اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط9 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
تھل کے کنوئیں
تھل کے وہ علاقے جو دریائے سندھ کے نزدیک ہیں وہاں پر پانی کم گہرا اور میٹھا ہے‘اسی لیے کنوئیں بھی اتنے گہرے نہیں ہیں۔کلور کوٹ سے کوٹ سلطان کی طرف جوں جوں ہم دریا کی سمت بڑھتے چلے جائیں‘کنوؤں کی گہرائی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔کلور کوٹ میں اوسطاً گہرائی 50فٹ جبکہ کوٹ سلطان کے مقام پر صرف 15 فٹ ناپی گئی ہے۔نشیب یعنی کچے میں سردیوں کے موسم میں پانی کا لیول(گہرائی) 10سے15فٹ تک پایا گیا ہے۔جندن والی کے علاقے میں گہرائی 60فٹ جبکہ گوہروالا اور مہین کے علاقے میں 60سے 70فٹ گہرے کنوئیں کھودے گئے ہیں۔تھل کے شمال مشرقی جانب کنوئیں کافی گہرے کھودے جاتے ہیں‘جن کا پانی صرف مویشیوں کے پینے کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔اردگردکچھ کنوئیں ایسے بھی ہیں کہ جن کا پانی زراعت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسے کنوئیں بہت ہی کم ہیں اورزیادہ تر کا پانی جانوروں کے استعمال میں ہی لایا جاتا ہے۔تھل کے جنوب اور مغرب میں جہاں کنوئیں اتنے گہرے نہیں‘وہاں پر ان کنوؤں کے سبب کھیتی باڑی بھی کی جاتی ہے۔تھل کے شمالی اور جنوبی علاقوں کا وافر علاقہ جہاں پر ریت کے ٹیلے چونکہ کم ہیں اسی لیے وہاں کنوئیں زیادہ ہیں اور جانوروں کی چراگاہیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔تھل کے وہ سارے علاقے جہاں کنوئیں بکثرت ہیں انہیں مقامی زبان میں ڈگر کہا جاتا ہے۔
صحرائے تھل کی اقسام: صحرائے تھل کو زمینی ساخت کے حساب سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔گریٹر تھل‘ڈگر تھل اور جنڈی تھل۔
گریٹر تھل: تھل کا وہ علاقہ جو دریا کے مشرق میں کچے سے شروع ہو کر سندھ ساگر دوآب کے وسط تک پھیلا ہو اہے‘اسے گریٹ یا گریٹر تھل کہا جاتاہے۔گریٹر تھل میں کنوؤں کی کمی ہے اور زیادہ تر علاقہ ریتلا ہے۔اس میں کچی اور بھکر کا علاقہ شامل نہیں کیونکہ بھکر ڈگر تھل کی حدود میں آتا ہے۔
ڈگر تھل: بھکر تحصیل کے جنوب میں سطح زمین کافی ہموار اور کھیتی باڑی کیلئے نہایت موزوں ہے اور کچی تک کا یہ علاقہ 8سے 10میل تک پھیلا ہوا ہے۔ڈگر کے علاقے میں کنوئیں ہی کنوئیں کھودے گئے ہیں‘ یہ علاقہ کچی سے الگ ہے۔
جنڈ ی تھل: تھل کے جنوبی خطے کو جس میں لیّہ کی تحصیل شامل ہے‘جنڈی تھل کہا جاتا ہے۔ چونکہ ان علاقوں میں جنڈ کے درختوں کی بھرمارہے اسی لیے اسے جنڈ تھل کہا جاتا ہے۔ تحصیل لیّہ کی طرف سے جنڈی تھل کا بالائی حصہ گریٹر تھل سے ملا ہوا ہے‘ وہاں پر کنوؤں کی کثرت کے باعث کھیتی باڑی عام ہے۔
تحصیل بھکر کا وہ حصہ جو گریٹر تھل کے قریب ہے‘وہ زیادہ تر چراگاہوں پر مشتمل ہے۔اسی طرح تحصیل لیّے کا آدھا حصہ جو زمین سے تھوڑا اُوپر ہے وہ چراگاہوں پر مشتمل ہے جبکہ آدھے رقبے پرکھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ڈگر کے علاقے کا انحصار کھیتی باڑی پرہے۔تھل کی سطح زمین کی اس قدرتی خصوصیات کی وجہ سے وہاں کی آبادی بھی اُسی مناسبت سے پورے تھل کے علاقے میں رہائش پزیرہے‘مثلاًوہ علاقے جو کنوؤں کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں وہاں کنوؤں کے اردگرد چھوٹے چھوٹے قریے ہیں اورہرقریہ میں چھ یا آٹھ گھرانے آباد ہیں۔پورے ڈگر کے علاقے میں بمشکل کوئی ایک ایسا قریہ ہی ہوگا کہ جسے مناسب آبادی کی وجہ سے گاؤں یا قصبہ کہا جائے‘کیونکہ وہاں کی آبادی نہایت قلیل تعداد میں ہے۔
تھل کے چرا گاہی خطے میں زیادہ تر بڑے بڑے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے قصبات شامل ہیں‘ جیساکہ منکیرہ‘حیدرآباد‘جنڈاں والہ وغیرہ۔ تحصیل لیّہ کاگریٹر تھل کا علاقہ متوسط آبادی پر مشتمل ہے‘وہاں پر نواں کوٹ اور چاہ بارہ کی طرح مناسب آبادی پر مشتمل قصبے آباد ہیں‘ مگر ان علاقوں میں کھیتی باڑی سے منسلک افراد کنوؤں کے اردگرد رہائش پزیر ہیں۔
تھل کے شمال مغربی کنوئیں
شمال مغربی تھل میں بہت سے کنوئیں کچے بنائے گئے ہیں لیکن وہ لکڑ ی جس کے ذریعے انہیں تعمیر کیا جاتا ہے‘رو زبروز خراب ہوتی جا رہی ہے‘جس کے باعث اب پکے کنوئیں کھودنے کا رواج نکل پڑا ہے اور اب پورے علاقے میں پکے کنوئیں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔پکا کنواں بنوانا یہاں کے ذمینداروں میں تفخرو عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔یہاں کے کنوؤں کے مالکان ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے انتہا کی حد تک حسد بھی کرتے ہیں۔اگر کوئی زمیندار پکا کنواں کھدواتا ہے تو اس کے پڑوسی ذمیندار کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی کچھ فاصلے پر ا س کے مقابلے میں اس سے کہیں اچھا اور گہرا پکا کنواں کھدوا کر یہ ثابت کرے کہ وہ اپنے ہمسائے سے زیادہ کھاتا پیتا‘امیر کبیر اور اچھا انسان ہے۔اسی طریقے سے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اب بہت سے دیہاتوں میں پکے کنوئیں تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ تھل کے کنوؤں کے پانی سے زیادہ تر گندم اگائی جاتی ہے۔
تھل کا جنوب مشرقی حصہ جس میں لیّہ تحصیل واقع ہے‘وہاں کے اکثر کنوؤں کا پانی نہایت کھارا ہے۔یہاں کے لوگ موسم گرما میں اجتماعی طور پر اپنے کنوؤں کو چھوڑ کر دریائے چناب کے قریبی علاقوں کا رخ کر جاتے ہیں۔درحقیقت تھل کی آب و ہوا خصوصاً جون جولائی کے مہینوں میں تپش اورگرد اُڑاتے گرم صحرائی بگولوں کی وجہ سے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔اسی لیے اکثر لوگ ان مہینوں میں مال مویشیوں کے ہمراہ چناب کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔تھل چونکہ صحرائی خطہ ہے اسی لیے بارش کا امکان نہایت محدود ہوتا ہے‘اسی وجہ سے یہاں بارانی کھیتی باڑی نہایت قلیل ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: