اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست بہاولپور کے نویں نواب:محمد بہاول خان چہارم۔۔۔سلطان کُلاچی

نواب کی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصہ بعد صاحبزادہ گل محمد نے نذر محمد خان، پنوں خان اور یوسف خان کو بغاوت پر اکسایا تا کہ وہ خود تخت نشین ہو سکے

تحریر و تحقیق: سلطان کُلاچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

محمد بہاول خان چہارم
ریاست بہاولپور کے نویں نواب

نواب محمد بہاول خان چہارم (وفات 1866ء) ریاست بہاولپور کے نویں نواب ہیں۔ آپ کا عرصہ حکومت داؤد پوتروں کی سازشوں کو کچلنے میں گزر گیا اس لیے ریاست میں مزید وسعت نہیں ہو سکی۔ آپ نے 8 سال ریاست پر حکمرانی کی۔

برسر عہدہ
3 اکتوبر 1858 – 25 مارچ 1866
سلسلہ نسب .

محمد بہاول خان چہارم بن فتح محمد خان بن محمد بہاول خان سوم بن صادق محمد خان دوم بن محمد بہاول خان دوم بن نواب فتح خان اول بن نواب صادق محمد خان اول بن نواب مبارک خان اول بن بہادر خان دوم بن فیروز یا پیروج خان بن امیر محمد خان دوم بن بھکھر خان دوم بن بہادر خان بن بھکھر خان بن ہیبت خان بن امیر صالح خان بن امیر چندر خان بن داؤد خان دوم بن بن محمد خان بن محمود خان بن داؤد خان بن امیر چنی خان بن بہاءاللہ عرف بھلا خان
دستار بندی .
صاحبزادہ رحیم یار خان کی دستار بندی مورخہ 22 صفر 1275ھ بمطابق 3 اکتوبر 1858ء میں ہوئی۔ صاحبزادہ رحیم یار خان نے باپ کی جگہ نواب محمد بہاول خان چہارم کے طور پرتخت نشین ہوئے۔

کابینہ.
نواب محمد بہاول خان چہارم نے ریاست کی درج ذیل کابینہ تشکیل دی۔

وزیر : جمعدار احمد خان
میر منشی : عبد الکریم خان
فوج کا بخشی : مولوی مظفر الدین
توشہ خانہ کا سربراہ : جان محمد
مصاحب : سید شیر شاہ اور بندل شاہ
دربار مصاحب : علی گوہر خان، محمد رضا خان، مخدوم راجن بخش، گوالا شاہ، مخدوم حیدر بخش اور گل محمد خان بزدار
باغیوں کی جلا وطنی.
نواب کی تخت نشینی کے مہینے میں سردار خان، اسد خان اور عقیل خان (جسے ریاست سے جلا وطن کیا گیا تھا اور وہ برطانوی علاقے میں پناہ لیے ہوئے تھا) نے بیکانیر میں پگل کے مقام پر بہاولپور میں گڑ بڑ پھیلانے کا منصوبہ شروع کیا لیکن برطانوی حکومت کے اصرار پر انہیں بیکانیر ریاست سے نکال دیا گیا تھا۔

داؤد پوتروں کی سازشیں .
نواب کی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصہ بعد صاحبزادہ گل محمد نے نذر محمد خان، پنوں خان اور یوسف خان کو بغاوت پر اکسایا تا کہ وہ خود تخت نشین ہو سکے لیکن سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا اور گل محمد کو نظر بند کر دیا گیا۔ وزیر کے ایک رشتے دار ارجمند خان کو بھی اس سازش میں ملوث پایا گیا اور یوں وزیر پر شک پیدا ہوا جسے 25 مئی کو برخواست کر دیا گیا۔ تاہم احمد پور ایسٹ (شرقیہ) میں اس کے رشتے داروں نے ہتھیار اٹھا لیے اور نتیجتاً ہونے والی لڑائی میں سابقہ وزیر اور اس کے 18 حامی مارے گئے۔ اس لڑائی میں ریاستی فوج کے کم از کم 67 آدمی ہلاک اور 171 زخمی ہوئے۔ وزیر کے متعدد رشتے داروں کو بھی جیل میں ڈالا گیا لیکن برطانوی حکومت کے کہنے پر دسمبر 1861ء میں نواب سرفراز خان سدوزئی کی درخواست پر انہیں رہا کر کے ریاست سے جلا وطن کر دیا گیا۔ صاحبزادہ سعادت یار خان صادق محمد خان سوم نے لاہور قلعے میں 1861ء میں وفات پائی۔ اس کی موت کے نتیجے میں داود پوترا سازشیں جزواً رک گئیں لیکن 1863ء میں پنوں خان پیر جانی، نذر محمد خان اسبانی، یوسف خان ہالانی، مندھوخان، بہرام خان چانڈیا اورعلی گوہر خان ماچھی نے نواب کو معزول کر کے اس کے ایک چچا گل محمد یا عبد اللہ خان کو تخت پر بٹھانے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ریاستی فوج نے انہیں ابراہ کے مقام پر شکست دی اور پنوں خان، نذر محمد اور دیگر بچ کر دریا کے راستے فرار ہو گئے۔ ان کی جاگیریں ضبط کر لی گئیں۔ صاحبزادہ گل محمد، صاحبزادہ مبارک خان اور صاحبزادہ عبد اللہ خان کو موت کی سزا دی گئی۔ تاہم، پناہ گزینوں نے اپنی کوشش ترک نہ کی اور کچھ بے وفا افسروں کے ساتھ مل کر الہ آباد پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا مگر ابھی انہوں نے دریا پار ہی کیا تھا کہ ریاستی فوج سے سامنا کرنا پڑ گیا۔ لڑائی میں علی گوہر خان مارا گیا اور نذر محمد خان کو قیدی بنا لیا گیا۔ تب باغی فوج نے پسپائی اختیار کی۔ اپریل 1864ء میں پنوں خان دشتی اور شار قبیلوں کے دیگر باغیوں کے ساتھ مل کر 600 آدمیوں کے ہمراہ اوباؤرا سے کوٹ سبزل پر حملہ آور ہوئے۔ اگرچہ اس ماہ کی 10 تاریخ کو قلعے کی فوج نے انہیں پیچھے ہٹادیا لیکن وہ اگلے روز پھر سے حملہ آور ہوئے۔ احمد پور سے کمک آنے پر انہیں بھگا دیا گیا۔ ریاستی فوج کے 5 ہلاک اور 6 زخمی ہوئے۔ تب نواب نے پنوں خان کی سرزنش کے لیے ایک ہزار روپے انعام مقرر کیا اور سندھ کے کمشنر نے میرعلی مرید خان کے علاقے سے اسے گرفتار کر کے جولائی 1864ء میں ریاست کے حوالے کر دیا۔ اسے لال بخش کے ہمراہ لاہور بھیجا اور حراست میں رکھا گیا۔ دونوں کو ماہانہ پچیس پچیس روپے الاونس دیا جاتا تھا۔ لال بخش جلد ہی مر گیا لیکن پنوں خان کو 1866ء میں واپس ریاست آنے کی اجازت مل گی۔ نومبر 1864ء میں نذر محمد، عقیل محمد اورعلی خان روبجھا نے اظہار اطاعت کرتے ہوئے اپنی جاگیروں کی بحالی کی درخواست کی لیکن نواب کے حکم ( وہ پہلے اکیلے اکیلے اپنے گھروں کو واپس جائیں) سے مطمئن نہ ہونے پر انہوں نے دو طاقت ور جتھے تشکیل دیے۔ انہوں نے الہ آباد اور خان بیلہ پر رات کے وقت ہلہ بولا کر جیلوں سے قیدیوں کو رہا کروا دیا۔ ان رہا قیدیوں کو بھی اپنے دستے میں شامل کیا اور کراڑوں (ہندوؤں) کو بلیک میل کر کے رقم اکٹھی کی۔ ریاستی فوج نے 10 دسمبر کو ان سے ٹکر لی۔ علی خان رو نجھا مارا گیا۔ لڑائی میں نذرمحمد اور احمد خان کو قیدی بنا کر احمد پور ایسٹ کی ہر دکان پر بھیک منگوائی گئی اور پھر وہیں پر قلع میں قید کر دیا گیا۔ عقیل خان فرار ہو کر ضلع مظفر گڑھ گیا جہاں کمشنر ملتان مسٹر فورڈ کے حکم پر اسے قید کیا اور سکیورٹی میں رکھا گیا لیکن کمشنر نے نواب سے اس کے لیے 20 روپے ماہانہ الا ونس حاصل کر لیا جواسے موت تک ملتارہا۔ اگست 1865ء میں بہرام خان اور مندھوخان نے متعدد داؤد پوتروں، کھوسوں اور مزاریوں کے ساتھ مل کرالہ آباد میں خاصی گڑ بڑ پیدا کی۔

 

آس پاس کے دیہات کو لوٹا اور احمد پرایسٹ (شرقیہ) پر حملے کی تیاری کی۔ باغی 8 اگست کو چودھری پہنچے۔ نواب محمد بہاول خان چہارم نے سید چراغ شاه کو فوج کا قائد بنا کر ہدایت کی کہ انہیں پرسکون کرے اور گڑ بڑ پھیلانے سے روکے۔ سید چراغ شاہ نے انہیں امن کی طرف لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ چنانچہ سید چراغ کے لیے کمک بھیجی گئی اور ریاستی افواج ابراہ کے مقام پر باغیوں سے ٹکرائیں۔ آٹھ گھنٹے طویل لڑائی کے بعد سید چراغ اپنی دو توپوں سمیت پکڑا گیا اور باغیوں کو فتح حاصل ہوئی۔ جب نواب نے یہ خبر سنی تو غلام محمد چاکی اورعلی گوہر خان کو 6 توپیں، 400 سوار اور پیدل آدمی دے کر باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ اس لشکر نے 18 اگست کو گوٹھ چینی کے مقام پر باغیوں سے ٹکر لی اور دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اسے مار بھگایا۔

تب ریاستی فوج نے 14 اگست کی صبح کو گوٹھ چینی سے کوچ کیا لیکن نالے میں گھات لگا کر بیٹھے ہوئے دشمن نے ان پر فائر کھول دیا۔ لڑائی دوپہر تک جاری رہی لیکن انجام کار باغی منتشر ہو گئے۔ چودہ سرکردہ سازشیوں کو قتل کر دیا گیا اور چھ کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر نواب کے پاس بھیجا گیا۔ باغیوں کے دو جھتے ایک بہرام خان چانڈیا اور دوسرا مندھوخان اور عالم خان گوریج کی زیر قیادت 15 اگست کی شام کو پھر سے ریاستی فوج کے مد مقابل آئے۔ باغیوں نے سید چراغ شاہ سے چھینی ہوئی دو توپوں کو استعال کیا مگر انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ بہرام خان اور دیگر نے رات کے اندھیرے میں تروکڑی نشیب میں پناہ لی اور اگرچہ سپاہی ساری رات پہرہ دیتے رہے لیکن باغی بھاگ کر الہ آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔ توپیں میدان جنگ میں پڑی ہوئی ملیں تو ریاستی فوج نے انہیں قبضے میں لے لیا۔ ان واقعات کے دوران نواب نے الہ آباد کے کاردار مہتہ پُھلومل کو قید کر لیا جس کی بدانتظامی کے باعث بغاوت کی چنگاری بھڑکی تھی۔ 18 اگست کو غلام محمد چاکی کونواب کی جانب سے احکامات ملے کہ لوگوں کو پرامن کرنے کی خاطر الہ آباد جائے اور باغیوں کی جائداد ضبط کرلے۔ 19 اگست کو باغیوں نے (جن کی تعداد تقریبا600 تھی) الہ آباد علاقہ میں بزاران فیری کے ذریعے چناب پار کیا اور برطانوی عمل داری میں گئے۔ ان لوگوں کو برطانوی حکومت کے اہل کاروں نے غیر مسلح کر دیا اس کے اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ انہوں نے سید چراغ شاہ کو بدستور اپنی قید میں رکھا۔ برطانوی حکومت نے ان باغیوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جنہوں نے اس کے علاقے میں پناہ لی ہوئی تھی۔ چند ایک باغی بھلے خان، کبیر خان اور دیگر بدستور چولستان میں ہی رہے۔ 28 اگست کو غلام محمد نے چولستان میں چھپے باغیوں کو پکڑ کر نواب کی عدالت میں بھیج دیا۔ غلام محمد چاکی جب فوج کے ہمراہ واپس آیا تو نواب نے اسے ایک گراں بہا خلعت عطا کی اور افسروں و سپاہیوں کو سب عہدہ تحائف دیے۔ غلام محمد چاکی کی خدمات کے اعتراف میں اسے 27 ستمبر کو وزیر تعینات کیا گیا۔

وصال .
سوموار 7 ذیقعد 1282ھ بمطابق 25 مارچ 1866ء کی رات کو نواب بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور رات گئے تک اپنے دادا کے ساتھ سیاسی معاملات پر گفتگو کرتا رہا۔ تب اسے وزیر سے خبر موصول ہوئی کہ کچھ درباری باغیوں کے ساتھ ملنے کا سوچ رہے تھے۔ اس خبر کے بعد نواب نے چند الفاظ بولے اور کہا کہ صبح ان آدمیوں کے حوالے سے انتظامات کیے جائیں گے۔ اپنے محل میں جانے کے کچھ ہی دیر بعد اس نے کھانا منگوایا۔ خادمہ سلطانی کھانا لائی جسے کھاتے ہی نواب کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ جلد ہی مر گیا۔ صبح سویرے ریاستی حکام نے سید مراد شاہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے صاحبزاده صادق محمد خان کی تخت پوشی کے لیے انتظامات کیے جو اس وقت صرف ساڑھے چار سال کا تھا۔ نواب کی تدفین قلعہ دراوڑ کے شاہی قبرستاں میں کی گئی.

یہ بھی پڑھیے:ریاست بہاولپور کےساتویں نواب:صادق محمد خان سوئم۔۔۔سلطان کُلاچی

ریاست بہاولپور کےچھٹے نواب:محمد بہاول خان سوئم۔۔۔سلطان کُلاچی

ریاست بہاولپور کےپانچویں نواب:صادق محمد خان دوم۔۔۔سلطان کُلاچی

ریاست بہاولپور کے چوتھے نواب:محمد بہاول خان دوم ۔۔۔سلطان کُلاچی

ریاست بہاولپور کے تیسرے نواب:مبارک خان دوم ۔۔۔سلطان کُلاچی

ریاست بہاولپور کے دوسرے نواب:محمد بہاول خان اول۔۔۔سلطان کُلاچی

 ریاست بہاولپور کے پہلے نواب:صادق محمد خان اول۔۔۔سلطان کُلاچی

%d bloggers like this: