گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچے فضلو نے کشتی کے عرشے سے لکڑی کا پھٹا اٹھا کر کشتی اور بیٹ کے درمیان رکھ دیا جس پر بڑی احتیاط سے میں بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ بیٹ پر اتر آیا۔ خوشی سے ایک بھر پور انگڑائی لی، کیونکہ خوشی شادی میں شرکت کی تھی، گھر چھوڑنے کی نہیں۔ گھر چھوڑنے کا دکھ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں ہم جہاں آنکھیں کھولتے ہیں، جس آنگن سے پہلی بار نیلا آسمان دیکھتے ہیں، جس نیم ، ٹاہلی یا بیر کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی کوئل کی کُوک، چڑیوں کی پلکار، کوؤں کی کاں کاں کا سندیسہ سُنتے ہیں، وہ جگہ ہی ہماری کُل کائنات ہوتی ہے۔
اس کائنات کا سب سے بڑا دُکھ اپنے گھر کا آنگن چھوڑنا ہوتا ہے۔ آنگن چھوڑنا تو بہت دُور، ایسے لمحات کے تو تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیٹ سے کچھ فاصلے پر چند گھاس پھوس کی بنی شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔ ایک جھونپڑی کے باہر جال اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ یہ مچھیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔ جب سب مسافر باری باری کشتی سے اتر رہے تھے تو کشتی کے ملاح چاچے فضلو کے بھائی نے منہ کے ساتھ دونوں ہاتھ سے بگل بناتے ہوئے زور سے آواز لگائی۔ دُلا ماچھی !
جس طرح سورج آہستہ آہستہ اپنے جوبن پرآ رہا تھا ویسے ہی سندھو دریا کے شفاف پانی کا حسن نکھرتا جا رہا تھا۔ فطرت کی خوبصورتی تھی جو رنگوں اور روشنی میں بہہ رہی تھی۔ کشتی سے سارا سامان اتارنے کے بعد سب مسافر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ اچانک میرے کندھے پر اس نوبیاہتا دولہے نے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا "اچھا پتریر جُلدے ہیں ” یقین کریں لفظ "پتریر” میں اتنی اپنایت، محبت اور خلوص تھا کہ میں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس کو گلے لگایا اور اس کی دلہن کو کہا ” مسات میڈے پتریر دا خیال رکھیں ” اس بات پر منجملہ قہقہ بلند ہوا۔ آہ ! اب تو پتریر، مسات، ملویر، پھپیر جیسے الفاظ بھی متروک ہوتے جا رہے ہیں۔
اب ان الفاظ کی جگہ صرف "کزن” نے لے لی۔ اب چاچا، ماما، ماسڑ، "انکل” بن گئے، ماسی، چاچی،خالہ، پھپھی ” آنٹی ” میں ڈھل گئے۔
اسی اثناء میں چاچا دُلا ماچھی ہاتھ میں ایک جستی چائے کی چینک جسکا پیندہ دھویں سے ” کالا شوش” تھا اور دو مٹی کے پیالے لے کر آگیا۔ خوراک کی کمی اور پریشانیوں کی فراوانی نے چاچے دُلے ماچھی کے سر کے بالوں سے سیاہی چھین لی تھی اور چہرے پر سلوٹوں نے ڈیرا جماتے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قبر کی گہرایوں تک اس کا ساتھ دیں گے۔ چاچے دُلے نے ایک پیالہ چاچے فضلو کے ہاتھ میں اور دوسرا اسکے بھائ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا۔ فضلو بھرا خیر نال پہنچ گئیں؟
چاچے فضلو ملاح نے ڈیرہ سے لائی پیلی شکر اور پتی چاچے دُلے کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ "چاء ” گرم ہے ناں؟ فضلو بھرا”اج ٹیڈی بکری” دے کھیر دی چاء پی تے ” چَس” چا۔ فضلو بھرا! اگر موڈ ہووے تاں ” فقیری بوٹی دا ٹھوٹھا تے جوگا "و ی تیار ہے، تینوں ہنسنے لگے۔ چاچے دُلے نے اپنی "دھوتی "کے کنارے ہاتھوں سے موڑتے ہوئے منہ سے ادھ جلے "بگلہ مارکہ” سگریٹ کے بقیہ حصے کو زمین پر پھینکا۔ ہائے ہائے اب دوربہت آگے بڑھ چکا ہے، شہروں میں تو تقریباً دھوتی کا استعمال متروک ہوچکا ہے،
البتہ گاؤں دیہاتوں میں اب بھی یہ پہناوا کچھ حد تک زندہ ہے۔ عید، خوشی کے موقع پر ریشمی لکیروں والی کے علاوہ عام طور پر لٹّھے یا سُوت کی ایک بڑی سی چادر ہوتی تھی جس کے دونوں سِروں کو تھوڑا سا بَل دے کر کمر کے گِرد لپیٹ کر ناف کے نیچے گانٹھ لگا دی جاتی تھی۔ اس دھوتی کے نیفے کو بطور جیب بھی استعمال کیا جاتا تھا، عموماً اس کا نچلا پَلُّو پنڈلیوں تک ہی پہنچتا تھا۔ اب ڈیرہ شہر میں دھوتی متروک ہوچکی اور دھوتی کی جگہ برمودا شارٹس نے لے لی۔
میں نے چاچے دُلے کو آگے بڑھ کر سلام کیا اور فورا ہی سوال کر ڈالا۔ چاچا یہ بتاؤ آپکو ” ماچھی ” کیوں کہا جاتا ہے ؟ شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر رکھتے ہوئے بڑے مشفقانہ انداز سے کہنے لگا۔ بچڑا ! لفظ ” ماچھی اور جھینور” دونوں عموما اس شخص کے لیےً استعمال ہوتے ہیں جو دریا اور مچھلی پکڑنے کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ ماچھی مہانڑے بھی ہوتے ہیں۔ جانتے ہو مہانڑے کا مطلب کیا ہے؟ بچڑا! سنسکرت میں اس کے معنی ہیں دریا کا دہانہ۔
ہم کیونکہ دریا کے کنارے رہتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں، پرندوں کا شکار کرتے ہیں، دریا کنارے سنگھاڑے کاشت کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہمیں ماچھی، مچھیرا یا مہانڑہ کہا جاتا ہے۔ وہ سامنے دیکھو دریا کے کنارے "ممدو بھرا” دریا کی ریت کو چھان رہا ہے سونے نکالنے کے لیئے۔
ہم اس کو ممدو "داوَلی ” کہتے ہیں۔ جس طرح ہمیں ماچھی کہا جاتا ہے، ویسے ہی جو لوگ دریا کی ریت کو چھان کر سونے کے ذرات نکالتے ہیں انکو ” داوَلی ” کہا جاتا ہے۔ چاچا دُلا ماچھی کی جھگی کے علاوہ تین چار جھگیاں اور بھی تھیں۔ ان مچھیروں ماچھیوں نے دریا کے بیٹ پر گھاس پھُوس کا اپنا چھوٹا سا جزیرہ بنایا ہوا تھا۔ اُن سب کی خوراک پرندے اور مچھلی تھی، جو وہ تازہ تازہ دریا سے پکڑتے اور پکاتے۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ