مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاولنگر کی خبریں

بہاولنگرسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

بہاولنگر
(صاحبزادہ وحید کھرل)

ضلعی پولیس کا گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران جرائم پیشہ افراد کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن،خطرناک اشتہاری مجرمان سمیت درجنوں ملزمان گرفتار، شراب،چرس اور ناجائز اسلحہ برآمد۔

تفصیلات کے مطا بق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاولنگرقدوس بیگ کی ہدایت پرضلعی پولیس نے گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران مختلف مقامات پر

کاروائیاں کرتے ہوئے 32ملزمان کوگرفتار کرلیا۔ جن میں اے کیٹیگری سمیت 15 مجرمان اشتہاری بھی شامل ہیں۔

کاروائیوں کے دوران گرفتار ہونے والے منشیات فروشوں کے خلاف منشیات ایکٹ کے تحت 08 مقدمات درج کیے گئے

جن میں 224 لیٹرشراب معہ آلات کشید 2عدد چالو بھٹیاں اور2.720کلو گرام چرس برآمدہوئی۔

اسی طرح ناجائز اسلحہ رکھنے والے06ملزمان کو گرفتار کیا گیاجن کے قبضہ سے05عددپسٹل30بوراورایک رپیٹر 12بور برآمد ہوئی۔

ملزمان کو پابند سلاسل کرکے مقدمات کا اندراج کرلیا گیا ہے اورمزید تفتیش جاری ہے۔ کاروائیوں کے دوران مشکوک افراد کی بائیومیٹرک ڈیوائسزاور

قومی شناختی کارڈ کے ذریعے تصدیق کی گئی اور متعدد گھروں اور دیگر مقامات کی تلاشی بھی لی گئی۔

اس موقع پر ڈی پی او قدوس بیگ نے کہا کہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ اورجرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے

ضلع بھر میں اس طرزکی کاروائیاں جاری رہیں گی۔


یوتھ کا نیا لیڈر کون ہو گا ؟
(خیال یار )
کالم نگار…. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا یار خان چنڑ

۔۔۔۔۔۔۔

جب سے ہوش سنبھالا ملک پاکستان کی سیاست کو قریب
سے دیکھنے کا موقع ملا ہے

پہلے قیادت مخلص ہوتی تھی تو عوام بھی مخلص ہوتی تھی – وقت کے ساتھ ساتھ لیڈران نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا شروع کیے تو عوام بھی باشعور ہوتی گئی –

پہلے ووٹر اور سپوٹر جس پارٹی یا لیڈر کے ساتھ ہوتا تھا تو دل میں یہ عہد کر لیتا تھا کہ زندگی بھر اسکا جینا مرنا ایک ہی پارٹی ایک ہی لیڈر کے ساتھ ہو گا –

یہ جذبہ اور مخلص پن صرف عوام میں ہوتا تھا – جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا سیاسی نظام تو پہلے دن سے ہی شروع ہو چکا تھا –

اس کے ساتھ سیاسی پارٹیوں نے بھی سیاست کے میدان میں اپنا اپنا جھنڈا لہرا کر کام شروع کر دیا تھا –

نصف صدی تک تو عوام اور لیڈران ایک دوسرے کے ساتھ مخلص اور ایک پیج پر رہے اور پاکستان کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کرتے رہے

اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہا – کیونکہ اس وقت چاہے عوام ہو یا قیادت اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر پاکستان کی ترقی کا سوچتے تھے –

پھر ایسا ہوا کہ لیڈران نے پاکستان کے ساتھ محبت کم کر دی اور اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ ترجیح دینے لگے –

دولت اور اقتدار کی لالچ میں اندھے ہو کر انسانیت کا درس بھی بھول گئے – کوٹھیاں بنگلے بڑی بڑی گاڑیوں اور دولت کے پیار نے انہیں ایسا اپنی لپیٹ میں لیا کہ

اپنا دھرم دین ایمان بس دولت کو سمجھ بیٹھے – دولت اور اقتدار کی خاطر اس طرح اندھے ہوگئے کہ اپنا معیار ہی گرا لیا

انکی عقل پر اس طرح پردہ پڑا کہ یہ دن بدن اپنی گرتی ساکھ نہ بچا سکے اور تباہی کے دہانے پر جا پہنچے –

ان کے چہرے عوام کے سامنے کھل کر آگئے – عوام کا ان پر سے اعتماد اٹھنا شروع ہوگیا –

جو لوگ باشعور اور پاکستان کے ساتھ محبت کرتے تھے وہ ان لیڈران سے باغی ہونا شروع ہو گئے –

ہاں البتہ جو اندھی تقلید کے قائل تھے وہ ان کو قبلہ سمجھتے آئے ہیں اور آئندہ بھی سمجھتے رہیں گے –

اس پرانے فرسودہ نظام سے نئی نسل اکتا چکی ہے – یہ وہی پرانے لوگ تھے جو شرم و حیا اور رکھ رکھاؤ میں اپنی پگڑی کی لاج رکھتے ہوئے

اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک ہی پارٹی ایک ہی لیڈر کے ساتھ گزار دیتے تھے – اس لیے کہ بے وفائی کا داغ اپنے ماتھے پر نہ لگنے دیتے تھے –

ایک وقت تھا علاقے کی کوئی سرکردہ شخصیت کسی وجہ سے اپنی وفاداری تبدیل کرتی تو وسیب کے لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے تھے کہ یہ غدار ہے یار مار ہے –

وہ شخص وسیب کے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا تھا
آج عوام کو پارٹیاں تبدیل کرنا وفاداریاں تبدیل کرنا یہ سب کچھ لیڈران نے سکھایا ہے

جب سے لوٹا کریسی نے جنم لیا ہے سیاست کے میدان میں مخلص پن اور وفاداری تو محض نام کی ہی رہ گئی ہے –

ان لیڈران نے وفا کی دھجیاں تو خود اڑائی ہیں – اقتدار کے لالچ میں آ کر آئے روز چھلانگیں لگائیں جا رہی ہیں –

ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں –

اب کوئی لیڈر دوسرے پر انگلی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس لوٹا کریسی کا مزہ سب نے چکھا ہے –

اب سب کو ہر حال میں اقتدار چاہیے – یہ وفا – کے چکر میں باقی زندگی اقتدار کے بغیر نہیں گزار سکتے

ان لیڈران کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی غیرت بھی مر چکی ہے – ایک کرپٹ آدمی پچھلی پارٹی میں چاہے کتنی ہی کرپشن کیوں نہ کر چکا ہو چاہے

کتنا ہی گند نہ پھیلا چکا ہو جب وہ کسی دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو اسکا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے

اور وہ پھر سے دودھ کا دھلا ہوا ہو جاتا ہے – گزشتہ کچھ سالوں سے تو مسلسل یہی ٹوپی ڈرامہ عوام دیکھتی آ رہی ہے –

جو پارٹی اقتدار میں آ رہی ہوتی ہے یا جسے اقتدار میں لایا جا رہا ہوتا ہے اقتدار کے لالچ میں لیڈران بھوکے بھیڑیوں کی طرح بھاگ بھاگ کر اسی پارٹی میں شامل ہونے لگتے ہیں کہ

اس طرح انھیں بھی اقتدار میں اپنا حصہ وصولنے کا موقع ہاتھ آئے گا – ان تمام لیڈران کو دیکھ کر عوام عاجز آ چکی ہے –

اس ملک کی یوتھ اب واقعی تبدیلی چاہتی ہے اور ویسے بھی نئی نسل پر کوئی وفاداری کا بھوت بھی سوار نہیں ہے اور نہ ہی وہ لمبا وقت انتظار کر سکتی ہے –

نئی نسل نئی قیادت چاہتی ہے – آپ کے سامنے ژندہ مثال آج کی یوتھ کو تبدیلی کی شکل میں نیا لیڈر عمران خان مل گیا تھا –

اس یوتھ نے عمران خان کا ساتھ دے کر پرانے لیڈر اور بڑے بڑے برج الٹ کر رکھ دیے –

آج کی یوتھ شاید جو تبدیلی چاہتی تھی وہ ابھی مطمئن نظر نہیں آ رہی – اب نوجوان نسل پرانے لوگوں کی طرح نہ تو پوری زندگی ایک ہی لیڈر

اور ایک ہی پارٹی میں رہ سکتے ہیں – کیونکہ لیڈران کا بار بار پارٹیاں تبدیل کرنا اس کا بہت برا اثر عوام پر پڑا ہے اب یوتھ بھی تبدیلیاں دیکھنا اپنا حق سمجھتی ہے


اب عمران خان کی عمر کافی ہو چکی ہے –

اب نوجوان نسل کو نئی نوجوان قیادت چاہیے – اب نوجوان قیادت میں حمزہ شہباز مریم نواز مونس الٰہی بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ زرداری بھٹو نظر آتے ہیں –

مجھے ایسا لگ رہا ہے ان سب کا موازنہ کیا جائے تو ان میں اگے اصفہ بھٹو نظر آ رہی ہے –

اگر آصفہ بھٹو کو عملی سیاست میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تو سب سے آگے نکل جائے گی –

آصفہ بھٹو کا ملتان جلسے میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر شرکت کرنا انکی خود اعتمادی اور ان کی مختصر تقریر اور ان کی پارٹی کے حق میں

نعرے بازی اور کارکنوں کے جوش و جذبے کو بیدار کرنا واقعی قابل ذکر بات ہے –
میری نظریں جو دیکھ رہی ہے

اور میری ناقص رائے کے مطابق یہ سب کو پیچھے چھوڑ جائے گی – اسکی شکل لہجہ اور انداز شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بہت مماثلت رکھتا ہے –

پاکستان میں موروثی سیاست اپنا ایک وجود رکھتی ہے اور ابھی تو اور بھی چھوٹی بڑی پارٹیاں لیڈران اور انکی اولادیں خود کو پاکستان کا سلطان بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں –

اب دیکھنا یہ ہے موجودہ نوجوان نسل کوئی نیا لیڈر آگے لاتی ہے

یا مورثی سیاست سے بغاوت کرکے اپنی کلاس کے لوگوں کو آگے لا کر روایتی سلطانوں کو مسترد کرتی ہے –

لگتا یوں ہے کہ اب تبدیلی نہیں تبدیلیاں آئیں گی
خیر ابھی ہمیں اس بات کا انتظار ہے کہ یوتھ کا نیا لیڈر کون ہوگا ؟

(کالم نگار خدا یار خان چنڑ )

%d bloggers like this: