اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Untouchability towards knowledge & productivity in Saraiki Wasaib(1)۔۔۔Muzdam Khan

اگر کسی پیشہ ور کو پسند کریں گے تو اس پیشہ ور کا بنیادی طور پر تعلق کسی اور تہذیب یا قوم سے ہو گا یعنی اس قوم میں اس قوم کا پڑھا لکھا یا پیشہ ور ہونا ناقابلِ معافی جرم ہے

مژدم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برہمن سماج اور شاستر کے تناظر میں یہ مانا جاتا رہا ہے کہ انسان غیر ارادی طور پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی پیدائش کو earn کرتا ہے، اپنے اعمال کے ذریعے یعنی جو پیدا ہوا ہے وہ جس ذات میں پیدا ہوا ہے وہی اس نے پچھلے جنم میں کمایا تھا اسی کرم کی بناء پر وہ شودر ہے یا شتری ہے یا وحش ہے ،
برہمن سماج میں ہمیشہ سے تعلیم کا حق صرف برہمنوں کو تھا اور برہمن ہی طے کرتے تھے کہ کیا لکھنا ہے کیا نہیں لکھنا یا جو بھی ہم تک پہنچا اُس کا 80 فیصد برہمنوں نے ہی لکھا وہ شاستر ہوں یا شاستروں میں جو کچھ بھی ہو،
برہمنوں کے نزدیک شاستر یا انہیں یا کوئی بھی ایسی چیز جو شاستروں کے مطابق ہے اسے اچھوت نہیں چھو سکتے نہ اُسے پڑھ سکتے ہیں
اچھوت وہی ہیں جنہیں ہم شودر کہتے ہیں جو پاؤں سے پیدا ہوئے
یہ پاؤں سے پیدا ہونے والے یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ انہیں پاؤں سے چل کر کسی مندر میں کسی دیوی کے چرن کو جا چھوئیں ،
(اچھوت پر آگے بات کروں گا)
صدیوں کے اس گھیر میں پھنسی قوموں میں سے زیادہ تر قومیں آج بھی جنوبی پنجاب یا جسے سرائیکی وسیب کہا جاتا ہے اس میں آباد ہیں اپر پنجاب میں بھی بہت زیادہ تعداد کی جو قومیں ہیں وہ تاریخی طور پر شودر قومیں ہیں،
یہ وہ قومیں ہیں جنہیں کبھی پڑھنے کا حق نہیں دیا گیا دوسرے حقوق الگ ہیں
یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب میں بڑے سے بڑا دانشور یا ادیب کتاب مخالفت میں پیش پیش نظر آتا ہے وہ تمام تر علوم کو اپنے لئے مضرِ صحت سمجھتا ہے اور اسکے خلاف مزاحمت کرتا نظر آتا ہے سوائے اُس نالج کے جسکی اُسکے پاس تفہیم نہیں ہے، کتاب مخالفت بھگتی کی تحریک میں بھی نظر آتی ہے زیادہ تر کوی، شاعر آپ کو کتاب نہ پڑھنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں، یہاں کتاب سے مراد ہر طرح کی کتاب ہے، کتاب نہ پڑھنے کی آخر کیا وجوع ہو سکتی ہے؟
ایک لکھاری جس کا کام ہی لکھنا ہو وہ کتاب کی مخالفت کیوں کر سکتا ہے ؟
سرائیکی زبان میں چند ایسے الفاظ جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ کوئی موجودہ مسئلہ نہیں ہے نہ یہ محض استعماری مسئلہ ہے بلکہ یہ سلسلہ بہت زیادہ قدیم ہے اور اسکے آثار زیادہ قدیمی ہیں اس سے بھی زیادہ قدیمی جتنا ہم جان سکے
مثلاََ سرائیکی میں لفظ گالہا، اس کا لغوی مطلب یہ ہے کہ بات کرنے والا یعنی متکلم
متکلم کون ہوتا ہے ؟ جس کے پاس علم و معلومات ہو، گالہے کے لغوی مطلب تو وہی ہیں جو ایک متکلم کو ڈفائن کر سکتے ہیں مگر اسکے حقیقی و موجودہ معنی پاگل کے ہیں، یعنی جب کسی کو پاگل کہنا ہوتا ہے تو اُسے گالہا کہا جاتا ہے
یعنی ایسا کوئی بھی آدمی جو کوئی بات کرتا ہو بولتا ہو اُسے یکسر گالہا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو ہے ہی پاگل، اسی طرح دوسرا لفظ ہے بدھو یہ ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ کئی لوگوں کا نام بدھو ہوا کرتا تھا اب بھی سندھی زبان میں اِس کا یہی مطلب ہے کہ بُدھ یعنی سمجھ بدھو یعنی سمجھو یا سمجھنے والا یعنی وہ آدمی جسے ہم سمجھدار یا انٹلیچکول کہتے ہیں لیکن اِس کے موجودہ معنی بے وقوف و جاہل کے ہیں یا نامعقول کے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ کہ ایک قوم کے تمام افراد اس پر متفق ہوں کہ سمجھنا بھی جہالت ہے سمجھانا بھی جہالت ہے
اگر یہ ہوا بھی ہے تو اسے سلسلاتی ہونا چاہیے ناکہ کسی واحد فتوحات سے اسے جوڑنا چاہیے فاتح نظام دیتا ہے لنگویسٹک معنویت اس نظام سے پیدا ہو سکتی ہے مگر ایسا نظام تاریخی طور پر محض برہمن شاہی میں ہی ہمیں نظر آتا ہے جس میں نچلی ذات والوں کو تعلیم کا کوئی حق نہیں تھا یہاں تک کہ انہیں تعلیم سننے کا بھی حق نہیں تھا، اسی طرح لفظ چِھتا یعنی وہ جو تیز ہو چالاک ہو سمجھدار ہو جیسے تیزی کی تمام علامتیں گیڈر میں پائی جاتی ہیں اسی لئے اُسے ایک بزدل ڈرپوک اور فضول سا جانور تصور کیا جاتا ہے جسے ہمیشہ بری مثالوں میں برتا جاتا ہے
پاگل کتے کے لئے بھی اسی لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے، اور انسان کے لئے بھی بہ صورت اگر وہ انتہائی چالاک تیز تراڑ ہو
یہ محض اتفاقی سلسلہ نہیں ہو سکتا
کیونکہ تاریخی طور پر شودروں کو یہ حق حاصل تھا ہی نہیں کہ وہ علم حاصل کریں اور اسکی تبلیغ کریں اس لئے انکے لاشعور میں یہ بات رفتہ رفتہ سرایت کر گئی، اور موجودہ دور کا شودر بھی اسی پر کاربند ہے وہ آج بھی شاستر مننوع قرار دیتا ہے
یہی رویہ جدید علوم کے ساتھ برتا جاتا ہے، اسی طرح خلاقیت و تخلیقیت کے ساتھ بھی یہی المیہ پے در پے جاری ہے مثلاََ کام کرنے والے کے لئے لفظ کمی یا کملا کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کمی کا لفظ گالی کے طور پر مستعمل ہے
اور کملے کا معنا بے وقوف پاگل یا جاہل یا بھولے کا ہوتا ہے
اسی طرح جب کسی کو گالی دی جاتی ہے تو باقاعدہ کسی پیشہ ور قوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے موچی پولی کٹانا نائی وغیرہ
اب موچی بنیادی طور پر ایک قوم بھی ہے اور پیشہ بھی یعنی وہ جو جوتا سیتے ہو یا بناتے ہوں اور اُسے بیچ کر زندگی بسر کرتے ہوں
اسی طرح پولی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہل جوتنے والے بیل پالتے ہیں
کٹانے چھتیں وغیرہ اور کباڑ وغیرہ کا کام کرتے ہیں
اور نائیوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصب سے تو آپ سب بخوبی واقف ہوں گے جبکہ یہ قوم سے پہلے پیشہ تھا یہ ہمیشہ سے پیشہ ہی رہا ہے اس کے حوالے سے کنچا ایلیہا نے بہت درست طریقے سے اس سب کا احاطہ کیا ہے اپنی کتاب کے باب unknown engineers میں
انکا بھی تقریباََ یہی مؤقف ہے کہ برہمنوں کے شاستروں اور تعلیمات کے باعث
غیر تخلیقیت عروج پر پہنچی،
ایک اور دلچسپ رویہ جو سرائیکی وسیب میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ ہے کہ بہادری کے لئے ہمیشہ ایسی قوموں کا نام لیا جاتا ہے جو پیشہ ور نہیں ہوتیں اور کسی پیشے سے منسوب نہیں ہوتیں سوائے یہ کہ وہ ان پر حاکمیت قائم کر چکے ہوتے ہیں یا حاکمیت قائم ہونے کے دوران انکے مخالف لڑ چکے ہوتے ہیں
جب کوئی اختلافی بات کی جائے تو کہا جائے گا کہ تم نواب کے بیٹے ہو؟
اتنے تم نواب، یا کہا جائے گا بالا چھانڑی ہو ؟
اسی طرح مثبت و منفیت میں پہلوانی کا پیشہ بھی شامل ہے کہ فلاں نے تو اپنے گھر پہلوان پالے ہوئے ہیں یہ طنزیہ بھی ہوتا ہے اور تعریفانہ بھی
یہ سلسلہ اتنا سرایت کر چکا ہے کہ موجودہ دور میں بھی کاروباری اور نوکری پیشہ لوگوں کو حقارت و طنز سے دیکھا جاتا ہے
اسی طرح موجودہ دور میں پڑھے لکھے اور صاحبِ مطالعہ لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، وہ شاعر ہوں صاحبِ کتاب ہوں یا اخبار نویس ہوں یا کسی بھی ایسے پیشے سے منسلک ہوں
انہیں برڈول لباری وغیرہ کہا جاتا ہے
اس کے برعکس ان شعراء کرام ادبا و خطیب و ذاکرین و دانشوران کو پسند کیا جاتا ہے جو ار ریلیونٹ یا تخیل بیسڈ باتیں کریں یا خطبات دیں یا تقاریر کریں
اور انہیں نہ صرف متعبر سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں خطے کا سرمایہ بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کتاب علم اور منطق کے لئے ممانعت کا سلسلہ دراز کرتے ہیں
پسندیدگان میں زیادہ تر لوگ انکی قوم سے نہیں ہوتے مثلاََ عالمِ دین کا تعلق یا تو ایران سے ہو گا یا سعودی عرب سے یا یو پی سے تبھی اسے ایک معتبر عالم مانا جائے گا یا ایسے معلمین جو ہوں تو کسی دوسری قوم کے مگر فارغ التحصیل کسی اجنبی مدرسے کے ہوں
اسی طرح اگر کسی پیشہ ور کو پسند کریں گے تو اس پیشہ ور کا بنیادی طور پر تعلق کسی اور تہذیب یا قوم سے ہو گا یعنی اس قوم میں اس قوم کا پڑھا لکھا یا پیشہ ور ہونا ناقابلِ معافی جرم ہے
سیدوں کا احترام کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں برہمنوں کے لئے انکا احترام نمایاں تھا لیکن یہاں ایک اور مشاہدہ سامنے رکھنا چاہوں گا کہ اگر مقامی سید مر رہا ہو تو اُسے پانی بھی نہیں پوچھتے جبکہ باہر سے آنے والے سید مثلاََ اس کا تعلق کسی اور جگہ سے ہو اسے پسند کرتے ہیں اور اسکا احترام ایسے کرتے ہیں جیسے برہمنوں نے انہیں سکھایا تھا اپنا احترام کرنا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: