مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم اور نوازشریف کا بیانیہ ۔۔۔ملک سراج احمد

شائد اسی سبب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوے نوازشریف کے بیانیے سے بظاہر لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسال قبل تبدیلی کا سفر بہت سے وعدوں اور دعووں کے ساتھ شروع کیا گیا۔کپتان کا دعویٰ تھا کہ وہ خراب معیشت کی بحالی ،بلا تفریق احتساب ، بہتر طرز حکمرانی اور کامیاب سفارت کاری سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔اور عوام سے کیئے گئے بہت سے وعدوں میں پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے قابل زکر وعدے بھی شامل تھے۔کشکول توڑنے کے دعویدار عمران خان نے جب اعلان کیا کہ وہ قرض یا امداد لینے کی بجائے پھانسی قبول کر لیں گے تواس اعلان نے ان کی عوامی مقبولیت کو ایک معراج عطا کردی۔اس وقت کے میڈیا نے ایک کہرام مچا دیا اور تبدیلی کی دھن پر ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ ڈالے۔

25 جولائی سے تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوگیا۔وعدوں اور دعووں کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آیا تو پھر چراغوں میں روشنی نا رہی۔تبدیلی کے سفر کے پہلے سال میں ہر خراب معاشی سرگرمی کا زمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا گیا۔خراب معیشت کی بحالی کے لیے مزید قرض لیا جانے لگا۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مارچ2018میں ملک کےمجموعی قرضے 230 کھرب 24ارب سے بڑھ کرمارچ2020 میں314 کھرب 52 ارب روپے ہوگئے۔کپتان کے عہد حکمرانی میں 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا جس میں سے 19ارب 20 کروڑ ڈالر پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوئی جبکہ 7ارب ڈالر کپتان کی بہترین معاشی ٹیم کی صلاحیتوں کی نذر ہوگئے۔

ایک عام پاکستانی کا ان قرضوں سے نا پہلے کوئی لینا دینا تھا نا ہی اب کوئی سروکار ہے۔عوام تو یہ دیکھتی ہے اشیائے ضروریہ کے نرخ کیا ہیں اور روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں آٹا 32 روپے سے 65 روپے اور چینی 55 روپے فی کلو سے بڑھ کر 105 روپے کلو ہوچکی ہے۔اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کی حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ براے 21-2020 کے مطابق ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کی توقع ہے ۔ابھی تو یہ محتاط حکومتی رپورٹ ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بے روزگاری کی شرح اس سے کہیں بڑھ کرہے۔

شائد اسی سبب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوے نوازشریف کے بیانیے سے بظاہر لاتعلقی کا اظہار کردیا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نوازشریف کا موقف پی ڈی ایم کا متفقہ موقف نہیں تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں اس بنیادی نکتے پر بات ہوئی جس کے بعد 13 نومبر کے اجلاس میں متفقہ بیانیہ یا پھر میثاق کے لیے تجاویز مانگ لی گئیں جن کو 14 نومبر کے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں متفقہ طورپر منظور کرکے عوام کے سامنے لایا جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ میثاق میں نوازشریف کے بیانیے کو کتنی جگہ ملتی ہے۔بظاہر اس کے امکانات کم ہی ہیں کہ پی ڈی ایم میاں نوازشریف کے موقف کو من وعن تسلیم کرلے اور ایک اندازہ ہے کہ شائد آئندہ جلسوں میں کی جانے والی تقاریر میں کسی شخص کا نام لے کر الزام نہیں لگایا جائے گا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے احتجاج کو حکومت کے خاتمے تک محدود کردے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ پی ڈی ایم کو کچھ نا کچھ کامیابی مل سکے۔اس سب کے باوجود اگر میاں نوازشریف اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان کو پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم چھوڑنا پڑ جائے۔تو کیا میاں نوازشریف کی جماعت میں اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے قائد کے بیانیے کا بوجھ اٹھا سکے۔فی الوقت تو عبدالقادر بلوچ اور ثنا اللہ زہری پارٹی چھوڑ چکے ہیں اگر میاں صاحب بضد رہے تو کوئی بعید نہیں کہ پارٹی کے دیگر بہت سے لوگ معذرت کرلیں۔اس ضمن میں بہتر ہے کہ میاں نوازشریف ایک بار اپنے بیانیے پر پھر سے غور کرلیں ممکن ہے کوئی بہتر صورت نکل آئے۔

لگے ہاتھوں گلگت بلتستان کے انتخابات کا زکر بھی کرلیں۔15 نومبر کو پولنگ ہوگی اور اس وقت انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے ۔تحریک انصاف ،ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ساتھ ساتھ پری پول رگنگ کی آوازیں آنا بھی شروع ہوگئی ہیں۔سوال یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات کو جعلی کہنے والی سیاسی جماعتوں کو گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تھا۔آخر کس امید پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی وہاں پر انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔صاف شفاف انتخابات کی واضح یقین دہانی کے بغیر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کامیابی نہیں ملنی اور نتیجہ یہ کہ گلگت بلتستان کے یہ انتخابات تحریک انصاف جیت جائے گی۔اور نشستوں کے اعتبار سے اندازہ ہے کہ پیپلزپارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعتیں ہوں گی۔اور اگر نتائج اسی طرح کے آئے تو کون ان نتائج کو تسلیم کرئے گا اس پر بھی ارباب اختیار کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

رابطہ نمبر 03334429707

وٹس ایپ 03352644777

%d bloggers like this: