اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(قسط 10)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راستے میں اردگرد کٹی ہوئی گندم ” گڈیوں ” کی شکل میں کھلیانوں میں پڑی تھی اور ابھی فصل نہیں اٹھائی گئی تھی۔ اردگرد کے کئی کھیتوں میں "برسین” اور اس کے پھول نظر آ رہے تھے۔ کہیں کہیں گنے کے کھیت بھی تھے جو ابھی اپنی کمسنی کی حالت یعنی ” ٹانڈوں ” کی صورت اپنی معصومی بیان کر رہے تھے۔ چاروں طرف حسنِ فطرت کی فراوانی تھی، یہ حقیقت ہے کہ فطرت کو اگر اپنے اصلی روپ میں دیکھنا ہوتو وسیب کے گاؤں سے بہتر اور جگہ نہیں، بلکہ انگریزی کا مقولہ ہے کہ "دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے”۔
میں انہی فطرت کے نظاروں میں کھویا چلا جا رہا تھا۔ ایک آجڑی اپنی کچھ بکریوں، بکروٹے، لیلے، گائے بھینسیں اور خاص کر ایک "گھبنڑ” گائے کو لے کر جا رہا تھا۔ مال مویشیوں کے گلے میں بجنے والی سریلی گھنٹیاں میرے کانوں کو بہت مسحور کر رہی تھیں۔ دور دور تک فصلیں دیکھتا ہوا، کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی ہوا کا سُر سنتا ہوا میں اپنی دھن میں اکیلا چلا جار ہا تھا۔
ہر طرف ہریالی اور سبزہ ہی سبزہ بڑا حسین منظر پیش کر رہا تھا، "دیگر ” کی بارش کی بدولت موسم بڑا سہانا تھا، اور ہوا بھی کسی نشیلی حسینہ کی طرح چل رہی تھی۔ تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جگہ گنے کے کھیت میں دو عدد سوؤر مع اپنی فیملی کھڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر فطرت کے سب نظارے میرے "نِکے ” سے دماغ سے محو ہو گئے۔ اب مجھے خوف آنے لگا کیونکہ میری پاس صرف ایک "سوٹی ” تھی اور کوئی ہتھیار نہیں تھا، میں وہیں رک گیا اور سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ چند لمحوں بعد ایک شخص گھوڑے پر سوار ادھر آ نکلا۔ اس نے جب میری حالت دیکھی اور میں نے ماجرہ سنایا تو اس نے اپنے گھوڑے کو باگ لگا کر سوؤروں پر چڑھائی کر دی۔ گھوڑے کے ہنہنانے اور اپنی طرف آتے دیکھ کر سوؤر گنے کی فصلوں میں رو پوش ہو گئے۔ میرا راستہ صاف ہو گیا تب میں نے سکون کا سانس لیا۔
میں جلدی جلدی چلنے لگا تاکہ محفوظ جگہ تک پہنچ سکوں۔ چند قدموں بعد مجھے میری منزل "لال آلی جھوک” کے کچے گھر اور درخت جھنڈ کی شکل میں نظر آنے لگے۔ سورج مغرب کی طرف ڈوبنے کی مکمل تیاری کر رہا تھا لیکن میں غروب سے آدھا گھنٹہ پہلے اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ میزبان حضرات یعنی "پھوپھیر”ہمارے استقبال کے منتظر تھے، آمد پر بڑا پُرتباک استقبال "گلکڑیاں ” ڈال کر کیا۔ کچے گھر، گلیاں و راہداریاں صدیوں پہ محیط سرائیکی وسیب کی محرومیوں کی ترجمانی کر رہی تھیں۔
"چیکنڑی” مٹی کے "چوپے ” والے سادہ گھر، کھجور کے درختوں اور سرکنڈوں سی بنی کچی مٹی کی چھتیں اور بعض کی گھاس پھونس کی چھتیں سب حقیقت کھول رہی تھیں۔ لیکن چار دیواری کا رواج نہیں۔ میرے رشتہ دار مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور میں اب اپنوں میں پہنچ کر بہت محفوظ محسوس کرنے لگا۔میرے چاچے، چاچیاں، پھوپھیر، پتریر، چھوؤر، چھیریں اور چھوٹے بچے اردگرد جمع ہو کے ملنے لگے۔
بغیر چار دیواری کے کھلی حویلی، سرمئی و نیلا آسمان، صاف فضا، تازہ ہوا اور کھلے صحن میں قطار میں بچھی بان کی چارپائیاں، سارا منظر مہکا رہا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں شہتوت کے درخت کی چھاؤں کے نیچے پانی کے ” گھڑے” رکھے ہوئے تھے۔مٹی کے گھڑے کا پانی اور اس کی میٹھی مانوس مہک اور تراوٹ مجھے اپنی طرف راغب کر رہی تھی۔
فورا اسی طرف پانی پینے کے لیے قدم بڑھائے تو "پھو پھیر” نے بازو کو پکڑتے ہوئے کہا "ناں ناں توں مہمان ہیں، پانڑی میں گھن آنداں ” جب وہ جانے لگا تو اسکی ماں نے آواز دی ” بچڑا ایکوں بٹھل اچ پانڑی نہ ڈے، اے شہری ہے ونج کانس توں ششین گلاس چا گھن آ” انکی محبت، سادگی اور خلوص مجھے انکا مقروض بنا رہی تھی۔ شہتوت اور نیم کے درختوں کی چھاؤں میں رکھی چارپائیاں کسی محل کے تخت سے زیادہ آرام دہ تھیں۔ کھلے صحن کے ایک کونے میں تندور تھا جس سے نکلتا دھواں اور مہک گواہی دے رہی تھی کہ اس میں چند لمحے پہلے ہی کیکر اور پراسوں کا "بالہنڑ” ڈالا گیا تھا۔ ابھی پانی پی ہی رہا تھا کہ میرا "وڈا پھوپھیر” ہاتھوں میں "ڈاندوں ” (بیلوں)کی جوڑی کی رسی تھامے اندر داخل ہوا اور سیدھا جا کر کونے میں لگے ٹاہلی کے درخت سے باندھ کر مجھے گلکڑی ڈالنے آ گیا۔
اس کے ساتھ ہی اسکا چھوٹا بھائی ہاتھ میں پکڑی "درانتی، رمبا اور کلہاڑی زمین پر رکھتے ہوئے بڑے خلوص و محبت سے ملا۔ ایک بوڑھی خاتون کچے کمرے کے باہر پتھر کے پاٹ والی چکی پر گندم، مکئی یا پھر باجرہ پیس رہی تھی اسے ایک خاتون نے آواز دی ” اماں، دیرے چوں اچیچا شادی کیتے بچڑا گلزار آیئے” اچھا اچھا کرتی بزرگ خاتون نے چکی روک کر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی، میں ادب کی خاطر ان کے اٹھنے سے پہلے جلدی جلدی ان کی طرف چل پڑا۔ میں نے انکے گھٹنوں کو چھونے کی خاطر جھکا تو انہوں نے بڑی شفقت سے میرے سر پر بوسہ دیا اور گلے لگایا اور میرے گھروالوں کا حال پوچھنے لگی۔
جاری ہے۔

%d bloggers like this: