اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

21 دسمبر کیلئے ایوانکا کی گرمجوشی اور میری تحقیق ۔۔۔نصرت جاوید

21 دسمبر کیلئے ایوانکا کی گرمجوشی اور میری تحقیق:سیاست کے بارے میں مسلسل لکھنے سے جی اُکتا چکا ہے۔ پاکستان کے آزاد اور بے باک میڈیا کی سکرینوں پر چھائے ذہن سازوں کی مہربانی سے دریافت یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

21 دسمبر کیلئے ایوانکا کی گرمجوشی اور میری تحقیق:سیاست کے بارے میں مسلسل لکھنے سے جی اُکتا چکا ہے۔ پاکستان کے آزاد اور بے باک میڈیا کی سکرینوں پر چھائے ذہن سازوں کی مہربانی سے دریافت یہ بھی ہو رہا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ اپنی ’’آل اور مال بچانے‘‘ کے لئے وہ جولائی 2018 کے صاف شفاف انتخاب کے ذریعے قائم ہوئی عمران حکومت کو منفی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے وقت سے پہلے گھر بھیجنا چاہ رہے ہیں۔

ہمارے عوام بھی پریشان کن حد تک سادہ لوح ہیں۔ قیمے والا نان کھاکر ’’عطار کے ان ہی لڑکوں‘‘ کو اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں جنہوں نے وطنِ عزیز کو مستقل نااہلی اور بدعنوانی سے تباہ و برباد کردیا۔ اسی باعث ہمارے ایک تاریخ ساز جج جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے ’’حیف ہے اس قوم‘‘ کی دہائی مچائی تھی۔ ’’جہلا‘‘ پر مشتمل قوم ازخود ’’سسیلین مافیا‘‘ سے نجات پانے میں ناکام رہی تو ایک بار پھر انہوں نے کمال جرأت سے کام لیتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب ہی سے نہیں کسی بھی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی تاحیات ’’نااہل‘‘ قرار دیا۔

آج بھی مجھے وہ ’’جشنِ تشکر‘‘ یاد ہے جس کا اہتمام تحریک انصاف نے 2017 میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد اسلام آباد میں ایک جلسے کی صورت کیا تھا۔ اس جلسے میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے عزت مآب ججوں کی تصویریں بل بورڈز پر چسپاں تھیں۔ انہیں قوم کے ’’ہیرو‘‘ پکارا گیا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف کی نااہلی والے دن کو ہر برس ’’قومی دن‘‘ کی صورت منایا کریں گے۔ مذکورہ فیصلے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ ہم مگر احسان فراموش قوم ہیں۔

عزت مآب جسٹس منیر کو بھی بھول چکے ہیں جنہوں نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ دریافت کرتے ہوئے قیامِ پاکستان کے چند ہی برس بعد ہماری سول اور ملٹری انتظامیہ کو یہ حق دیا کہ وہ جب بھی سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک کو تباہی کے دہانے کی جانب بڑھتا دیکھیں تو ’’آئین‘‘ نامی کتاب کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اقتدار سنبھال لیں۔ ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے پرائمری سکول سے اس معاشرے کے صاف ستھرے لوگوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ اچھی حکومت کے قیام میں مددگار ثابت ہوں۔

بدقسمتی ہماری مگر یہ رہی کہ Grass Roots سے ’’موروثی‘‘ کے بجائے نئے لوگوں کو سامنے لانے والا نظام ہمارے اوتاولے عوام چلنے نہیں دیتے۔ صاف ستھری جمہوریت سے فیض یاب ہونے کا آخری موقعہ ہمیں جنرل مشرف کے نو برسوں میں نصیب ہوا تھا۔ اس کے بعد 22 سالہ جدوجہد کی بدولت عمران خان صاحب برسراقتدار آئے ہیں۔ بندہ ایمان دار ہے۔ مال پانی کمانے کی جانب راغب نہیں۔ ان کی صورت میں ہمیں سیاسی ہی نہیں ایک روحانی رہ نما بھی میسر ہوچکا ہے۔ گھبرائیں نہیں۔ ان پر اعتبار کریں۔

خان صاحب کی سہولت کی خاطر ہی میں سیاسی موضوعات پر لکھنے سے اجتناب برتنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ ایک پنجابی محاورے میں بیان ہوئے محلے کے ’’اونترے منڈے‘‘ مگر ان موضوعات پر تبصرہ آرائی کو اُکساتے رہتے ہیں۔ اپنے کالم کے لئے مجھے Likes اور Shares بھی درکار ہیں۔ مور کی طرح جنگل میں ناچنا نہیں چاہتا۔ تماشائیوں کی ہوس لاحق ہے۔ مدح سرائی انا کو تسکین پہنچاتی ہے۔

سیاست کو نظرانداز کرنے کی خواہش میں دیگر موضوعات ڈھونڈتے ہوئے آج سے چند ماہ قبل مجھے ستاروں کی چال پڑھنے والے علم یا ہنر سے سرسری آشنائی نصیب ہوئی۔ اس حوالے سے چند کالم لکھے تو ندامت محسوس کی کیونکہ ذاتی طور پر میں ’’ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا‘‘ والی سوچ پر بچپن سے قائم ہوں۔ کسی کو قسمت کا حال جاننے کے لئے شغلاََ کبھی ہاتھ بھی نہیں دکھایا۔ ’’ہاتھ دکھانے‘‘ کی صلاحیت سے ویسے بھی محروم رہا ہوں۔

ستاروں کی چال کی بابت کامل بے اعتنائی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ میں اپنی حقیقی تاریخ پیدائش کے بارے میں لاعلم ہوں۔ میٹرک کی سند پر جو تاریخ پیدائش درج ہے اس کے مطابق میں جس برج کا حامل ہوں اس کی حرکیات کے بارے میں پڑھاتو خود کو ان سے قعطاََ محروم پایا۔ اس تناظر میں ستاروں کی چال کے حوالے سے کالم لکھتے ہوئے شرمساری محسوس ہوئی۔ لوگوں کو دونمبری کے ذریعے گمراہ کرنے کا احساس تنگ کرنا شروع ہوگیا۔ ستاروں کی چال والے علم یا ہنر سے میری بچت مگر ممکن نظر نہیں آرہی۔

گزرے منگل کی رات بے خوابی سے بیزار ہوا اپنا فون اٹھاکر ٹویٹر دیکھنا شروع ہوگیا۔ فون کھولتے ہی جو پہلاٹویٹ نظر آیا وہ امریکی صد ر ٹرمپ کی حسین وجمیل دُختر نے لکھا تھا جس کے ساتھ ہمارے زلفی بخاری صاحب کو ملاقات کا شرف بھی نصیب ہوچکا ہے۔ ایوانکا ٹرمپ نے اس ٹویٹ کے ذریعے بہت گرم جوش انداز میں اطلاع یہ دی کہ 21 دسمبر کو دو اہم ترین سیارے -زحل اور مشتری- ایک دوسرے سے محض دس ڈگری کے فاصلے پر ہوں گے۔

ان دو ستاروں کا ایسا ملاپ اس سے قبل بقول ایوانکا 1226 میں ہوا تھا۔ ایوانکا نے مگر یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ ملاپ دُنیا پر کیا عذاب یا رحمت لایا تھا۔ وہ بیان کر دیتی تو اندازہ لگانے میں آسانی ہوجاتی کہ تقریباََ 800 برس بعد ہونے والا یہ ملاپ اب کی بار کیا گل کھلائے گا۔ ایوانکا کے ٹویٹ نے مگر تھوڑی تحقیق کو مجبور کردیا۔ بے خوابی کی اذیت بھلانے کا بہانہ بھی مل گیا۔

اپنی ’’تحقیق‘‘ کا آغاز میں نے علی اولومی کے ٹویٹر پر لکھے ایک Thread سے کیا۔ وہ ’’اسلامی تاریخ‘‘کا پروفیسر ہے۔ اس حوالے سے عباسی خلافت کے دور کے نمایاں ثقافتی رویوں پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہے۔ ستاروں کی چال کے حوالے سے اس کی تحقیق پر توجہ دیتے ہوئے مجھے اطمینان رہتا ہے کہ میں ہندوئوں کے ’’ویدک‘‘ جنتر منتر پر انحصار نہیں کررہا۔

علی اولومی کے بقول عباسی خلفاء جس ستارہ شناس کو سب سے زیادہ مستند گردانتے تھے اس کا نام ماشاء اللہ بوشعر تھا۔ اس کے نام سے مگر دھوکا نہ کھائیے گا۔ وہ یہودی مذہب کا پیروکار تھا۔ بہرحال بنیادی طور پر مذکورہ ستارہ شناس کی تحریروں پر انحصار کرتے ہوئے علی اولومی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مشتری اور زحل ہر 20 برس بعد کسی ایک برج میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کا ملاپ جب بھی ہو تو کوئی ’’بڑا واقعہ‘‘ رونما ہو جاتا ہے۔ ہر 20 برس کے بعد ان دو سیاروں کا ملاپ گویا اس حوالے سے معمول ہے جس کے نتیجے میں اگرچہ کوئی نہ کوئی اہم بات ہوجاتی ہے۔

یہ جاننے کے بعد مگر میرے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ اگر زحل اور مشتری کا ملاپ ہر 20 برس بعد ہوا کرتا ہے تو 21 دسمبر 2020 میں ہونے والے ملاپ کے بارے میں ٹرمپ کی بیٹی اتنا Excited کیوں نظر آئی۔ اس نے 1226 والے ملاپ کا حوالہ بھی کیوں دیا۔ مزید’’تحقیق‘‘کو لہٰذا مجبور ہوگیا۔ فون کے بٹن دباتے دباتے بالآخر دریافت یہ کیا کہ زحل اور مشتری کا ہر بیس برس بعد ملاپ اپنے تئیں کوئی اہم بات نہیں ہے۔

توجہ اس امر پر دینا ہوتی ہے کہ وہ کس برج میں مل رہے ہیں اور ان کا ’’مقابلہ‘‘ کونسے برج میں بیٹھے سیاروں سے ہورہا ہے۔ اس عمل کو نجومی حضرات Triplicity کہتے ہیں۔ میں اس کا اُردو متبادل ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔

بے خوابی کی وجہ سے مسلط ہوئی ’’عطائی تحقیق‘‘ کی بدولت دریافت یہ بھی ہوا کہ مبینہ طورپ ر ہمارا مقدر طے کرنے والے 12 بروج ہیں۔ یہ بنیادی طور پر چار خصوصیات کے حامل ہیں۔ کچھ ستارے ’’آتشی‘ ‘ہیں۔ چند ’’آبی‘‘۔ دیگر کا تعلق زمین اور ہوا سے ہے۔

بتایا یہ جارہا ہے کہ گزشتہ 900 برسوں سے مشتری اور زحل ابھی تک کسی ایسے برج میں جمع نہیں ہوئے تھے جسے Air Sign کہا جاتا ہے۔ 21دسمبر 2020 کو یہ دونوں ہوا جیسی خصوصیت رکھنے والے Aquarius یعنی دلو برج میں مل رہے ہیں۔ دلو کو عوام کا حاکم سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ زحل نظم وضبط کا تقاضہ کرتا ہے۔ مشتری اس کے مقابلے میں ’’نظام کہنہ‘‘ کو للکارتے ہوئے نئے نظام کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد معاملات میری سمجھ سے بالاتر ہونا شروع ہوگئے۔ بنیادی پیغام مگر یہ ملا ہے کہ 21 دسمبر 2020 کو مشتری اور زحل کا جو ملاپ برج دلو میں ہونا ہے وہ دُنیا بھر کے عوام کو اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو اُکسائے گا۔حکمران ریاستی جبر کے بھرپور اور وحشیانہ استعمال کے باوجود غصے سے بپھرے عوام پر قابو پانے میں ناکام رہیں گے۔حکومتی کنٹرول کے جو ڈھانچے گزشتہ 800 برسوں کے دوران متعارف ہوئے ہیں وہ پاش پاش ہوجائیں گے۔

اس کے مقابلے میں عوام ’’امدادِباہمی‘‘ جیسا کوئی نیا نظام منظرِ عام پر لے آئیں گے۔ یہ سب جان کر دل کو بہت تسلی ہوئی۔ یہ بات مگر ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ امریکی اشرافیہ کی ایک بہت ہی تگڑی نمائندہ یعنی ایوانکا ٹرمپ حکمرانوں کے لئے ’’بدخبری‘‘ لاتے اس ملاپ کے بارے میں اتنی خوش کیوں محسوس کر رہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

%d bloggers like this: