مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتانیوں کے لئے سوگوار دن ۔۔۔حیدر جاوید سید

ہم اپنے چار اَور جیتے لوگوں کو اپنے اپنے حال میں مست دیکھتے ہیں تو بے ساختہ دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ شادوآباد رہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بدھ کی صبح نے ملتانیوں کے لئے اچھی خبروں کے ساتھ دستک نہیں دی۔ پہلے برادرِ عزیز شاکر حسین شاکر نے نشتر میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر مشتاق احمد کے سانحہ ارتحال کی اطلاع دی۔ کچھ دیر بعد سید جاوید حیدر گردیزی ایڈووکیٹ اور آصف علی فرخ کے انتقال کی خبر آگئی۔
سید جاوید حیدر گردیزی اور معروف صحافی آصف علی فرخ کورونا کا شکار ہوئے جبکہ ڈاکٹر مشتاق احمد پچھلے کچھ دنوں سے علیل تھے۔
اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والے ان تین صاحبان کے یوں اچانک چلے جانے سے شہر کے لوگ سوگوار ہوگئے۔
لاریب سفر حیات اور موت کے معاملے خالق کائنات کے فیصلوں سے عبارت ہیں ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اہل ملتان کورونا کے ’’جھٹکوں‘‘ سے ابھی سنبھل نہیں پائے تھے، پچھلے ایک ماہ کے دوران شہر کی متعدد معروف شخصیات کورونا کا شکار ہوکر حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوئیں۔
اسی دوران ملتانی وسوں کی دانش کے روشن چہرے مرحوم پروفیسر حسین سحر کے برادرِ خورد معروف محقق میاں افتخار حسین کے جدہ میں دنیا سرائے سے پڑاو اٹھا لے جانے کی خبر غم بھی موصول ہوگئی۔ میاں افتخار حسین نے چہاروں معصومینؑ پر اپنی تحقیقی تصنیف مکمل کرلی تھی، تاریخی اہمیت کی حامل اس تصنیف کی کمپوزنگ مکمل ہوچکی۔ اب جناب حسین سحر اور میاں افتخار حسین کے لائق فائق بھتیجے شاکر حسین شاکر پر ذمہ داری آن پڑی کہ وہ اس تاریخی وعلمی اہمیت کی تصنیف کی طباعت و اشاعت کے مراحل اپنی نگرانی میں مکمل کروائیں۔
میاں افتخار حسین کا جسد خاکی آج جمعرات کو جدہ سے ملتان پہنچے گا کل نماز جمعہ کے بعد تدفین کے مراحل مکمل ہوں گے۔
ملتانی وسوں سوگوار ہے اپنے بچھڑجانے والے پیاروں کے لئے۔
ان بچھڑنے والوں کے دم سے شہر میں رونقیں تھیں۔ ایک ایک کرکے رخصت ہوتے وسوں زادوں کا نوحہ لکھنا عجیب سا لگتا ہے۔ قلم اٹھاتا ہوں ایک آدھ سطر لکھ کر رک جاتا ہوں۔
مرنے والوں کی یادیں تازہ کرنا مرنے سے مشکل کام ہے۔
ہم اپنے چار اَور جیتے لوگوں کو اپنے اپنے حال میں مست دیکھتے ہیں تو بے ساختہ دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ شادوآباد رہیں۔
انسانی بستیوں سے لوگوں کا حکم ربی پر حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوتے رہنا معمول ہے۔
دکھ سکھ کے موسم انسان کے ساتھ ہیں۔ شاہ حسینؒ کہتے ہیں
’’بھرے پُرے ویہڑے سے کسی کا اچانک رخصت ہوجانا یہ سمجھاتا ہے کہ سانسوں کی ڈور کبھی بھی کٹ سکتی ہے‘‘۔ انکار کی مجال کسے ہے۔
انکار ہو بھی کیوں، زندگی کا انت موت کے سوا کیا ہے، کس کو زعم ہے دائمی زندگی کا؟
ڈاکٹر مشتاق احمد کی بطور پرنسپل نشتر میڈیکل کالج اور طبیب کے طور پر خدمات قابل قدر ہیں انہوں نے بطور استاد اور پرنسپل نئی نسل کی تربیت اور نشتر میڈیکل کالج کے معاملات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے جو خدمات سرانجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
آصف علی فرخ معروف صحافی تھے۔ متعدد اخبارات میں مدیر اور دیگر منصبوں پر فائز رہے اپنے کام سے جنون کی حد تک لگائو کی شہرت ان کے ساتھ ساتھ چلی۔ بھلے مانس شخص تھے۔
سید جاوید حیدر گردیزی ایڈووکیٹ بھی ملتانی وسوں کی معروف شخصیت تھے۔ صاحبان علم و سیاست کے حلقوں میں متحرک رہے۔ دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ خدمت خلق کے شعبہ میں نام و نمود کے بغیر خاموشی کے ساتھ مستحقین کے لئے کام کرتے رہے۔
میاں افتخار حسین کا تعارف بالائی سطور میں لکھ چکا۔
حقیقت یہی ہے کہ کورونا کی حالیہ لہر کی آمد کے ساتھ ہی ملتان والوں کو ہر دو چار دن بعد ایک خبر غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ احباب کورونا سے اور کچھ سفر حیات مکمل کرچکنے پر رخصت ہوئے۔
مرنے والوں کا غم اور بچھڑنے کا دکھ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ البتہ جب کورونا وبا سے کسی پیارے یا شہردار کے سانحہ ارتحال کی خبر ملتی ہے تو یہ احساس دوچند ہوجاتا ہے کہ ہمارے چار اور مقیم لوگوں کو کورونا وبا کے ان دنوں میں خصوصی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
ایس او پیز پر عمل کو نہ صرف یقینی بنانا چاہیے بلکہ عزیزواقارب اور دوستوں کو بھی تلقین کرنی چاہیے کہ خطرے کو محسوس کریں۔ حفظان صحت کے اصولوں کو بہرصورت مدنظر رکھیں تاکہ کسی صدمے سے دوچار نہ ہوں۔
پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ملتانی وسوں سے اٹھ کر مٹی کی چادر اوڑھ کے سو رہنے و الوں میں سے ہر شخص تادیر یاد رہے گا سبھی نے اپنے اپنے شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور نیک نامی کمائی۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہونے والوں کو یاد کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اللہ سوہنا ملتانی وسوں سمیت پورے ملک کو اپنی امان میں رکھے، آمین۔

%d bloggers like this: