مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب، دوسال میں چھٹے آئی جی پولیس کا تقرر۔۔۔ حیدر جاوید سید

صوبے کی پولیس کمان میں ان سے سینئر کم ازکم تین افسروں نے تحریری طور پر ان کے ماتحت کام نہ کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب میں آئی جی پولیس کیخلاف محکمہ جاتی ”بغاوت” کا ڈراپ سین ہوہی گیا۔ دو سال کے دوران پانچویں آئی جی رخصت ہوئے اور چھٹے نے چارج سنبھال لیا۔

نئے آئی جی انعام غنی ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب تھے، کہا جا رہا ہے کہ آئی جی کی تقرری وزیراعظم صوابدید ہے۔ اس تنازعہ یا محکمہ جاتی بغاوت کا آغاز سی سی پی او لاہور کی تقرری سے شروع ہوا، بظاہر یہ تنازعہ وزیراعلیٰ اور آئی جی کے درمیان تھا لیکن معاملہ اس کے سوا ہے۔

دلچسپ ترین بات مری سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی صداقت عباس نے کہی ان کا کہنا تھا

”جو آئی جی ایجنڈے پر عمل نہیں کرے گا وہ رخصت کر دیا جائے گا”

سابق آئی جی شعیب دستگیر کو سیکرٹری نارکوٹکس لگا دیا گیا ہے۔

اس سے قبل منگل کے روز پنجاب پولیس کے54افسروں نے اپنے آئی جی (اب سابق) کیساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ شعیب دستگیر کی اچانک تبدیلی کی وجہ یہی اجلاس بنا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پی ایس پی، پولیس افسروں کے اس اجلاس کو اپنے خلاف بغاوت کہہ رہے تھے۔

وفاقی وزیراطلاعات اور وفاق کے بعض ترجمانوں کے بیانات ملا کر پڑھنے کی بھی ضرورت ہے۔

بہرطور پنجاب میں نئے آئی جی پولیس کو بھی فوری طور پر ایک مسئلہ کا سامنا ہے۔

صوبے کی پولیس کمان میں ان سے سینئر کم ازکم تین افسروں نے تحریری طور پر ان کے ماتحت کام نہ کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا ہے۔

نون لیگ کے سیاسی شوشوں کو ایک طرف رکھئے، اپوزیشن کا کام حکومت کے انجام دئیے امور میں سے کیڑے نکالنا ہی ہے۔

پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ لاہور کیلئے سی سی پی او تعینات ہونے والے عمرشیخ سے یہ اُمید بندھی ہے کہ

”اگر اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد کسی تحریک کا ڈول جاتا ہے تو لاہور کی حد تک اس تحریک کا دفاع درست کرنے کی ذمہ داری نئے سی سی پی او پر ہوگی”

ساعت بھر کیلئے رُک کر یہ جان لیجئے کہ نئے سی سی پی او لاہور کہتے ہیں، انہیں اپوزیشن کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ پولیس فورس کی اصلاح کیلئے تعینات کیا گیا ہے” معاف کیجئے گا بات اتنی سادہ نہیں، چند ماہ قبل جب شعیب دستگیر کو آئی جی پنجاب لگایا گیا تھا تو وزیراعظم نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”شعیب دستگیر کو بڑے ڈاکوؤں اور مافیاز کیخلاف بھرپور کارروائی کیلئے آئی جی تعینات کیا گیا ہے”

چند ماہ بعد یہ شکایت کہ وہ تھانہ کلچر تبدیل نہیں کرپائے (یہ شکایت ایک ماہرامراض حیوانات نے کی ہے) درست نہیں۔

چند دن قبل سوموار کو اچانک رخصت کر دئیے جانے والے آئی جی پولیس نے وزیراعلیٰ کو ان وزراء اور ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی ایک فہرست دی اور بتایا کہ یہ وزراء اور ارکان اسمبلی اپنے اضلاع اور متعلقہ تھانوں میں مرضی کے افسران کی تقرری چاہتے ہیں۔

شعیت دستگیر کا مؤقف تھا کہ ان کی بطور آئی جی پنجاب تعیناتی سے قبل وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے فری ہینڈ دینے اور سفارش کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کرنے پر زور دیا تھا۔

راوی کہتا ہے جواباً وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ”سئیں کبھی کبھار کوئی سفارش مان لینے میں حرج ہی کیا ہے”

خیر ملاقات اور گفتگو کا جھوٹ سچ راوی کی گردن پر ہم آگے بڑھتے ہیں۔

پنجاب پولیس ہو یا بیوروکریسی دونوں میں نون لیگ کی لابی بہت مضبوط ہے۔ اس کا اندازہ ماضی میں متعدد مرتبہ ہوچکا، پیپلزپارٹی کے دور میں جب نوازشریف نے ججز بحالی تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع کیا تھا تو اس وقت پنجاب پولیس کے سربراہ نے وفاقی وزارت داخلہ، گورنر پنجاب کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

اب ایک قصہ گردش کر رہا ہے وہ یہ کہ سی سی پی او لاہور نے تعیناتی کے بعد لاہور پولیس کے افسروں کے ایک اجلاس میں نون لیگ اور شریف خاندان کے حوالے سے گفتگو کی تھی، اس گفتگو بلکہ عزائم کی اطلاع جاتی امراء تک پہنچا دی گئی۔

یہ دعویٰ دو معروف صحافی کر رہے ہیں، ان میں ایک کو پنجاب پولیس کے بڑوں کا غیراعلانیہ ترجمان سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ آج کل چودھری برادران کے کیمپ میں ہیں۔

پنجاب میں دوسال کے اندر پانچویں آئی جی کو رخصت کر کے چھٹا آئی جی لایا گیا۔

یہاں صوابدید حکومت بلکہ وزیراعظم کی ہے۔ ایجنڈہ تحریک انصاف کا۔

سمجھنے والوں کیلئے اس میں کچھ نشانیاں ہیں اور کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مقبوضہ وآزاد علاقوں میں فرق ہوتا ہے جو صاف دکھائی دے رہا ہے۔

ایک بات طے ہے وہ یہ کہ پنجاب میں گڈگورننس کا بحران ہے، ایک ماہرحیوانات کو یہ بات ماننے میں تامل ہے ان کا مؤقف ہے کہ “ماضی میں پولیس کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا”۔

جبکہ فقیر راحموں کہتے ہیں،

اب پولیس کو خاص ایجنڈے پر عمل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ پانچویں بار بھی ناکام ہوا۔

ہم ان دونوں کے مؤقف سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔

البتہ ایک بات طے ہے وہ یہ کہ جو دکھائی یا سنائی دے رہا ہے معاملہ فقط یہی نہیں جو ہے اس کی جانکاری یہ کہنے لکھنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اطاعت کُلی کا خواہش مند ہے۔

خیر چھوڑیں، گزشتہ روز جب نئے آئی جی کیلئے انعام غنی کی تقرری کا اعلان ہوا تو فقیر راحموں بولے شاہ جی!

یار لوگ کہیں انعام غنی کو پی پی پی سندھ حکومت کے وزیر سعید غنی کا بھائی ہی نا سمجھ لیں؟

عرض کیا! پیر بھائی، منہ بولے بھائی، دودھ شریک بھائی تو ہوتے ہیں، اب اگر نام شریک بھائی بھی ہو جائیں تو برا کیا ہے۔

دو اڑھائی عشرے قبل پنجاب کی بیوروکریسی میں صفدر جاوید سید نامی ایک سینئر افسر ہوا کرتے تھے، کچھ ستم ظریف ہمیں ان کا بھائی سمجھتے تھے۔ ایک دن فقیر راحموں نے کہا یارو صرف صفدر جاوید سید ہی شاہ جی کا بھائی نہیں بلکہ وہ این ایل سی کے سربراہ سید جاوید حیدر بھی ان کے بھائی ہیں

ستم ظریفوں میں سے ایک بولے اچھا تو یہ وجہ ہے

”تمہارے ٹھاٹ باٹھ کی”۔

حرف آخر یہ ہے کہ پنجاب پولیس میں قیادت اور ڈسپلن کا بحران ناچ رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟۔

%d bloggers like this: