اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی، قارئین کے خطوط اور غداری کا مقدمہ۔۔۔ حیدرجاوید سید

پچھلے کچھ عرصے میں حکومت نے بجلی کے فی یونٹ میں جو اضافہ کیا اس کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی حالت زار کو مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض ہے سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں، تلخی بڑھانے اور غدار غدار الاپتے چلے جانے سے انارکی بڑھے گی۔ عوام کے مسائل ہیں اور دن بدن سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں۔

وفاقی یا صوبائی کابیناؤں میں بیٹھ کر مہنگائی کی مذمت کرنے کا شوق ضرور پورا کیجئے لیکن مہنگائی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات اُٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں حکومت نے بجلی کے فی یونٹ میں جو اضافہ کیا اس کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی حالت زار کو مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا؟

اب اطلاع یہ ہے کہ یو ٹیلیٹی سٹور پر فروخت ہونے والی اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں 9سے13روپے فی کلو اضافہ کرنے کی سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی ہے۔

یوٹیلیٹی سٹورز کو حکومت سبسڈی دیتی ہے، کیا سبسڈی بند کر دی گئی؟

نہیں تو پھر قیمتوں میں کمرشل بنیادوں پر اضافے کی سمری کیوں؟

محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ حکومت مہنگائی مافیا کیخلاف کارروائی کرے گی۔

لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کارروائی کب ہوگی؟

روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے دام دن بدن بڑھ رہے ہیں، ڈبے میں بند پاؤ دودھ کا پیکٹ 40روپے کا ہوگیا یعنی پیکٹ والا دودھ160روپے لیٹر۔ کیا یہ ظلم نہیں؟

دو دن ادھر پیاز 80روپے کلو اور ٹماٹر160روپے کلو فروخت ہوئے (ہم خرید کرلائے) ادرک اور لہسن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

مہنگائی کا عذاب کیا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چند برس قبل سبزی فروش خریدی گئی سبزی کیساتھ سبز دھنیا اور مرچ بونس کے طور پر ڈال دیتے تھے یہ ہمیشہ کا معمول تھا۔ اب سبز دھنیا اور ہری مرچوں کی الگ سے قیمت وصول کی جاتی ہے۔

ہمارے شہر کے دکاندار کہتے ہیں دھینا 3سو روپے کلو لاتے ہیں منڈی سے۔

روزگار ہے نہیں، دیہاڑی دار مزدور جسے کورونا وباء سے قبل اوسطاً ہفتہ میں 5دن مزدوری مل جاتی تھی اب ہفتہ میں مشکل سے دویا تین دن کام ملتا ہے۔

لوئر مڈل کلاس کے سفید پوشوں کا سب سے بُرا حال ہے۔ اس اثناء میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئیں۔

ارشاد ہوا، ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ چور بازاری کو روکنا تھا، صاف کہہ کیوں نہیں دیتے کہ منافع خور اور ذخیرہ اندوزوں کیساتھ سرمایہ دار حکومت سے زیادہ طاقت ور ہیں۔

معاف کیجئے گا مہنگائی اور دوسرے مسائل کا آئے دن تذکرہ اس لئے ان سطور میں کرنا پڑتا ہے کہ تحریر نویس کا تعلق بھی لوئر مڈل کلاس کے ان سفید پوشوں سے ہے جو سسک سسک کر جی رہے ہیں۔

اب ایک دو خط پڑھ لیجئے، ڈیرہ اسماعل خان سے محمد حسین بلوچ لکھتے ہیں

”خوشحالی گو کبھی بھی نہیں رہی لیکن کورونا وباء سے قبل تنگدستی بھی نہیں تھی، حکومت نے کورونا کے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر کے احسان عظیم کیا تھا مگر جونہی لاک ڈاؤن ختم ہوا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، بجلی اور گیس کی قیمت بڑھا دی گئی، یہ فیصلہ کرنے والے آخر کب ٹھنڈے کمروں سے نکل کر بازاروں میں بھاؤ تاؤ کر یں گے، انہیں پتہ چلے ہم جو عوام کہلاتے ہیں بدترین حالات سے دوچار ہیں”۔

وہ مزید لکھتے ہیں ”میرا گھرانہ سات افراد پر مشتمل ہے، کورونا سے قبل ماہانہ آمدنی 25سے27ہزار تھی، سفید پوشی کا بھرم قائم تھا، وہ بھرم اب ٹوٹ گیا ہے ہم اب صبح ناشتہ کرتے ہیں اور شام کو کھانا کھاتے ہیں، ایک وقت کا کھانا بچا لیتے ہیں تاکہ زندگی چلتی رہے۔ والدہ کیلئے مستقل ہر ماہ ساڑھے تین ہزار کی ادویات آتی ہیں، کورونا کے بعد یہ ادویات پانچ ہزار روپے میں آتی ہیں۔ مکان کا کرایہ، یوٹیلیٹی بلز اور دیگر اخراجات، ہر ماہ قرضہ لینا پڑتا ہے لیکن کب تک؟”

محمد حسین بلوچ کا دکھ اور سوال دونوں ہر سفید پوش کا نوحہ ہیں، لاریب حکومت کو ایسے مؤثر اقدامات کسی تاخیر کے بغیر کرنا ہوں گے کہ سفید پوش اور نچلے طبقات کا زندگی سے رشتہ نہ ٹوٹنے پائے۔

پشاور سے فرید الرحمن لکھتے ہیں

” ہم نے تحریک انصاف کو ووٹ دئیے پچھلے دو انتخابات میں اس اُمید پر کہ بہتری اور خیر ہوگی۔

کرپشن اور دوسرے مسائل کم ہوں گے، افسوس کہ یہ مسائل کم نہیں ہوئے۔

فرید الرحمن کہتے ہیں وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ ہر اتوار کو ملک کے کسی شہر میں کھلی کچہری لگایا کریں، اس طرح وہ اپنے کارکنوں اور ووٹروں کے ذریعے براہ راست ان مسائل سے آگاہ ہوسکیں گے جو بیوروکریسی اور وزیر ومشیر انہیں نہیں بتاتے بلکہ سب اچھا کی خبر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم کی ذات پر ان کے ووٹروں کا بھروسہ ابھی قائم ہے یہ اُن (وزیراعظم) کا فرض ہے کہ اسے ٹوٹنے نہ دیں۔ فریدالرحمن نے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں فیسوں میں حالیہ اضافے کو بھی نادرست قرار دیا اور سوال کیا کہ جناب عمران خان تو کہا کرتے تھے تعلیم اور علاج معالجے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اب وہ اقتدار میں ہیں اپنے وعدے پورے کریں”۔

نوازشریف سمیت 43مسلم لیگی رہنماؤں ان میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بھی شامل ہیں کیخلاف لاہور میں درج کئے جانے والے غداری کے مقدمہ پر جاری بحث میں حکومت کے ترجمانوں کا مؤقف کمزور ہے، جس بنیادی سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ کہ لیگل برانچ کی مشاورت کے بغیر ”چٹ منگنی پٹ بیاہ” والا معاملہ کیوں ہوا؟

اس بحث کے دوران وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی نے نوازشریف کی صاحبزادی پر الزام لگایا کہ انہوں نے لاہور کے کسی کھوکھر پیلس میں بھارتی شہریوں سے ملاقات کی اور یہ کہ نون لیگ بھارت کے ایماء پر ملک میں انتشار پیدا کررہی ہے۔

بہت احترام کیساتھ حکومت (وفاقی حکومت) سے سوال ہے، بھارتی شہریوں کو ویزہ کس نے دیا، وہ بھارت سے پاکستان آئے اور لاہور پہنچے یا کسی تیسرے ملک کے ذریعے؟

اس کی کسی تاخیر کے بغیر وضاحت بہت ضروری ہے۔ اسی طرح غداری کے درج مقدمہ کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مقدمہ کے مدعی کا جرائم سے بھرپور ریکارڈ سامنے آچکا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ ایک شخص اقدام قتل، جھگڑوں، کارسرکار میں مداخلت اور منشیات فروشوں کے سر پرست کے طور پر متعدد مقدموں میں نامزد (ملزم) رہا ہو کیسے اس جرائم پیشہ شخص کی درخواست پر متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او نے آنکھیں بند کر کے مقدمہ درج کروا دیا جبکہ اسی تھانہ میں اس مدعی کیخلاف کم وبیش تین مقدمات درج ہیں؟۔

%d bloggers like this: