سبزیاں اگائی گئیں تھیں اورساتھ ہی مونگرا، موتیا، گلاب اور رات کی رانی کے پودے پوری حویلی کو اپنی خوشبو سے مہکا رہے تھے۔ باورچی خانہ درخت تلے کھلی جگہ پر بنایا گیا تھا جس پر مٹی کی کٹوی میں کچھ پک رہا تھا۔
چاچا کہنے لگا بیٹا پہلے منہ ہاتھ دھو کے تھکاوٹ بھگانے کے لیئے بکری کے دودھ کی چائے پی لو، پھر آپ کو پھوپھیر باہر کا چکر لگوا کر آتا ہے۔ شام کے سائے رات کی تاریکی سے گلے ملنے کو بے چین تھے۔ ہم تین پھو پیر گھر سے باہر سیر کرنے نکل پڑے۔ لال آلی جھوک اس وقت اونچی جگہ پر بنائے گئے پندرہ بیس کوٹھوں پر مشتمل تھی جن کے آگے صحن نہیں تھے اور مال مویشی بندھے ہوئے تھے۔ راستے میں ایک نالے طرز کا "ٹوئیا” تھا جس کے پانی میں چاند نے اپنی روشنیاں بکھیرنا شروع کر دی تھیں۔
ارد گرد کا چکر لگانے کے بعد گھر واپس آئے۔ یاد رہے کہ دولہا اور دلہن سگے چچا زاد یعنی آپس میں پتریر تھے۔ رات کو حویلی ہی میں تھال کی تھاپ پہ خاندان کی ” نینگریوں ” نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ اور پاؤں سے پاؤں ملا کر "کیکلی "ڈالی اور گھومتے ہوئے گاتی رہیں
کِکلی کلیر دی پَگ میرے وِیر دی
دوپٹہ میرے بھائی دا پِھٹّے مُنہ جوائی دا۔۔
گھریلو محفل اس وقت اپنے پورے جوبن پر پہنچی جب لڑکے اور لڑکی یعنی ایک ہی خاندان کی تمام بڑی بوڑھی عورتوں اور لڑکیوں نے مل کر جھمر دریس ڈالی اور ڈھولک والی مراثن کے ساتھ سرائیکی وسیب کی درویش صفت گلوکارہ مائی اللہ وسائی کاگایا ہوا سہرہ ” متھے تے چمکن وال میڈے بنرے دے“ گایا اور خوب ایک دوسرے پر ویلیں نچھاور کیں۔
ڈھولک کے ساتھ جب تھال اور مٹکے کے سازنے ساتھ دیا تو پورے ماحول میں جیسے تازگی کی لہر دوڑ گئی۔ یہی تو ہمارا سرائیکی وسیب ہے، یہی تو وہ معاشرہ ہے کہ جہاں اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے اور بولنے تولنے کے طور طریقے سب کچھ سیکھائے اور بتائے جاتے ہیں۔ جس میں مٹھاس ہے، محبت اور اپنائیت ہے۔ جس میں حیا ہے۔ تمیز ہے اور لحاظ، مروت ہے۔ جس میں بہن بیٹی کی قدر اور نظروں کا جھکاؤ ہے۔
"کچے "کے دیہاتوں میں چاند اور تاروں کی بہت زیا دہ اہمیت ہے۔ رات کو حویلی میں بان کی چارپائیوں پر سوتے ہوئے چاند اورستارے آنکھوں کو تسکین فراہم کر رہے تھے اور خاص کر چارپائیوں پہ لیٹے لیٹے ایک کے بعد ایک سوالی جوابی ”ڈوہڑے“ دل کو لبھانے اور نیند کی وادی میں لے جانے کے لیے کافی تھے۔ اپنی ماں کے ساتھ ایک بچہ بار بار رو رہا تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ” اج ماسی ایکوں جَلماں لوائن” ۔ واقعی "کچے "کے لو گ سندھو دریا کی طرح فراخ دل اور چاند تا روں کی طرح ٹھنڈے دل و دما غ کے ما لک ہیں۔اس روما ن پرور قدرتی فضا کی تہذیب و ثقافت بھی رومان پر ور ہے، مگر زندگی کٹھن ہے۔
گاؤں کی زندگی اپنے اندر ایک عجیب قسم کی سادگی، صفائی اور خوبصورتی رکھتی ہے۔ یہاں انسان اپنے آپ کو فطرت کے قریب محسوس کرتا ہے۔ جب گرمی کے دنوں میں تیز تپتی ہوئی دھوپ انسان کو بیحال کردیتی ہے۔ تو رات کو ستاروں سے بھرے آسمان روح کو راحت بخشتے ہیں۔ رات کے وقت جب ہر طرف سناٹا چھایا رہتا ہے، اور چرند پرند اور انسان اپنے اپنے رہائشگاہوں میں آرامی ہوتے ہیں، تب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری کائنات نیند کی آغوش سی لپٹی ہوئی ہے۔ جیسے کہ فطرت کے سارے نظام آرام فرما رہے ہیں۔ اور یہ سناٹا تب تک چھایا رہتا ہے، جب تک "سرگی ” کے وقت ” ککڑ بانگ نہیں دے دیتا "۔
میں بھی ” نور پیر ویلے ” ککڑ کی بانگ پر پھوپھیروں کے ساتھ اٹھا۔ بھینس کا خالص دودھ، دیسی گھی، باجرے کی روٹی، گھر کا مکھن اور پتلی لسی جب ناشتے کے لیئے دی گئی تو ایک انجانی سی بھوک امڈ پڑی۔ ناشتہ کرتے ہوئے حویلی کے درمیان میں پھوپھیر کو لگاتار ” ڈنٹ” لگاتے دیکھا تو اس نے وہیں سے جواب دیا پھو پیر آج صبح نکاح کے بعد میرا "دودا ” کا مقابلہ ہے، تیاری کر رہا ہوں۔
ناشتے کے بعد شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں، کیونکہ آج ہی نکاح اور رخصتی بھی ہونا تھا۔ پھوپھی نے میرے ہاتھ پر مساگ رکھتے ہوئے کہا ” مساگ مل گھن اج جنج د ی ڈیہاڑ ہے”۔ میرے لیے ایک چھوٹا بچہ خصوصی طور "جال ” کے درخت سے تازہ ”پیلو ں“ اتار کر لے آیا۔ گھر میں لگی ٹاہلی پر رسوں کی مدد سے بنائی گئی "پینگھ” پر کافی جھوٹے کھائے۔
میری عمر کے لڑکے اور لڑکیاں مجھے پہلی دفعہ ملے تھے وہ سب مجھ میں گہری دلچسپی لے رہے تھے، مجھ پر بے شمار سوال کرتے کیونکہ وہاں کوئی بھی پڑھنے لکھنے یا سکول جانے والا بچہ نہیں تھا، وہاں تو سکول کا وجود ہی نہیں تھا۔ معصومیت بھرے سوال بھی انوکھے تھے جن میں ایک کا جواب بھی مجھے نہیں آتا تھا۔ مثلا آپ بڑے ہو کے کیا بنو گے؟ آپ کے پٹواری بننے کا چانس ہے؟ کب شادی کرو گے؟ شادی غیروں میں یا اپنوں میں کرو گے؟۔
آپ کو پڑھی لکھی بیوی اچھی لگتی ہے یا ان پڑھ؟۔ سنا ہے پڑھی لکھی لڑکیاں گمراہ اور مغرور ہوتی ہیں؟ تم منڈوا یعنی سینما دیکھتے ہو؟ صرف وہاں کے بزرگ میرے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کا حال احوال پوچھتے تھے۔ نئی نسل مجھے ایک اجنبی مسافر کی طرح دیکھتی البتہ ان کے لیے یہ بات قابل فخر تھی اور سب گاؤں والوں کو بتاتے کہ میں ان کا پھو پھیر ہوں ڈیرہ سے خصوصی طور پر شادی پہ آیا ہے اور یہ لاہور کے اسکول میں پڑھتا ہے۔ یہ خلوص بھرے، محبت سے لبریز، سادہ مگر پُر اخلاق، دیہاتی مگر با کردار لوگ اور خاندان میری دادی اماں کا "پیکا” تھا۔۔

%d bloggers like this: