اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی نیشنلزم پس منظر اور بیانیہ۔۔۔۔ ذلفی

ہم سرائیکی ڈائیلاگ، جمہوری حقوق، پارٹی پرائیویسی ، جینڈر حساسیت، ماحولیات اور ثقافتی و تاریخی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے

ذلفی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی نیشنلزم کی تحریک اگرچہ بہت پرانی ہے مگر یہ اس طرح کی تحریک نہیں ہے جو اسی کی دہائی کے بعد مروجہ سیاسی روایتی پیمانوں کی پابند ہو۔ یہ تحریک ثقافتی و تہذیبی استحصال اور ترقی کے نام پر کی جانے والی لوٹ مار کو انتہائی مہذب طریقے سے چیلنج کرتی آئی ہے۔
یہ تحریک جن بُنیادی مسائل کو اُجاگر کرتی رہی ہے ان میں ” محکوم اقوام کی شناخت” ، ” ریاست کا عام لوگوں کے وسائل پر قبضہ” ، ” خطے کے قدرتی وسائل اور زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ” ، ” ماحولیاتی تباہی اور پرندوں کا غیر قانونی شکار” ، ” سرائیکی زبان کی ترویج اور اس کو نصاب کا حصہ بنانا” ، ” مذہبی شدت پسندی اور جاگیر دارانہ سماج کا خاتمہ ” ، ” ترقی کے موجودہ بیانیہ کو چیلنج کرنا ” اور پدر شاہی نظام کا خاتمہ پر شامل ہے۔
ان مسائل کے حل کیلئے سرائیکی نیشنلزم نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ انتہائی مہذب اور پرامن رہی ۔ میلے، مشاعرے، ستھ، کٹھ، پرامن ریلیز، ڈائیلاگ، سیمینار، پریس کانفرنسز اور جُھمر اس تحریک کے اہم خدوخال رہے ہیں۔
مگر بد قسمتی سے ہماری ریاست بشمول جنوبی ایشیا میں ان سطور پر سیاست کرنے کا نہ ہی رواج ہے اور نہ ہی پاور پالیٹکس کے خدوخال اس روش کو قبول کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک منظم سیاسی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں اس طرح کی تحریکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہی سرائیکیوں کے ساتھ ہوا۔
ڈھیلے ڈھالے سٹرکچرل سیٹ اپ کے ساتھ یہ تحریک اس طرح سامنے نہیں آ سکی جس طرح شدت پسند سیاسی پارٹیاں اور آمریت پسند سیاسی لیڈرشپس پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر چھائی رہی ہیں۔
یہ اس خطے کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں جنگ اور قتل و غارت پر مبنی بیانئے اسٹیٹ فنڈنگ سے پروان چڑھتے رہے اور لوگوں کو ان کی عادت سی ہو گئی۔ جس کی وجہ سے پرامن تحریکوں کو وہ جگہ نہ مل سکی جس کی وہ حقدار تھیں۔
اس المیے کے تناظر میں پر امن تحریکوں کی لیڈرشپ لمبے عرصے تک نظر انداز کئے جانے کے باعث تھوڑی سی فرسٹریشن کا شکار ہو گئی ہیں اور اب وہ اپنے موقف میں تھوڑی سی سختی لانے کی قائل ہوتی نظر آتی ہیں۔
جس کی تازہ مثال سرائیکی لوک سانجھ شادن لُنڈ کے حالیہ دنوں میں ہونے والے کٹھ کی صورت میں بھی نظر آئی۔
مگر اس کو یوں کہنا کہ اس تحریک پر چند لوگوں کا قبضہ ہے، یا سرائیکی لیڈرشپ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے، یا مکالمے کا رواج نہیں ہے سرا سر زیادتی اور تاریخی پس منظر سے نا آشنائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اس حوالے سے کل ایک تحریر نظر سے گُزری جس میں ڈاکٹر رؤف قیصرانی نے اس تحریک کے حوالے سے بہت سارے سوالات اُٹھائے جس کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں
"سرائیکی نیشنلزم کی تحریک بھی ایک سیاسی تحریک ہے۔ یہ باقی تحریکوں کی طرح غیر متنازعہ ہرگز ہرگز نہیں۔ لیکن پھر بھی ایک امید ہے کہ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے دیگر برادر اقوام سے جڑت پیدا کر کے سرائیکی نیشنلزم کی تحریک بھی ضرور ایک روشن سمت میں سفر کرے گی۔ سرائیکی نیشنلزم کی بنیاد سرائیکی صوبے کے قیام پر ہے۔ اور اس کو سندھ اور بلوچستان کے دانشوروں اور سیاسی زعماء کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہی ہے۔”
رؤف قیصرانی صاحب اگر یہ بھی بتا دیتے کہ سندھ اور خاص طور پر بلوچستان کی موجودہ سیاسی لیڈرشپ میں ایسے کون سے دانشور اور سیاسی زعما ہیں جسے اس تحریک کی بھر پور حمایت رہی ہے؟؟
بلوچ تو آج بھی سرائیکی خطے کے اہم علاقوں پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں۔ وہ راجن پور سے لیکر تونسہ شریف سے بھی شمال تک کی سرائیکی پٹی کو اپنا علاقہ سمجھتے ہیں۔ مگر کس بنیاد پر؟؟
یہاں کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی سرائیکی زبان بولتی ہے، یہاں کے لوگوں کا رہن سہن سرائیکی تہذیب و ثقافت کے عین مطابق ہے، یہاں کے لوگوں کے کاروبار اور دکھ سُکھ اس خطے کے باقی سرائیکیوں کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، یہاں کے لوگ سرائیکی شاعری، لوک گیت، لوک دانش اور لوک قصوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے آپ کو سرائیکی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
تو پھر اس علاقے پر بلوچستان کے سیاسی زعما اور دانشور کیوں اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں؟ یہ کیسی سپورٹ ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔
رؤف صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
” بدقسمتی سے پچھلی پانچ دہائیوں میں یہ تحریک کوئی خاص مومنٹم حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ محدود پیمانے پر چند دانشور اس تحریک کو اپنی انٹلیکچوئل کیپیسٹی میں آکسیجن بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ جس سے کسی حد تک اس سوچ کو زندہ رکھنے میں مدد ملی ہے۔ ”
اگر آپ کا شُمار بھی سیاسی زعما میں ہوتا ہے تو یہ کیسے سیاسی زعما ہیں جو غاصب پنجاب کے بیانیے سے ملتے جُلتے بیانئے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ پنجاب کا بھی یہی موقف ہے کہ سرائیکی تحریک کوئی تحریک نہیں ہے یہ چند شر پسند لوگوں کی سازش ہے۔ میرے معزز دوست جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ سرائیکی نیشنلزم روایتی سیاست سے ہٹ کے ایک تحریک ہے اور اس کے خدوخال شدت پسندی اور منظم فورس کے بیانیے سے مختلف ہیں جس کی وجہ سے پاور پالیٹکس میں ہمارا وہ کردار نہیں ہے جو سٹیٹ فنڈنگ سے مخصوص بیانئے کے سیاسی زعما اور دانش وروں کا ہے مگر عام لوگوں کو اپنی شناخت اور بطور سرائیکی ایک علیحدہ اکائی کے طور پر اچھی طرح ادراک ہے۔
رؤف صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں
"اس تحریک میں شامل کچھ نام نہاد دانش ور اس تحریک پر وراثتی حق جتاتے ہیں۔ اور اپنی اتھاریٹیٹو اپروچ کی وجہ سے لوگوں کو وسیع پیمانے پر اس کاز کے ساتھ جڑنے میں حائل ہیں۔ انا پرستی کی پگڈنڈیوں پر بالے بانکوں کی طرح اچھل کود کرتے یہ آمریت پسند فاشسٹ نظریات کے حامل نام نہاد دانش ور کبھی کبھی محفل کے ادب آداب اور تہذیبی معیارات سے بھی چھلانگ لگانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
یہاں پر تو راقم نے حد ہی کر دی ہے۔ اتھاریٹیٹو اپروچ، آمریت پسند، فاشسٹ نظریات کی اصطلاحات کا استعمال ایسے کر رہے ہیں جیسے ان لوگوں کی وجہ سے کوئی قتل و غارت ہوئی ہو، یا انہوں نے کسی قوم کے جمہوری حق پر اعتراض کیا ہو یا یہ لوگ کسی ایسی رجیم کا حصہ رہے ہوں جو ڈکٹیٹروں نے اس ملک پر وقتا فوقتا مسلط کی ہیں۔
میرے پیارے بھائی یہ صرف الفاظ نہیں ہیں جو آپ اتنا آسانی سے استعمال کئے جا رہے ہیں یہ مکمل فلسفے ہیں جس کی تشریح تاریخ میں موجود ہے۔ ایسے لفظوں کا استعمال بہت دھیان سے کرنا پڑتا ہے۔ سرائیکی کبھی بھی اس طرح کے نظریات کے حامی نہیں رہے ہیں اور نہ ہی وہ ایسے نظریات کو سپورٹ کرتے ہیں۔ہم پر تو گاندھی وادی ہونے کا گُمان کیا جاتا رہا ہے۔
صاحب مضمون آگے لکھتے ہیں
” یہ یوٹوپیائی ماحول میں مستاں و غلطاں رہتے ہوئے جان بوجھ کر جڑت کی بجائے تنگ نظری اور نفرتوں کی بنیاد بنتے ہیں، جس کی وجہ سے عظیم تر قومی مقاصد کی تحریکوں کو نقصان پہنچنا لازم امر ہے۔
میرے دوست اب سیاسی حدیں کراس کر رہے ہیں۔ ہم تو معروضی حالات کے جبر کا شکار ہیں ہمارے ساتھ تو اس ریاست اور ہمارے ہمسائیوں نے بھی ظلم کیا ہے۔ ہم تو دوہرے جبر کے عذاب سے گزر رہے ہیں ایک طرف سرائیکیوں کی لاشیں بلوچستان سے یہاں آتی رہی ہیں دوسری طرف ریاست ہمارے وسائل کو ہڑپ کرتی رہی ہے۔ ہم نہ تو کسی یو ٹوپیا کا شکار ہیں اور نہ ہی تنگ نظری ہمیں سوٹ کرتی ہے۔ کسی بھی سرائیکی نے اج تک نفرتوں کے کاروبار کو پروان نہیں چڑھایا، نہ ہی یہ ہماری کسی بھی سرائیکی پارٹی کا بیانیہ رہا ہے۔ سرکار ہماری یا کسی سرائیکی فرد کی وجہ سے ” عظیم تر” قومی مفاد کی تحریکوں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ جس شخص کو آپ تنقید کا نشانہ بنا کر اتنے سنگین الزامات لگا رہے ہیں وہ تو کبھی بھی پاور پالیٹکس کا حصہ نہیں رہا تو کس پیرائے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عظیم تر قومی مفاد کی تحریکوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ میری دانست میں آپ کا یہ الزام بہت ہی بے معنی اور لا یعنی ہے۔
رؤف صاحب آگے جا کر لکھتے ہیں
” حال ہی میں سرائیکی صوبے اور موجودہ سیاسی صورت پر "سرائیکی لوک سانجھ” نامی تنظیم کے فورم سے ایک سیاسی کٹھ کا انعقاد کیا گیا جو کہ خوش آئند عمل ہے۔ اس میں شامل تمام لوگ سرائیکی صوبے کے مطالبے کے قائل نظر آتے ہیں اور اپنی گفتگو سے اس بات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک فطری سی بات ہے کہ ہر انسان چیزوں کو مختلف اینگل سے دیکھتا ہے اور یہی جمہوریت اور سیاسی عمل کا حسن ہے۔ لیکن اس محفل میں شدت پسند سیاسی نظریات رکھنے کے حوالے سے مشہور ایک نام نہاد دانش ور کا رویہ کسی طور ایک ٹھہرے ہوئے مدبر کا نہیں تھا۔ نا ہی کسی بھی اینگل سے وہ اپنی گفتگو سے کسی مظلوم قوم کے نمائندے محسوس ہو رہے تھے۔ ان کا انداز گفتگو کسی مغلیہ شہزادے سے کم محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ یوٹیوب چینل "وزڈم ساگا” پر لگائی جانے والی ویڈیوز سے مجھے بھی اس صریح فاشسٹ نظریاتی دانشور کے آمرانہ خیالات سننے کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑے زبردست انداز میں انتہائی مہارت سے اس محفل میں ان موصوف سے اختلاف رائے رکھنے والے دیگر شرکاء کو اس تحریک سے ہی اریلیونٹ ثابت کیا۔ پھر بڑے جوشیلے انداز میں اپنی گھسی پٹی روایتی بنیاد پرستانہ، تنگ نظرانہ اور اپنے تئیں فلسفیانہ گفتگو میں دیگر برادر اقوام پر بھی ہرزہ سرائی کی۔‘‘
جناب رؤف صاحب ایک طرف تو آپ مُکالمے اور جمہوری حقوق کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایک سینئر سرائیکی دانشور کے اس حق کو آپ ” صریح فاشسٹ ” کہہ رہے ہیں۔ صرف اس بنیاد پر کہ اس نے ایک مقرر سے اختلاف رائے کیا۔ مجھے بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاسی طور پر تربیت یافتہ سیاسی کارکن کسی بزرگ دانشور کے بارے میں ایسے ریمارکس نہیں دیتا۔
موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں۔
” اس طرح کے دانش ور شعوری طور پر سیاسی تحریکوں کے #ہائی #جیکر ہوتے ہیں”.
میرے دوست یہ بھی بتا دیں کہ اس سرائیکی بزرگ نے کس تحریک کو ہائی جیک کیا؟؟؟
ڈاکٹر رؤف قیصرانی صاحب آگے مزید ذاتیات کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں کہ
"یہی موصوف اسی طرح کا طرزعمل جیسل کلاسرہ کے سیاسی کٹھ میں دکھا چکے ہیں۔ پے در پے ان کے اس طرزعمل پر اوریجنل سرائیکی نیشنلسٹس کو ضرور نوٹس لینا چاہیے تاکہ نفرت کے استعارے اس طرح کے نام نہاد دانشور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نا ہو سکیں.
سرائیکی قوم کو صوبے کے حوالے سے بھی معتدل رویہ اپناتے ہوئے اسی پنجاب میں دیگر قومی اکاییوں سے سیاسی انداز میں مکالمہ کرنا چاہیے، نا کہ قبض گیر نفسیات کو اپناتے ہوئے یکطرفہ بیانیہ رکھنا چاہیے۔ اگر آپ سیاسی دلائل کی بجائے ان متعصب دانش وروں کے نقش قدم پر چلیں گے تو پھر آپ کے حقوق پر قابض استحصالیوں کو جواز میسر آئے گا اور وہ آپ کی اس طرح کے متعصب بیانیے کو جواز بنا کر اپنے استحصال کو جواز فراہم کریں گے۔ سرائیکی قوم کو طے کرنا ہو گا کہ وہ دیگر مظلوم قومیتوں سے سیاسی جڑت کو ترجیح دینے کیلیے نئے سرے سے سیاسی مزاحمتی صف بندی کرتے ہیں یا پھر نفرت اور تعصب کی آکسیجن سے سانس لیتے ان ہائی جیکر دانش وروں کا راستے اپناتے ہیں۔ سرائیکی قومی تحریکی میں شدت پسندی، ہٹ دھرمی اور تعصب کے اسباب فراہم کرتے نام نہاد دانش وروں کی موجودگی المیہ ہے۔ سرائیکی سیاسی کارکنوں کو محبت اور قومی جڑت سے بھرپور از سد نو بیانیے کی ترویج اور سیاسی مکالمے کی داغ بیل ڈالنے کیلیے ان تھک کاوش کرنی ہو گی تا کہ ان کے شناختی حق کی بازیابی ممکن ہو سکے۔”
میری جان آپ نہ تو سرائیکی تحریک کا حصہ ہیں اور نہ ہی آپ نے کبھی اس تحریک کو چلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے لہٰذا آپ کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ آپ کسی تحریک کے اندرونی اُکھاڑ پچھاڑ میں ہماری معاونت کریں ۔ اس طرح کی دخل اندازی غیر سیاسی قوتیں تو کرتی ہیں مگر آپ جیسے سیاسی کارکن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ ہمیں اس طرح کے مشورے دیں کیونکہ آپ کو وہ معلومات ہی نہیں ہیں جو اس تحریک میں موجود لوگوں کو ہیں یہ ان کا بنیادی جمہوری حق ہے کہ وہ کس کو اپنا لیڈر چنتے یا مانتے ہیں ۔ آپ یوں اتھاریٹیٹو طریقے سے اپنے خیالات و جذبات سرائیکیوں پر مسلط نہیں کر سکتے۔
اُمید ہے آپ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور اپنا وقت اپنی پارٹی کی اصلاح اور اس کے مقاصد کو استعمال کرنے میں صرف کریں گے۔ کسی دوسرے کو اخلاقیات ، سماجیات اور سیاسیات کا درس دینے سے پہلے اپنی پارٹی کی کمی اور کوتاہیوں کو سامنے لا کر اسے ایک جمہوری پارٹی بنانے میں مدد فراہم کریں گے وہ بھی پارٹی کی انٹرنل میٹنگز میں۔

یہ بھی پڑھیے:

سرائیکی لوک سانجھ شادن لُنڈ دے کٹھ دا مشترکہ تے متفقہ اعلامیہ
ہم سرائیکی ڈائیلاگ، جمہوری حقوق، پارٹی پرائیویسی ، جینڈر حساسیت، ماحولیات اور ثقافتی و تاریخی حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے چاہے اس کیلئے ہمیں سات پُشتوں تک ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑے کیونکہ سیاسی عمل اور سیاسی حقوق مسلسل جدو جہد سے عبارت ہوتے ہیں۔

%d bloggers like this: