حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار شیرباز خان مزاری90سال کی عمر میں وفات پاگئے، لگ بھگ تین دہائیوں سے سیاسی عمل سے لاتعلق مزاری صاحب نے اپنی علالت سے قبل خود کو اپنی لائبریری تک محدود کر لیا تھا۔
سیاست سے لاتعلقی انہوں نے اپنے بعض رفیقوں کی خودپرستی اور انہیں اعتماد میں لئے بغیر نیا سیاسی سفر شروع کرنے پر اختیار کی تھی۔
ذی فہم وسیع المطالعہ سردار شیرباز مزاری سے آخری ملاقات سال 2001ء میں ہوئی۔
میں ان کے پاس ڈیفنس کراچی میں ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا، وہ حسب معمول اپنی لائبریری میں کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھے، بہت تپاک سے ملے، حال احوال دریافت کیا یہ سن کر حیران ہوئے کہ میں پشاور میں مقیم ہوں اور وہاں ایک اخبار میں ملازمت کررہا ہوں۔ بولے تمہیں ملتان میں قیام کرنا چاہئے تھا، صحافت بھی وہیں کرتے، اس طرح قوم پرست دوستوں کا ساتھ بھی دے سکتے تھے۔
عرض کیا روزگار شہر شہر لئے پھرتاہے، پھر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہم نے بیت گئے ماہ وسال کی یادیں تازہ کیں۔
ان سے میرا تعارف 1970ء کی دہائی میں ہوا تھا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد وہ آگے بڑھے اور قوم پرست ترقی پسندوں (نیپ کی باقیات) کو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) قائم کر کے پلیٹ فارم فراہم کیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ این ڈی پی سندھ کا کنونش بلدیہ ٹاون کراچی کے علاقے سعید آباد میں ہوا تھا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی حاکم علی زرداری این ڈی پی سندھ کے چیف آرگنائزر بنے تھے۔
1975سے2001ء کے درمیان ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، کبھی کراچی میں ان کی قیام گاہ پر اور کبھی سیاسی تقریبات میں، ان میں ایک ملاقات ملتان میں اور ایک لاہور میں بھی ہوئی۔
مزاری صاحب 1970ء کے عام انتخابات میں اُس وقت کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے آزاد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کے دوست تھے مگر انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت کی بجائے اپنے ایک دوست ہاشم غلزئی (غلزئی صاحب سینیٹ کے رکن بھی رہے) کے مشورہ پر حزب اختلافت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
1973ء کا دستور منظور کروانے کیلئے انہوں نے پشتونوں اور بلوچوں کو بھٹو کیساتھ مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔
این ڈی پی اولین سیاسی جماعت تھی جس نے تہذیبی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے مطالبہ کو اپنے منشور کا حصہ بنایا، ان کی جماعت نیپ کا سیاسی متبادل تھی بعد میں اس میں سے نیشنل پروگریسو پارٹی اور موجودہ اے این پی نکلیں۔ این پی پی زیادہ دیر تک نہ چل سکی وجہ و ہی ہے کہ ہمارے چار کمیونسٹ دوست جب اکٹھے ہوں تو لازم ہے کہ تقسیم ہو کر ان میں سے دو دوست نئی جماعت بنائیں۔
این ڈی پی بھٹو مخالف سیاسی اتحادوں یو ڈی ایف اور پھر پی این اے کے9ستاروں میں شامل ہوئی۔پی این اے پر الزام تھا کہ یہ اتحاد فوجی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے ایما پر بنا اور بھٹو کا تختہ اُلٹنے کی عالمی سازش کا مہرہ تھا۔ خیر اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔
شیرباز مزاری نرم خو اور کتاب دوست شخص تھے، ان کے بڑے بھائی میر بلخ شیرمزاری سابق نگران وزیراعظم ہیں۔ سردارشیر باز خان مزاری کو ہمیشہ اس بات کا ملال رہا کہ پی این اے نے بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کی راہ ہموار کی اور اصغرخان وپیر بگاڑا اور میاں طفیل محمد نے بھٹو سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی کا رنگ دیا، یہاں تک کہ جماعت اسلامی تو پی این اے سے بھاگ کر جنرل ضیاء کے ٹینک پر بھی سوار ہوگئی۔
انہوں نے ایک سے زیادہ بار اس امر کا اعتراف کیا کہ پی این اے بھٹو کی پھانسی میں ملوث تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کیخلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آرڈی کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، ان کی ہی وجہ سے بھٹو کے قاتلوں کے سہولت کار پی این اے کے چند رہنما اور مقتول بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو مزاری ہاوس میں ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے۔
ان سطور میں ایک سے زائد بار بیگم نصرت بھٹو کے وہ کلمات لکھ چکا جو انہوں نے ایم آر ڈی کی تشکیل کیلئے جاری مذاکراتوں کے دوران ایک مرحلہ پر مزاری ہاوس کے لان میں موجود صحافیوں کے سامنے کہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر سردار شیربازمزاری نہ ہوتے تو ایم آرڈی کا قیام قدرے مشکل ہوتا کیونکہ ذاتی رنجشوں، غلاظت بھرے نعروں اور بھٹو کے قتل کو بھول کر ماضی کے دشمنوں کیساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ بحالی جمہوریت کیلئے قائم ہوئے ایم آرڈی نامی اتحاد کی تشکیل کے مرحلہ میں بلاشہ بیگم نصرت بھٹو نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔
شیرباز مزاری کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ مطالعہ مستقل کرتے تھے، صبح اور شام کی اوقات میں تین تین گھنٹے اپنی لائبریری میں گزارتے اور کتابیں پڑھتے، ان کی وسیع وعریض لائبریری درحقیقت ان کا چہرہ تھی۔ اپنے ذخیرہ کتب کو دیکھ اور اس کے بارے میں تفصیل بتا کر وہ ہمیشہ خوش ہوتے۔
پچھلی تین دہائیوں سے وہ عملی سیاست سے لاتعلق تھے، انہیں دُکھ تھا کہ ان کی بنائی ہوئی جماعت این ڈی پی ملکی سیاست میں اہم کردار ادا نہیں کرسکی بلکہ کمیونسٹوں نے اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر کے اپنی راہ لی، یہ شکوہ کسی حد تک درست بھی تھا۔
سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا، یہ بات انہیں بہت بعد میں سمجھ آئی، جب سمجھ آئی تو وہ سیاست کو خیرباد کہہ کر لائبریری تک محدود ہوگئے۔
دوست نواز، علم دوست، کتابوں سے محبت کرنے اور باغیچہ میں لگے پودوں سے راحت محسوس کرنے والے شیرباز مزاری لگ بھگ90سال اس دنیا سرائے میں مقیم رہے۔ چھ دہائیاں انہوں نے پرجوش اور پرعزم شخص کے طور پر بسر کیں، آخری تین دہائیوں کے دوران تنہائی اوڑھ لی۔
سال2001ء میں ہوئی آخری ملاقات میں انہوں نے کہا تھا ”یہ ملک صرف اور صرف قومیتوں کے درمیان عمرانی معاہدہ پر قائم رہ سکتا ہے”
اسٹیبلشمنٹ جتنی جلدی اس حقیقت کو مان لیگی کہ یہ قدیم قومیتی شناخت رکھنے والی اقوام کا ملک ہے اس کے حق میں اچھا ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینیٹ کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست ووٹوں سے ہونا چاہئے اس کیلئے دو طریقے ہیں، اولاً صوبوں سے جو جماعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے جتنے ووٹ حاصل کر ے اس کے حساب سے اسے متعلقہ صوبے سے سینیٹ کی نشستیں ملیں یا دوسری صورت یہ کہ قومی وصوبائی اسمبلی کی طرح سینیٹ کیلئے بھی ووٹرز کو بیلٹ پیپرفراہم کیا جائے۔
مزاری صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے، حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ