مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان ۔۔۔ملک سراج احمد

یہی نہیں بلکہ جوبائیڈن کی جیت کے بعد ایک اور موضوع زیر بحث ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاوس کو خالی کرے گا یا نہیں۔اور اگر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کو خالی کرنے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طے ہوگیا کہ سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے گدھا ہونا ضروری ہے اگر سیاست دان گدھا نہیں ہے تو اس کا گدھے کے نشان پر الیکشن لڑنا ضروری ہے۔مطلب یہ کہ خاطر جمع رکھیں یا تو گدھا کامیاب ہوگا یا پر گدھے کے نشان پر کوئی سیاست دان۔

اس کی دلیل حالیہ امریکی انتخابات ہیں جہاں پر گدھے کے نشان پر جوبائیڈن ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد صدر منتخب ہوگئے۔ان انتخابات میں امریکی ووٹرز نے اپنی ماضی کی غلطی کو درست کرتے ہوے حقیقی گدھے کی بجائے گدھے کے نشان پر لڑنے والے سیاست دان کو کامیاب کرایا۔2020 کے امریکی انتخابات اس حوالے سے بھی یادگار رہیں گے کہ امریکیوں کی نظر میں ایک گدھا انتخابی نشان گدھے سے شکست کھا گیا۔یہی نہیں بلکہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کرکے ٹرمپ نے دو صدیوں کی روایات کا جنازہ بھی نکال دیا۔

یہی نہیں بلکہ جوبائیڈن کی جیت کے بعد ایک اور موضوع زیر بحث ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاوس کو خالی کرے گا یا نہیں۔اور اگر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کو خالی کرنے سے انکار کردیا تو کیا ہوگا۔

کیونکہ اس عمل کی ناتو امریکی آئین میں کوئی وضاحت موجود ہے اور نا ہی اس کے متعلق کوئی قانون بنایا گیا ہے۔علاوہ ازیں ٹرمپ کا یہ بیان بھی موجود ہے کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔ویسے تو معاملات ٹھیک ہی ہوجائیں گے تاہم خدشہ یہ ہے کہ کم وبیش دو صدیوں پر محیط روایات کا جنازہ نا نکل جائے۔ٹرمپ کی ممکنہ ضد کی صورت میں اگر سکیورٹی نے ٹرمپ کو وائٹ ہاوس سے بے دخل کیا تو یہ بھی اپنی نوعیت کی پہلی روایت ہوگی بلکہ ری پبلیکن کے لیے ایک قابل شرم روایت ہوگی۔امید ہے پارٹی ٹرمپ کوایسا نہیں کرنے دی گی۔تاہم ٹرمپ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کسی وقت کیا کردے

ٹرمپ 21 ویں صدی کا پہلا امریکی صدر ہے جو انتخابات میں دوسری مدت کے لیے کامیاب نہیں ہوسکا اور مجموعی طورپر گزشتہ 30 سال میں پہلا امریکی صدر جو دوسری مدت کے لیے ناکام ہوا۔اس سے قبل بھی 1992 میں ریپبلیکن امیدوار جارج ڈبلیو بش دوسری بار صدارت کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار بل کلنٹن سے شکست کھا گئے تھے۔امریکی انتخابات کی گزشتہ 100 سالہ تاریخ میں 4امیدوار ایسے ہیں جن میں ولیم ہاورڈ ٹافٹ ، ہربرٹ ہوور،جمی کارٹر،جارج ایچ ڈبلیو بش شامل ہیں دوسری مدت کے لیے کامیاب نہیں ہوسکے اور اب ان میں ٹرمپ کا بھی شمار ہوگا۔جبکہ مجموعی امریکی انتخابی تاریخ میں دس امیدوار رہے ہیں جو دوسری مدت کے لیے کامیاب نا ہوسکے جن میں جان ایڈمز پہلے امریکی صدرتھے جو 1800 کے انتخابات میں دوسری مدت کے لے تھامس جیفرسن سے شکست کھا گئے تھے۔

حالیہ امریکی انتخابات میں 46 ویں نومنتخب صدر جوبائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ۔1942 میں امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہونے والے جوبائیڈن 1972 میں پہلی بار امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہوے۔1988 اور 2008 میں جوبائیڈن نے امریکی صدارت کے لیے پارٹی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نا ہوسکے۔تاہم صدر اوباما نے ان کو اپنا نائب صدر نامزد کردیا اور وہ 2009 سے 2017 تک امریکہ کے نائب صدر رہے۔جوبائیڈن اب تک کی امریکی تاریخ کے منتخب ہونے والے سب سے

معمر صدر ہیں۔جب وہ صدارت کا حلف اٹھائیں گے تو ان کی عمر 78 برس ہوگی۔جبکہ نومنتخب نائب صدر کاملا ہیرس 1964 میں پیدا ہوئیں۔2011 میں کیلی فورنیا کی پہلی خاتون سیاہ فام اٹارنی بنیں۔2016 میں کیلی فورنیا سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔کاملا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔

رہی بات یہ کہ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کیسے رہیں گے تو پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے تعلقات رپبلیکن سے تو بہت اچھے رہے ہیں تاہم ڈیموکریٹ حکومت سے تعلقات ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ڈیموکریٹک ادوار میں پاکستان پر معاشی اور ایٹمی پابندیاں لگتی رہیں۔اور اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو کوئی شک نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ایک مشکل دور شروع ہونے والا ہے۔خاص طورپر اس وقت جب ڈیموکریٹک رہنما ہیلری کلنٹن ڈیپ اسٹیٹ کی مثال کے لیے پاکستان کا نام لے۔

جوبائیڈن کے جنوبی اشیائی ممالک اور خاص طورپر پاکستان اور انڈیا سے زاتی مراسم رہے ہیں وہ ان ممالک کے مسائل کے حوالے سے بہت کچھ زاتی طورپرجانتے ہیں۔ وہ یہاں کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے بخوبی آشنا ہیں۔2008 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جو بائیڈن کو کیری لوگر بل اور جمہوریت کو تقویت دینے پر صدر پاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے اعلیٰ ترین سول اعزازہلال پاکستان سے نوازا گیا۔اس قدر آشنائی پاکستان کے مفاد میں بھی جاسکتی ہے اور خلاف بھی اور یہ بھی طے ہے کہ بائیڈن انتظامیہ مختلف معاملات میں اپنی اصولی راے ضرور رکھے گی اور مداخلت کرے گی جو کہ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نہیں کرتی تھی۔

  1. پاک امریکہ تعلقات کو مشکلات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بے چینی کا جلد از جلدخاتمہ کیا جائے اور سویلین اداروں کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔پاک بھارت تعلقات اور خاص طورپر مسلئہ کشمیر جو کہ حل تو نہیں ہوگا مگر اس مسلئہ پر بھی بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دونوں ملکوں پر دباو بڑھے گا۔سب سے اہم یہ کہ خطے میں ہندوستان ایک اہم ملک ہے اور امریکہ کو چین کا مقابلہ کرنے لیئے بہرحال انڈیا کی مدد کی ضرورت پڑے گی ایسے میں قوی اندیشہ ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار رہیں۔خلاصہ یہ کہ جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہوں گے اور نا ہی اس کی امید رکھنی چاہیے۔لیکن ہمیں سیاسی استحکام ، جمہوری اداروں کی مضبوطی ، افغان پالیسی ، معیشت کی بحالی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کوبائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر سے ازسر نو دیکھنا ہوگا۔

%d bloggers like this: