مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور میں میرے پہلے شناسا ۔۔۔ اسلم ملک

ان سے ملے بہت عرصہ ہوگیا تھا. کئی بار خیال آیا. پچھلے سات آٹھ ماہ کے حالات نے روکے رکھا. اور آج خبر ملی کہ اب ان سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی.
اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 1974 میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں ، میری کلاسیں شروع ہوئیں.
یونیورسٹی سے باہر لاہور شہر میں جس شخص سے سب سے پہلے ملنا تھا، وہ تھے سید اظہار الحسن رضوی. ان کے پریس میں ہمارے کالج کا میگزین چھپ رہا تھا، میں اس کا ایڈیٹر تھا، کچھ باقی ماندہ پروف ریڈنگ اور تصاویر کی ترتیب کے بارے میں فون پر طے پایا تھا کہ لاہور پہنچ کر میں ان کے پریس جاکر کردوں گا.
سو لاہور کے پہلے ایک دو دن میں ہی میں ان کے پاس جا پہنچا.
ان کا پریس مطبع عالیہ ٹمپل روڈ پر تھا. یہاں نسخ ٹائپ کمپوزنگ کے ساتھ طباعت ہوتی تھی. جس کے قائدے کلیے اظہار صاحب نے ایسے طے کررکھے تھے کہ نہ ہجے کی کوئی غلطی ہوتی نہ کوئی لفظ بدنما لگتا. ان دنوں بہت سی عمدہ کتابیں انہوں نے چھاپیں، سجاد باقر رضوی صاحب، انیس ناگی صاحب کی کتابیں یاد آرہی ہیں. مجلس ترقی ادب کا جریدہ” صحیفہ” بھی وہی چھاپتے تھے. یونس جاوید صحیفہ کے مدیر تھے، ان سے دوستی تو بعد میں ہوئی لیکن سب سے پہلے دیکھا اسی مطبع عالیہ پر.
میگزین تو چھپ گیا، لیکن اظہار صاحب کے ہاں میرا آنا جانا رہا.
ایک بار اظہار صاحب نے دعوت دی کہ رحمنٰ پورہ ان کے گھر مجلس میں آؤں. میں گیا، ان سے اور ان کے عزیز اظہر صاحب سے سلام دعا ہوئی. ایک شعبہ صحافت کے دوست قیصر عباس بھی ملے. چند دن بعد اظہار صاحب کے پریس گیا تو انہوں نے گلہ کیا کہ ہماری مجلس پر آپ آئے نہیں. میں نے یاد دلایا کہ آیا تو تھا، آپ سے ملاقات ہوئی تھی. تو پتہ چلا کہ جس مجلس میں، میں شریک ہوا، وہ ان کے گھر نہیں، پڑوس میں تھی، ان کے ہاں اس کے بعد ہوئی. وہ پڑوس ہمارے دوست قیصر عباس کی بہن کا گھر تھا، جو مجھے دیکھ کر کچھ حیران لیکن خوش ہوگئے تھے. وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ مجلس کسی بھی زبان بولنے والوں کی ہو، سرائیکی مرثیہ، نوحہ ہر جگہ چلتا ہے.
طباعت کے کئی اور کام بھی اظہار صاحب سے کرائے. پھر وہ ریٹیگن روڈ منتقل ہوگئے. اردو بازار جانا ہوتا تو کبھی اپنی ہی دکان اظہار سنز پر بھی مل جاتے. میری اہلیہ مسرت کلانچوی کے سرائیکی افسانوں کی کتاب "ڈکھن کنیں دیاں والیاں” بھی انہی کے ریٹیگن روڈ والے پریس سے چھپی.
بعض معاملات میں اظہار صاحب میری رائے کو اہمیت دیتے. ضیاء الحق کے بند کیے ہوئے ایک انگریزی اخبار کے استعمال میں رہے پریس کا سودا کرنا تھا، اس وقت لاکھوں کا، اب کروڑوں کا سمجھ لیں. اس پر خاص طور پر ڈسکشن کی. اتنے بڑے سودے کرنے والے نے یہ مجھے بہت پہلے بتادیا تھا کہ عملی زندگی کا آغاز ایک بڑے پبلشرز کی ملازمت سے کیا تھا، جہاں صبح جھاڑو دینا بھی فرائض میں شامل تھا.
ان سے ملے بہت عرصہ ہوگیا تھا. کئی بار خیال آیا. پچھلے سات آٹھ ماہ کے حالات نے روکے رکھا. اور آج خبر ملی کہ اب ان سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی.

%d bloggers like this: