اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” مزاحمت، دانشوری اور ادب "۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر

آرٹس کونسل کراچی کی جاری عالمی اردو کانفرنس میں اج " اردو کا مزاحمتی افسانہ " پر گفتگو کی۔ اس موضوع پر لکھے مضمون سے اقتباس

ڈاکٹر ناصر عباس نیر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزاحمت، طاقت وروں سے یہ تسلیم کرانے کی جدوجہد ہے کہ آزادی، عزت اور وقار سے زندگی بسر کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ جہاں یہ حق چھینا جاتا ہے، وہاں لوگوں کی زندگیاں حقیقی خطرات سے دوچار اور ذلت سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ مزاحمت، خطرے میں گھری اور ذلت سے لتھڑی زندگی جینے سے انکار کا نام ہے۔ مزاحمت کی کئی شکلیں ہیں، جیسے: ثقافتی، دانشورانہ، سیاسی، مذہبی اور ادبی۔ چوں کہ جبر سو مونہے سانپ کی مانند ہوتا ہے، وہ سماج کے سیاسی، معاشرتی، اخلاقی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ فرد کی ذہنی و نفسی دنیا کو ڈستا ہے، اس لیے مزاحمت بھی کئی اطراف سے کی جاتی ہے اور اس کے لیے کئی پیرائے اختیار کیے جاتے ہیں۔ جب خطرہ ہر طرف سے ہو تو اس کا مقابلہ بھی کئی اطراف سے کیا جاتا ہے۔ (دل چسپ بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے یہاں مزاحمت کے لیے مقاومت کا لفظ ملتا ہے، جس کے مطالب میں مقابلے کے لیے آمادہ ہونا اور کمر بستہ ہونا شامل ہیں۔) ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت کسی ایک فرد یا ایک طبقے تک محدود نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کسی ایک طبقے کی ذمہ داری سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم ہر طبقہ مزاحمت کے لیے الگ الگ پیرایہ اختیار کرتا ہے۔

جس سماج میں مزاحمت کسی ایک طبقے تک محدود ہو کر رہ جائے یا اس کے لیے محض ایک قسم کا پیرایہ اختیار کیا جائے، اس سماج میں تفریق اور بیگانگی بڑھ جاتی ہے۔ مقتدر قوتوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ مزاحمت کو محدود کیا جائے یا "اپنایا” (appropriate) جائے۔ مزاحمت کے ایک طبقے تک محدود ہونے سے، جو بیگانگی پیدا ہوتی ہے، وہ مقتدر قوتوں کے حق میں ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے بیگانہ طبقہ، رفتہ رفتہ، ایک دوسرے کے خلاف کمر بستہ ہو جاتا ہے۔

مزاحمت کی کوئی بھی صورت ہو، اس میں احتجاج، انکار اور استرداد قدرِ مشترک کا درجہ رکھتا ہے۔ البتہ اس سب کا اظہار جدا جدا پیرایوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً دانشورانہ مزاحمت، سیاسی مزاحمت کی مانند راست اور عملی نہیں ہوتی۔ کوئی دانشور عملی مزاحمت میں حصہ لے سکتا ہے مگر جن تحریروں کو ہم دانشورانہ مزاحمت کے طور پر پہچانتے ہیں، ان میں سچائی پر طاقت کے اجارے یعنی Epistemic authority کو چیلنج کیا گیا ہوتا ہے۔سب سے بڑا اور سب سے خوفناک اجارہ سچائی پر ہوتا ہے۔ سچائی کو چھپانا، سچائی کے منتخب حصوں کو سامنے لانا، فرضی و جھوٹی باتوں کو سچ کے طور پر پیش کرنا، سچ بولنے والوں کو کڑی سزائوں سے دوچار کرنا — تاکہ باقیوں کو عبرت ہو اور لکھنے والوں کے لیے خوف کی فضا طاری کیے رکھنا، سچائی پر اجارے کی صورتیں ہیں۔ جب لکھنے والے حد درجہ محتاط ہو جائیں، اپنے اندر سنسر شپ کا خود کار نظام قائم کر لیں تو یہ سچائی پر اجارے کی حتمی فتح سمجھی جا سکتی ہے۔ دانشورانہ مزاحمت میں سچائی کو طاقت سے واگزار کرانے کی سعی کی جاتی ہے، اور اس کے لیے معاصر و تاریخی صورتِ حال کے عقلی تجزیے کیے جاتے ہیں۔ دانشور اس یقین کا حامل ہوتا ہے کہ جن باتوں کو سچ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا ہے، ان کی ایک تاریخ ہے، اور ان کے موثر ہونے یا سمجھے جانے کی ایک قابل فہم ساخت ہے۔

دوسری طرف ادب میں احتجاج و انکار کا کوئی ایک پیرایہ نہیں ہوتا۔ جبر کی بیّن صورت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھی، ادب اپنے اختراعی میلان سے کام لینے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی ادب کا کوئی واحد، معیاری اسلوب نہیں ہے۔ کہیں راست، کہیں بالواسطہ، کہیں طنز اور کہیں پیراڈاکس کے پیرائے میں، ادب مزاحمت کرتا ہے۔ ارود* افسانے میں یہ سب صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

(آرٹس کونسل کراچی کی جاری عالمی اردو کانفرنس میں اج ” اردو کا مزاحمتی افسانہ ” پر گفتگو کی۔ اس موضوع پر لکھے مضمون سے اقتباس)

ناصر عباس نیئر

* یہ ساری چیزیں سرائیکی ادب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

%d bloggers like this: