عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف نے جو کہنا تھا کہہ دیا، جو بیانیہ قوم کو دینا تھا دے دیا۔ جو قربانیاں دینی تھیں دے دیں۔ گوجرانوالہ کی تقریر سے شروع ہوئے بھونچال کو گلگلت بلتستان کے الیکشن کی تقریر تک وہ ساتھ لے کر چلے۔ کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رکھی۔ کوئی بات بین السطور نہیں کہی۔ کھل کر بات کی۔ ڈٹ کر اپنے بیانیے کا اظہار کیا۔ کسی خوف کا شکار نہیں ہوئے۔
کوئی کچھ بھی کہتا رہے یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ یہ باتیں ہماری سیاست میں نئی ہیں۔ ایسا واشگاف اعلان ہمارے لیے نویلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو بارہا کہنا پڑا کہ ‘نواز شریف کے بیانیے کا بوجھ ہر کوئی نہیں اٹھا سکتا’۔
یہ بات اس لیے بھی درست ہے میڈیا بھی اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے اجتناب کرتا ہے، سیاسی جماعتیں بھی دو قدم آگے دو قدم پیچھے کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ جماعت میں خود بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دھیرے سے کان میں کہہ رہے ہیں ‘میاں صاحب ہتھ ہولا’۔
لیکن ان سب سے ماورا ہو کر دیکھیں تو یہ بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ جلسوں میں لوگوں کی تعداد، خاص نکات پر عوام کا پرجوش رد عمل، اور سوشل میڈیا پر عوام کی ایک کثیر تعداد اس بیانیے کی اثر پذیری کی غماز ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے پاس اس دور پر آشوب میں کیا حیلے، حربے اور آپشنز ہیں۔ کہا جاتا ہے جمہوریت میں عوام کی اہمیت صرف الیکشن کے دن ہوتی ہے اس کے بعد ان کا کردار صرف تماشائی کا ہوتا ہے۔ ووٹ کی پرچی ڈالنے کے بعد بے چارے اپنے نمائندوں کو برسوں تلاش کرتے ہیں۔ ان کی منہ دکھائی کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنی حالت زار کی کہانی سنانے کو ترستے ہیں۔
ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ عوام کے ہاتھ سے ووٹ دینے کے بعد اختیار نکل چکا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنے نمائندوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ بس ان سے ملتمس رہتے ہیں۔ ترستی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتے رہتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے عوام جب بھی اس ملک میں ووٹ ڈالتے ہیں تو نتائج میں کچھ گڑ بڑ کا الزام ضرور لگتا ہے۔ کبھی ‘جھرلو’ پھر جانے کا الزام سامنے آتا ہے، کبھی ‘خاموش اکثریت’ کے اپنا کام دکھا جانے کا، اور کبھی آر ٹی ایس سسٹم داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ لوگ سوچتے کچھ ہیں نتیجہ کچھ نکلتا ہے۔ ووٹ کسی کو ڈالتے ہیں فاتح کوئی اور قرار پاتا ہے۔ یہ کیفیت آج کی نہیں۔ 1970 کے بعد ہر الیکشن میں ایسے ہی الزامات لگے ہیں۔
ستتر کے انتخابات کی ‘دھاندلی’ تو سب کو یاد ہے کیونکہ اس کا الزام ایک سیاستدان پر لگا تھا۔ پھر 1988 کے بعد دو دو باریوں والے انتخابات ہوئے۔ ان چار الیکشنز نے سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا۔ جمہویت کی دھجیاں اڑا دیں۔
اس موقع پر سیاستدان ہوش میں آئے اور ‘میثاق جمہوریت’ نامی عہد کیا۔ سیاسی جماعتوں کی صفوں میں جمہوریت پر اتفاق ہو گیا تو ‘خاموش اکثریت’ والوں کی شکست ہوگئی۔ ایسے میں پھر سے چوہے بلی کا کھیل شروع ہو گیا۔ پھر ڈرائنگ روموں میں رات گئے فون کھڑکنے لگے، پھر المدد المدد کی دہائی مچنے لگی۔
بات نواز شریف کی تقاریر سے شروع ہوئی۔ نواز شریف نے ہر تقریر میں کچھ سوال کیے۔ اب دیکھیے اس کا جواب کیا ملا؟ پہلے تو نواز شریف کے ایک ساتھی کے خلاف اسی کے حلقے میں رات گئے غدااری کے بینر لگا دیے گئے۔ پھر وزیر داخلہ کی دھمکیوں والی تقریر نشر کی گئی۔ پھر سکیورٹی رسک والی اور کرپشن والی کہانی کا دوبارہ منترا پڑھا گیا۔ لیکن اس سے عوام کو قرار نہِیں آیا۔ وہ ان روایتی ہتھکنڈوں سے بے خوف ہو چکے ہیں۔ ان کو یہ فتویٰ بازی کی رسم سمجھ آ گئی۔
رابطے چونکہ بند ہو چکے ہیں اس لیے نواز شریف کے سوالات کا بلاواسطہ جواب دینا ضروری تھا۔ میری دانست میں اب تک دو جواب آچکے ہیں۔ پہلا جواب گلگت بلتستان کے الیکشن میں ملا جہاں سرکاری مشینیری اور بھاری بھرکم آوازوں کے باوجود تحریک انصاف مطلوبہ اکثریت نہِیں لے سکی۔
گلگت کے لوگ ابھی بھی حیرت زدہ ہیں کہ جلسے تو کسی کے بڑے تھے، عوام تو کسی اور کے نعرے لگاتے تھے، لیکن نتیجہ کوئی اور نکلا۔ یہ انتخابات اور ان کے نتائج نواز شریف کے سوالوں کا پہلا جواب تھا۔
دوسرا جواب وزیر اعظم کی تقریر سے اخذ کیا جا سکتا ہے جس میں گلگت بلتستان کے الیکشن کے اگلے ہی دن وزیر اعظم نے الیکٹرانک ووٹنگ کی داغ بیل ڈال دی۔
اب منظر بہت واضح ہو گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو ووٹ کو عزت دینے کے خواہشمند ہیں اور دوسری جانب وہ جن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ‘ووٹ کو روند دو’۔ اس جنگ میں کون کامیاب ہوتا ہے اس کا فیصلہ عوام کے پاس ہے۔
بشکریہ اردو نیوز
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ