اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فُراتِ عشق ۔۔۔عاصمہ شیرازی

فرات محبت کی عجب داستان، فرات ادراک کا دبستان، فرات علم کی عکاس، فرات پیاس کے سمندر کی عباس، فرات احساس کے سمندر کا کنارا بھی، فرات عظمتوں کا ستارہ بھی۔

میں فرات کے کنارے بیٹھی ہوں۔ کربلا شہر کے بیچوں بیچ گزرتی یہ نہر کبھی دریا کا منظر پیش کرتی تھی۔ ارض کرب و بلا کی پیاس کو بجھاتا پانی کا یہ واحد ذریعہ عباس ابن علی؏ کی لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ میرے لئے فرات محض دریا نہیں بلکہ علم وادار ک کے پیاسوں کی درسگاہ ہے۔ فرات کیا ہے؟

فرات عشق بھی ہے، وفا بھی

فرات حقیقت بھی استعارہ بھی

فرات وفا کا سر چشمہ بھی، سرمایہ بھی

فرات موج عشق کا دریا بھی

فرات محبت کی عجب داستان، فرات ادراک کا دبستان، فرات علم کی عکاس، فرات پیاس کے سمندر کی عباس، فرات احساس کے سمندر کا کنارا بھی، فرات عظمتوں کا ستارہ بھی۔

فرات فکر کی اوج ثریا، فرات ذکر کی عظیم بارگاہ، فرات زاھراء کی آرزو، فرات زینب کی آبرو، فرات سکینہ کی آس، فرات اصغر کی صغیر پیاس، فرات بندگی کی معراج، فرات فہم کی روشنی کا اولین چراغ۔۔۔

فرات نہ ہوتی تو تشنگی کے معنی نہ ہوتے، فرات نہ ہوتی تو آس اور پیاس کے درمیان کا سفر طے نا ہوتا، فرات نہ ہوتی تو قلم بازو کتاب عشق کا کوئی باب تحریر نہ کرسکتے، فرات نہ ہوتی تو اختیار اور بے اختیاری کے بیچ کی جنگ کا وجود نہ ہوتا، فرات نہ ہوتی تو حق کیا ہوتا، حق کا راستہ نہ ہوتا۔۔۔

فرات بحر عشق کی روانی، فرات کربلا کی بہتی کہانی، فرات علی اکبر کی جوانی، فرات شبیر کی تشنہ دہانی، فرات خشک ہونٹوں کا سراب پانی، فرات وقت کے ساحلوں کا بے سکون کنارا، فرات عباس کے کٹے بازوؤں کی گواہ، فرات پیاسے کی عجب صدا، فرات تنہا کی یک سپاہ، فرات عباس کے بازو بھی، فرات سکینہ کے آنسو بھی۔۔۔

سوچتی ہوں کہ ہاتھ کٹے ہوں گے تو فرات کے کناروں کو قرار کیسے آیا ہو گا؟ بے ہاتھوں کے جری کی لڑائی کیسی ہو گی؟ یہاں بیٹھے سینکڑوں لوگ یہ تو کھوج لگاتے ہوں گے کہ دریا کے کنارے پر تشنہ دہی کے معنی کیا ہیں، پیاسے کے اختیار میں پانی۔۔پھر بھی تشنگی۔۔۔ کون سی آس تھی کہ پیاس ہی پیاس تھی؟

میرے ذہن و دل میں تو ایک ہی صدا ہے کہ ایسا بھی جری تھا کہ جنگ لڑ سکتا تھا مگر جنگ نہیں کی، پیاس بجھا سکتا تھا مگر پانی نہیں پیا، میدان اُلٹ سکتا تھا آستین کی طرح مگر بازو گنوا دئیے۔ فرات اُسی جری کی داستان ہے، اُسی پیاسے کی آس ہے، اُسی جنگجو کی کہانی ہے جو قافلہ حسینی کا علمدار تھا اور جو فرات فکر کا روشن ضمیر ہے۔

%d bloggers like this: