مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماموں کا گھر، بے روزگاری اور رونق۔۔۔مبشرعلی زیدی

سانحہ یہ ہوا کہ ادھر ماموں کی ملازمت بحال ہوئی، ادھر ممانی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خیال تھا کہ پتے میں درد ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے ماموں کا گھر خاندان کے مرکز جیسا تھا۔ لوگوں کا آنا جانا دن بھر جاری رہتا۔ صبح چمن ماموں دفتر جانے سے پہلے پان کھانے آتے۔ دوپہر میں ملکہ باجی خیریت لینے آجاتیں۔ شام کو خالا پیاری کی آمد پر محفل جمتی۔ رات گئے تک عباس بھائی اور اطہر بھائی موجود ہوتے۔ ویک اینڈ پر فلم دیکھنے کا پروگرام بنتا تو میں گھر سے وی سی آر لے جاتا۔ مظفر بھائی ٹی وی اٹھا لاتے۔ رات بھر فلمیں دیکھی جاتیں۔
جیسی رونق چھوٹے ماموں کے گھر میں پائی، ویسی کہیں اور نہ دیکھی۔ اور یہ سب اس زمانے میں تھا جب ماموں بیروزگار تھے۔ ضیا الحق کے آنے پر نیشنل بینک سے نکالے گئے اور بینظیر بھٹو نے آکر بحال کیا۔ بدقسمتی سے میں خود آج کل بیروزگار ہوں۔ گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہورہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ماموں بیروزگاری میں اتنی مہمان داری کیسے کرتے تھے۔ ہر شخص کی تواضع چائے سے ہوتی تھی۔ پان کھانے والوں کو پان پیش کیے جاتے تھے۔ کھانے کے وقت آنے والے کھانے میں شریک ہوتے تھے۔
میں نے ایک رشتے دار خاتون ایسی بھی دیکھیں جن کے میاں اچھی نوکری کرتے تھے اور وہ خود بھی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ لیکن دوپہر میں بچوں کو لے کر کھانا کھانے آجاتی تھیں۔ بعض لوگ سفاک ہوتے ہیں۔
میرا چھوٹے ماموں سے گہرا تعلق تھا۔ وہ خاندان کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔ بینک سے باہر تھے لیکن بڑے افسر ان سے مشورے لینے گھر آتے تھے۔ اپنی رپورٹیں ان سے ڈرافٹ کرواتے تھے۔
میں نے پہلی بار ابن صفی کے ناول ماموں کے کتب خانے سے غائب کرکے پڑھے۔ بلکہ وہ ایک بار خانیوال آئے تو ایک ناول بھول کر چلے گئے۔ مجھے اس کا نام اب تک یاد ہے، بلی چیختی ہے۔
ماموں ذہین تھے، خوش مزاج تھے، ملنسار تھے لیکن ان کے گھر کی ساری رونق ممانی کے دم سے تھی۔ ماموں دن میں ملازمت کی تلاش کے لیے یا دوسرے کاموں کی وجہ سے گھر میں نہیں ہوتے تھے۔ ممانی مہمانوں کی تواضع کرتیں۔ پرہیزگار خاتون تھیں۔ شوہر کی ملازمت اور رزق کی کشادگی کے لیے انھیں وظیفے پڑھتے ہوئے بھی دیکھا۔
سانحہ یہ ہوا کہ ادھر ماموں کی ملازمت بحال ہوئی، ادھر ممانی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خیال تھا کہ پتے میں درد ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کے لیے پیٹ کاٹا تو کینسر دیکھ کر سرجری نہ کرسکا۔ چند دنوں میں ممانی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر پچاس سال سے زیادہ نہیں تھی۔
ممانی کے انتقال کے بعد ماموں وہ نہ رہے جو تھے۔ ان کے گھر میں بھی ویسی رونق نہ رہی۔ تب نانی اماں زندہ تھیں۔ ان سے ملنے کبھی جاتا تو گھبراہٹ ہوتی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ بھرا ہو گھر بھی ویران لگتا تھا۔
ممانی کے انتقال سے پہلے ہما باجی کی شادی ہوچکی تھی۔ وہ مجھ سے تین سال بڑی تھیں۔ شادی کے وقت ان کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ مجھے وہ تاریخ یاد ہے کیونکہ ایک دن پہلے پورے خاندان نے مل کر آسٹریلیشیا کپ کا فائنل دیکھا تھا جس کی آخری گیند پر جاوید میاں داد نے چھکا مارا تھا۔
میرے لیے یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ ہما باجی شادی کے وقت کتنی خوبصورت تھیں۔ گورا رنگ، لمبے بال، بڑی بڑی آنکھیں، مترنم ہنسی۔ لیکن سب سے خاص بات ان کی خوش مزاجی تھی۔ بالکل ممانی جیسی۔ وہ اپنی امی کی کاپی تھیں۔ ان کے شوہر مظفر بھائی میرے تایازاد بھائی ہیں۔
ممانی کے انتقال کے بعد ماموں کا گھر خاندان کا مرکز نہ رہا۔ وہ رونق ہما باجی کے گھر منتقل ہوگئی۔ ماموں کے ہاں دوردراز کے رشتے دار بھی آتے رہتے تھے۔ ہما باجی کے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ ماموں کا جلد انتقال ہوگیا۔ پھر بہنوں بھائیوں کی شادی ہما باجی نے کی۔ ہما باجی کے بہن بھائی اور مظفر بھائی کے بہن بھائی بھی شادی کے بعد شوہروں، بیویوں اور بچوں سمیت ان کے گھر میں دکھائی دیتے تھے۔ تقریبات کے علاوہ بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔
ہما باجی کو محفل سجانا آتی تھی۔ سب سے ہنسی مذاق کررہی ہیں۔ ٹھٹھے لگا رہی ہیں۔ جو باتیں لوگ سرگوشیوں میں کرتے ہیں، وہ بلند آواز میں بول کر سب کو حیران پریشان کررہی ہیں۔ شادی کی تقریب ہے تو ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ زوردار آواز میں گانا گارہی ہیں۔ کبھی غصہ آجائے تو فل والیوم میں چیخ رہی ہیں۔ رونا آجائے تو دھاڑیں مار مار کے رو رہی ہیں۔ وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتی تھیں۔ شاید جذبات کو چھپانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔
میری کوئی بڑی بہن نہیں تھی۔ میں نے ہما باجی کو اپنی بڑی بہن بنالیا تھا۔ ہمارے گھر کی دعوت ناموں میں مجھ سے اوپر ان کا نام لکھا جاتا تھا۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ اکثر کہتی تھیں، مبشر تم بالکل ہمارے بابا جیسے ہوگئے ہو۔ ویسے ہی بال، ویسا ہی انداز۔
میں صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد خاندان سے کچھ دور ہوگیا۔ شام کی نوکری تھی، تقریبات میں بھی نہیں جا پاتا تھا۔ شادی کے بعد مصروفیات دوچند ہوگئیں۔ ہما باجی کے بچوں کو ان کے بچپن میں دیکھا۔ جب ان کی شادی کے کارڈ آئے تو بہت حیرت اور خوشی ہوئی۔ ہما باجی فورٹیز میں نانی دادی بن گئیں۔
شادی کے بعد ہما باجی کا وزن تیزی سے بڑھا۔ بھاری بھرکم ہوگئیں۔ انھوں نے صحت کا خیال نہیں رکھا۔ کم عمری میں شوگر اور بلڈ پریشر کے مسائل لاحق ہوگئے۔ کچھ عرصے سے جگر میں بھی خرابی تھی۔ لیکن وہ متحرک تھیں۔ ملنا جلنا آنا جانا برقرار تھا۔ طبیعت ایسی خراب نہیں تھی کہ تشویش کی بات ہوتی۔
سنا ہے کہ دو دن پہلے تک وہ شاپنگ کرکے آئی تھیں۔ پھر اچانک بخار ہوا۔ سانس لینے میں دشواری ہوئی۔ مظفر بھائی انھیں اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے کرونا وائرس کا خدشہ ظاہر کیا۔ ٹیسٹ کا نتیجہ بعد میں آیا، ہما باجی کا انتقال پہلے ہوگیا۔
میں امریکا آتے ہوئے ہما باجی کو ہنستا بولتا چھوڑ کے آیا تھا۔ جس صبح میری چھوٹی بہن نے میسج کیا کہ ہما باجی کا انتقال ہوگیا تو میں سناٹے میں آگیا۔ میں ان کی طبیعت خرابی سے لاعلم تھا۔ میری بیوی خاندان سے رابطے میں رہتی ہے۔ اس نے بتایا کہ ہما باجی کو ایک دن پہلے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
کتنے دن ہوگئے ہیں، ہما باجی کا چہرہ آنکھوں سے ہٹ نہیں رہا۔ کیسی تیز رفتار زندگی گزاری انھوں نے۔ جلدی شادی ہوئی، بچے ہوگئے، بچے بڑے ہوئے، ان کی شادیاں ہوئیں، جلدی نانی دادی بنیں اور جلدی رخصت ہوگئیں۔ وہی ممانی جیسی صورت، ممانی جیسی عادتیں اور ممانی کی طرح کم عمری کی موت۔
دعا ہے کہ کراچی آباد رہے، خاندان پھلے پھولے، خوشیوں سے دامن بھرے رہیں لیکن ہماری دنیا پہلے جیسی نہیں رہی۔ ہماری بزم کی شمع بجھ گئی۔ رونق رخصت ہوئی۔

%d bloggers like this: