مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گاوں اور تعلیم ۔۔۔گلزار احمد

مجھے اللہ سبحانہ تعالے نے اعلی تعلیم کا موقع دیا۔اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھتا رہا پھر جب میرا کیریر شروع ہوا تو شہروں شہروں ملکوں ملکوں گھومتا رہا

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اللہ سبحانہ تعالے نے اعلی تعلیم کا موقع دیا۔اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھتا رہا پھر جب میرا کیریر شروع ہوا تو شہروں شہروں ملکوں ملکوں گھومتا رہا اور زندگی کے نشیب و فراز جھونپڑیوں سے محلات تک دیکھے۔ لیکن جس بات نے مجھے سب سے زیادہ سوچنے پر مجبور کیا وہ گاوں کے ان پڑھ کسانوں۔مزدوروں اور خواتین کی ذھانت تھی۔ ہمارے گاوں کے دکاندار بالکل ان پڑھ تھے بہت سے گھروں کا روزانہ کا سودا ادھار پہ جاتا تھا مگر یہ سب کچھ بڑی باریک بینی سے ان کے ذہن کے اندر کمپوٹر کی طرح سیو ہو جاتا۔ ہر گھر کو اپنا حساب کتاب زبانی یاد ہوتا۔ ہمیں گاوں کے لوگوں کے وہ دن بھی یاد ہیں جب بیس کا عدد ان کا ایک پیمانہ تھا۔ مثلا” گاے کی قیمت ایک سو روپے ہے تو وہ اسے پانچ بیس کہتے تھے۔ تھے۔ ایک دفعہ کوٹ موسی دامان سے ایک ریٹائیرڈ ٹیچر نے فون پر بتایا کہ ان کے گاوں کا ایک شخص بکرا بیچنے کھڑا تھا تو گاہک نے پوچھا کتنے کا بیچو گے؟اس نے کہا چھ بیس کا۔ گاہک نے اسے کہا چلو میں 120 روپے دیتا ہوں بکرا مجھے دے دو۔ اس شخص نے کہا میں چھ بیس سے کم پر نہیں بیچتا! لینا ہے تو لو ورنہ چلتے بنو۔ چنانچہ گاہک نے جیب سے 120 روپے کے نوٹ نکال کر بیس بیس کے چھ گڈیاں بنائیں اور اسے دے دیں۔اس نے نوٹ گنے اور بکرا بیچ کر چلا گیا۔ بعد میں گاوں والوں میں اس لطیفے کی خوب تشہیر ہوئی سب سے زیادہ ہمارے گاوں کا نائی ذہین تھا۔ گاوں والے اس کو درجنوں گھروں میں دعوت دینے بھیجتے اور وہ بڑی عمدگی سے یہ کام سرانجام دیتا۔ کس دن مینڈھی۔کس دن مھندی کس دن سہرے اور رخصتی۔چاند کی کیا تاریخ ہوگی اور انگریزی کی کونسی۔پوری شادی کا ولیمہ وہ خود حساب لگا کے پکاتا کبھی شکایت نہیں آئی۔ ایک دفعہ تو ہمارے نائی چاچا نے لطیفہ بھی سنایا۔ کہنے لگا اسلام کے ظہور سے پہلے راجپوت حکمرانوں کا دور تھا اور حکمران اپنے آپ کو خدا بھی کہتے تھے۔ ایک سفر میں اتفاق سے نوجوان راجپوت اور ایک نائی اکٹھے ہو گیے مگر ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ نائی نے راجپوت شھزادے سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ۔۔شھزادے نے کہا ۔۔۔میں راجپوت خدا کا پوت ۔۔یعنی بادشاہ کا بیٹا ہوں ۔۔اب نائی سوچنے لگا یہ تو بڑا بے جوڑ ہمسفر ملا کہ میں نائی ہوں یہ شھزادہ کیسے سفر طے ہوگا خیر راستے میں راجپوت نے نائی سے پوچھا تم کون ہو؟ تو نائی نے مزیدار جواب دیا۔۔کہا میں نائی خدا کا بھائی تمھارا چچا ۔۔ اتفاق سے شھزادے کی سلطنت میں بادشاہ نائی کی عزت کرتا تھا اس طرح شھزادہ بھی نائی سے سفر میں مشورے لے کر آگے بڑھتا رہا اور سفر خوشگوار گزرا۔ مجھے یہ سب کچھ آج ایک دلچسپ کہانی پڑھ کر یاد آیا۔ کہانی یہ ہے کہ بھارت کے شھر بمبی جسے اب ممبی کہتے ہیں میں ایک بمبی ڈبے والا کے نام سے کمپنی کام کر رہی ہے۔ یہ کمپنی یا کاروبار بمبی میں 1890ء میں شروع ہوا اور یوں سمجھیں 130 سال سے مسلسل کامیابی سے کام کر رہا ہے ۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپنی کے کارکن دفتروں میں کام کرنے والے نوکر پیشہ لوگوں کے گھر سے انکے گھر کا پکا ہوا کھانا لے کر دفتر متعلقہ افراد کو پہنچاتے ہیں اور پھر خالی ٹفن واپس گھر پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت پانچ ھزار ڈبا والے تقریبا” دو لاکھ لنچ بکس روزانہ گھروں سے دفتر اور واپس گھر لے آتے ہیں۔اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ پانچ ھزار ڈبہ والے کارکنوں میں آدھے ان پڑھ ہیں ہر کارکن روزانہ چالیس لنچ ٹفن تقسیم کرتا ہے اور اپنی یاداشت سے کوئی نشان لگا کر ٹھیک اسی شخص کو لنچ ٹفن دیتا ہے جس کے اپنے گھر سے آیا ہے۔یہ کام بہت معمولی معاوضے یعنی آٹھ نو ڈالر ماہانہ پر کیا جاتا ہے۔بمبی یا ممبی کی سوسائٹی میں اس کا یہ فاعدہ ہے کہ اکثر ورکر اور ملازمیں صبح چھ بجے سے رات نو بجے تک ڈیوٹی کرتے ہیں اور صبح چھ بجے وہ کھانا پکوا کر نہیں لے جا سکتے۔دوسرا ان کو اپنے گھر کا گرم پکا پکایہ کھانا دفتر میں وقت پر مل جاتا ہے تو صحت بہتر رہتی ہے۔ممبی ڈبہ والوں سے متاثر ہو کر ہاورڈ اور برکلے یونیورسٹیوں نے ان پر پیپر لکھے جو وہاں کیس سٹڈی کے طور پر پڑھاے جاتے ہیں۔ برطانیہ کا شھزادہ چارلس جب انڈیا آیا تو ان سے ملا اور کمیلا پارکر سے اپنی شادی کے موقع پر چند ڈبہ والوں کو شادی میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ ڈبہ والے کارکن ساٹھ کلو سے زیادہ ٹفن بکسوں کا وزن سر پر اٹھا کر کبھی ایک گلی کبھی دوسری گلی گھومتے ہوۓ وقت پر ڈیلیور کر دیتے ہیں اور ہر گاہک کا پتہ زبانی یاد رکھتے ہیں۔ میری لاھور رہایش کے زمانے میں جی او آر۔گاف روڈ کے بنگلوں کے پیچھے دھوبی گھاٹ بنے ہوے تھے اور وہاں کے دھوبی بھی ان پڑھ تھے۔بہت سے مختلف لوگوں کے کپڑوں کے کالر کے اندر وہ اپنا ایک خاص کالا نشان لگاتے جو مٹتا نہیں تھا اور سیکڑوں کپڑوں کی دھلائی اور استری کے بعد ہر بندے کو ٹھیک اپنے دھلے دھلاے کپڑے واپس پہنچا دیتے۔آج میں کمپوٹر کی ایج میں پہنچ کر سوچنے پر مجبور ہوں کہ دراصل گاوں کے ان پڑھ لوگ ہم سے زیادہ سیانے۔ایماندار اور سمجھدار ہوتے ہیں اور تعلیم حاصل کر کے بہت بہتر کار کردگی دکھا سکتے ہیں ایک اور بات جو مجھے اکثر کھٹکتی ہے وہ یہ کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کو کسی ان پڑھ نے نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں نے اپنی ہوس زر اور ذاتی مفاد کے لیے نقصان پہنچایا اور افسوس یہ کھیل اب بھی جاری ہے۔

%d bloggers like this: