اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں میاں صاحب۔۔۔ فہمیدہ یوسفی

ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ وطن واپس لوٹ آئے جہاں انھیں ائیرپورٹ سے ہی حراست میں لے

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اد نہ رہی وہ تاریخ جس نے  عام سے خاص بنایا ہو ،جس نے بیٹھے بیٹھے تخت نشیں بنایا ہو ،کیسے بھول گئے آپ وہ تاریخ اوروہ زمانہ جب ایک نوجوان

کواقتدار میں جگہ ملی تھی،کسی ضیا الحق نے آپ کو بھی حکومت چلانے کا موقع دیا تھا کیا ہی وہ دن تھا جب ستر کی دہائی میں سیاست میں شمولیت اختیار

کرنے کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور میں انھیں پہلی بار حکومت میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں وہ بطور وزیر خزانہ تعینات ہوئے اور دیکھتے

دیکھتے ہی حکومت میں اپنے قدم جما لیے اور 1988 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ابھرنے والی پارٹی کے ساتھ انھیں وفاق میں

حکومت نہ مل سکی لیکن ایک بار پھر وہ وزیر اعلی بن گئے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے گرنے کے بعد 1990 کے انتخابات میں انھوں نے (آئی جے

آئی) کی قیادت سنبھالی اور کامیاب انتخابی مہم چلانے کے بعد پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سجا میوزیکل چیئرز کا یہ کھیل بینظیر بھٹو کی

دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد بھی جاری رہا جس کی وجہ ان کا صدر اور چیف جسٹس کے مدمقابل آجانا تھا۔

October 15, 1990.

نواز شریف فوج کی حمایت واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے،مارچ 1997 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف نے تین چوتھائی کی واضح

اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور دوسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔لیکن وہ کہتے ہیں نہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اس بار بھی نواز شریف اپنی

حکومت کی مدت پوری نہ کر سکے دسمبر 1997 میں وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ پاکستان صرف اس صورت میں جوہری تجربات پر پابندی کے

معاہدے (سی ٹی بی ٹی) پر دستخط کرے گا جب بھارت بھی اس پر دستخط کرتا ہے۔.

February 3, 1997

بعد ازاں 28 مئی 1998 میں پاکستان نے پہلا کامیاب جوہری تجربہ جبکہ 30 مئی کو دوسرا تجربہ کیا گیا۔1999 میں نواز شریف کے فوج کے ساتھ تعلقات

پھر خراب ہوگئے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں طے شدہ حملوں سے آگاہ نہیں کیا گیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اکیلے فیصلے

کیے. 2ماہ بعد کارگل کے معاملے پر نواز شریف کی حکمت عملی پر آرمی، نیوی اور ایئرفورس تینوں کے ساتھ ان کے تعلقات شدید متاثر ہوئے۔

Prime Minister Nawaz Sharif is greeted by army chief General Pervez Musharraf on arrival at the snow-clad town of Kail on the border in the disputed Himalayan region of Kashmir in this February 5, 1999 file photo. — Reuters

صورتحال اس وقت مزید ابتر ہوگئی جب اکتوبر 1999 میں وزیراعظم نواز شریف نے چیئرمین آف دا جوائنٹ چیفس اور چیف آف آرمی اسٹاف کو عہدے سے

ہٹانے کی کوشش کی۔ بغاوت کے ڈر سے وزیراعظم نواز شریف کے احکامات پر ایئرپورٹ بند کرکے جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر

لینڈ کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تاہم جنرل پرویز مشرف کے نواب شاہ ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد انہوں نے اعلیٰ جرنیلز کو ملک سنبھالنے کا

حکم دیتے ہوئے نواز شریف کو برطرف کردیا۔

اور 1999 اکتوبر میں اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کی سربراہی سنھال لی،پرویز مشرف نے حکومت

سنبھالنے کے بعد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف پر بغاوت کے بعد ‘اغواء، اقدامِ قتل، ہائی جیکنگ، دہشت گردی اور کرپشن’ کے الزمات میں نواز

شریف کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوا جہاں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

مختلف نوعیت کے مقدمات کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کو جیل جانا بڑا،لیکن اپکے خاندان نے ہار نہ مانی اور جب کچھ نہ بن سکا تو آرمی کے خلاف ہی

چل پڑے اور اس دور میں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے فوجی آمر کے خلاف مخالفت کی مہم چلائی۔ پرویز مشرف کے

ساتھ ڈیل ہونے کے سبب نواز شریف نے سزا معطل ہونے کے بعد سعودی عرب میں جلا وطنی اختیار کر لی،حکومت اور کرسی کا ایسا نشہ چڑھا کہ جن کی

حکومت گرنے کی وجہ سے آگے آئے تھے آخر کار انھی سے ہاتھ ملانا پڑا 2006 میں اپنی روایتی حریف بینظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں ملاقات کے دوران

دونوں سابق وزیراعظم نے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کیے اور ملک میں جمہوری دور کی واپسی اور پرویز مشرف سے چھٹکارا حاصل کرنا کا

عہد کیا۔

سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ستمبر 2007 میں نواز شریف نے وطن واپسی کی کوشش کی ایک بار پھر وطن واپس آکر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی

لیکن مشرف انتظامیہ نے انھیں جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں دی اور ائیر پورٹ سے ہی ان کے جہاز کو واپس سعودی عرب لوٹا دیا۔

لیکن جب تقدیر مہربان ہوجائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ صرف دو مہینے بعد انھوں نے ایک بار پھر وطن کا رخ کیا اور لاہور کے علامہ

اقبال ائیر پورٹ پر ان کا فقدید المثال استقبال کیا گیا لیکین ایک بڑی قیامت بھی ٹوٹی جب دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کش

حملے میں ہلاک کر دیا گیا تو نواز شریف ہسپتال پہنچنے والے اولین قومی لیڈران میں ایک تھے پھر فروری 2008 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف

کی پاکستان مسلم لیگ دوسری اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اس کے بعد مصلحت کے تحت ہی سہی لیکن انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط

حکومت قائم کرنے کے معاہدہ کیا لیکن یہ شراکت داری زیادہ عرصے قائم نہیں رہی اور اختلافات بڑھنے کے بعد نواز لیگ نے حکومت سے علیحدگی اختیار

کر لی اور ان کی نوعیت اتنی شدید ہو گئی کے نواز شریف نے شرافت کے سارے پردے گرا کر کھل کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور 2011 میں نواز شریف

نے پی پی پی حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل میں سپریم کورٹ میں پٹیشن درج کرائی جس میں نواز شریف بذات خود پیش ہوئے۔

قسمت ایک بار پھر آپ پر مہربان ہوئی اور دو سال بعد مئی 2013 میں ہونے والے قومی انتخابات میں نواز شریف کی جماعت نے ایک بار پھر کامیابی حاصل

کی جس کے بعد انھوں نے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالی لیکین کہتے ہیں نہ کہ ہر عروج کو زوال بھی ہے اور قسمت کا پہیہ کب گھوم جائے کون جانتا ہے

آسمانوں کو چھوتی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے سامنے اس بار ان کے نئے سیاسی حریف اور سابق کرکٹر عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک

انصاف موجود تھے جنھوں نے نواز لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور حکومت ختم کرانے کے لیے اگست 2014 سے دسمبر 2014 تک

اسلام آباد میں مسلسل دھرنے دیے۔

Tahirul Qadri and Imran Khan address supporters in Islamabad at rally against Nawaz Sharif. — Reuters

شریف حکومت نے کراچی میں پاکستان رینجرز کے تحت آپریشن شروع کیا جس کا مقصد سب سے بڑے شہر سے جرائم اور دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔

اور اب وہ دن بھی آگئے تھے جب نواز شریف نے اپنی حکومت بچانے کے لیے دشمن ملک کے کندھوں پر سر رکھ کر اپنا دکھڑا سنانا شروع کردیا تھا یہ وہ

وقت تھا جب نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں وزارت خارجہ کی ذمہ داری اپنے ذمے لی ہوئی تھیں اور اس دور میں انھوں نے نو منتخب انڈین

وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ 2014 میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت کی اور

دسمبر 2015 میں نریندر مودی نے لاہور کا بلا اعلان ایک دن کا دورہ بھی کیا ۔

نواز شریف نے وہ مثال بھی سچ ثابت کردی کے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے ہی چراغ سے ،نواز شریف نے ایک اور پاسا پھینکا حکومت کو چار چاند

لگانے کی خاطر اور وہ تھا نواز شریف کے دور حکومت کا سب سے اہم منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا تھا جسے ماہرین نے خطے کے لیے ’گیم

چینجر‘ کا خطاب دیا۔ لیکن سال 2016 میں نواز شریف زوال کا آغاز ہوا جب مارچ کے مہینے میں پاناما پیپرز کے نام سے کاغذات منظر عام پر آئے اور ان

میں شریف خاندان کے افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا۔

اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان نے حکومت مخالف مظاہروں کا ایک بار پھر سلسلہ شروع کیا اور نواز شریف

کے استعفی کا مطالبہ کیا۔

Nawaz Sharif leaves the JIT’s offices in the Federal Judicial Academy after his appearance before the investigators. — File

اسی سال اکتوبر میں نواز حکومت اور فوج کے مابین اختلافات ابھر کر سامنے آئے جب ’ڈان لیکس‘ کی خبر منظر عام پر آئی۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد

حکومت کے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً پرویز رشید کو اپنی وزارت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

جنوری 2017 سے شروع ہونے والی سماعتوں کی تکمیل اپریل 2017 کو ہوئی جب پانچ رکنی بینچ نے تین دو سے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا لیکن

ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں کے بارے میں مزید تفتیش کا حکم دیا۔

تفتیش،عدالتی چکر اور ہزاروں پیشیاں ان دنوں ملک کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا ہر طرف بس گو نواز گو کے نعرے تھے اور پھر وہ دن

بھی ااگیا جب نہ قسمت نے ساتھ دیا نہ شہرت دولت نے نواز شریف پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کی بنا انھیں دس سال قید بامشقت اور آٹھ ملین

پاؤنڈ کے جرمانے کی سزا سنائی گئی نواز شریف نے یہ سزا اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ اسی اپارٹمنٹ میں سنی جس کی ملکیت کے بارے میں انھیں سزا

سنائی گئی۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ وطن واپس لوٹ آئے جہاں انھیں ائیرپورٹ سے ہی حراست میں لے

لیا گیا اور اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

حراست میں لیے جانے کے بعد نواز شریف کو اپنی ہی آنکھوں سے اپنی حکومت کو ڈوبتے ہوئے بھی دیکھنا پڑا نواز شریف کی پارٹی نے شکست کھائی اور

ان کے خلاف پاناما پیپرز کا مقدمہ دائر کرنے والے حریف عمران خان کو جیت نصیب ہوئی اور انھوں نے اگست میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

ملک ایک بار پھر نئے جذبوں سے سرشار ہوا ،نیا پاکستان دیکھنے کی امید جاگ اٹھی اور نواز شریف کا برا وقت اور برا ہی ہوتا چلا گیا آج نواز شریف پر

لگے الزام ثابت ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی بیماری اور علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ عیاں یہ واقع بیماری ہے یا

بیماری بس سہارا ہے جبک یہ کرسی اور سیاست بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے ستم گری کی انتہا تو دیکھیں کہ نواز شریف نے ایک بار پھر پس پردہ رہ کر انھی

سے ہاتھ ملا لیا ہے جن پر وہ ہمیشہ انگلیاں اٹھاتے تھے ۔۔

%d bloggers like this: