اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسمانی طور پر معذور خواتین ماہواری اور تولیدی صحت کے کن مسائل سے دوچار ہیں؟۔۔آسیہ انصر

ایک سال پہلے مجھے ماہواری سے متعلق کچھ مسئلہ ہوا تو میں ڈاکٹر کے پاس گئی۔‘

’ڈاکٹر نے نہایت روکھے انداز میں مجھے کہا کہ ’آپ اپنا آپریشن (بچہ دانی نکلوا دینا) کیوں نہیں کروا لیتیں؟‘‘

’اس سے جان چھڑاؤ اور اپنی زندگی آسان بناؤ۔‘

آپ کبھی وہیل چیئر پر بیٹھی لڑکی کو دیکھیں تو شاید آپ کو اس کے ظاہری مسائل کا سرسری سا اندازہ ضرور ہو جاتا ہو گا۔ لیکن اگر آپ خود ایک خاتون ہیں تو آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ وہیل چیئر کے ساتھ جسمانی مشقت کرتی لڑکی اپنی ماہواری اور تولیدی صحت کے دنوں میں کس نوعیت کے مسائل کا سامنا کرتی ہوگی۔

پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی زرغونہ ودود محض سات ماہ کی عمر میں ہی پولیو وائرس کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لیے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں تھیں۔

ایک روایتی گھرانے سے تعلق ہونے کی بنا پر زرغونہ کے لیے نسوانیت سے جڑے حساس مسائل پر آواز اٹھانا ہرگز آسان نہ تھا، لیکن اپنی ماہواری سے متعلقہ ایک مسئلے نے اُن کو اپنی جیسی دیگر خواتین کے وہ مسائل اُجاگر کرنے پر اُکسایا جن پر بولنے سے سب ہچکچاتے ہیں۔

’مجھے یوٹرس (بچہ دانی) میں فائبرائیڈز (رسولیاں) بننے سے کچھ مسائل کا سامنا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کا علاج تجویز کرنے کی بجائے یوٹرس نکلوانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے جان چھڑا لو تو بہتر ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر کا یہ جواب سُن کر مجھے دھچکہ لگا۔

’اُس وقت میں نے سوچا کہ اگر میرے ساتھ یہ مسئلہ ہو رہا ہے تو میری جیسی باقی خواتین کے ساتھ بھی تولیدی صحت کے مسائل ہو سکتے ہیں اور جب میں نے اس پر تھوڑی تحقیق کی تو مجھے تعجب ہوا کہ پاکستان میں معذور افراد کی کسی تنظیم نے اس سے قبل نے ان مسائل پر کوئی کام نہیں کیا تھا۔

’سب اس پر بات کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ میں وہ پہلی خاتون تھی جو جسمانی معذوری کا شکار خواتین کی تولیدی صحت کے مسائل سامنے لائی۔‘

زرغونہ ودود

،تصویر کا کیپشنزرغونہ اپنے والد کے ہمراہ

زرغونہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچ کر ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں کہ ڈاکٹر ان سے علاج کے متعلق بات کریں گی مگر ڈاکٹر نے ان کی تکلیف کا تعلق ان کی معذوری سے جوڑ دیا جس کے بعد انھوں نے ٹیبو (مقامی طور پر قابل اعتراض) ’جنسی تولیدی صحت اور حقوق‘ یعنی سیکشوئل ری پروڈکٹیو ہیلتھ اینڈ رائٹس ( ایس آر ایچ آر) کے موضوع پر کام کرنے کی ٹھان لی۔

زرغونہ کے مطابق جب انھوں نے اپنی بہت سی ساتھیوں سے نسوانی صحت کے مسائل پر بات کی تو انھیں پتا چلا کہ ان کی بہت سی ساتھیوں کو ماہواری نظام کی خرابی، پائلز بننے، اور یورینری ٹریک میں تکلیف سمیت تولیدی صحت کے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

’ہماری کمیونٹی میں سب سے زیادہ مسئلہ ماہواری کے دوران ہوتا ہے۔ ایک تو جسمانی معذوری اور اس میں اس مسئلے سے نمٹنا۔ کیونکہ ہم (معذور افراد) زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں تو اس کی وجہ سے ماہواری کے دوران کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عموماً ڈاکٹرز ہمیں دیکھتے ہی ایک رائے قائم کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں آپ وہیل چیئر پر بیٹھی ہیں اس لیے آپ کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔ تو یہ بات تو ہمیں پتا ہے کہ ہماری موومنٹ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیں مگر اس کا حل کیا ہے؟ آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے۔‘

زرغونہ کہتی ہیں کہ اگر وہ (ڈاکٹرز) ہمیں یہ ہی بتا دیں کہ ہم کس قسم کا کُشن استعمال کریں یا کسی خاص قسم کی وہیل چئیر استعمال کریں یا لیٹے لیٹے یا بیٹھ کر اس مسئلہ سے متعلق ورزش کر لیں تو شاید ہماری تولیدی صحت کے کافی مسائل حل ہو جائیں۔

زرغونہ ودود نے اپنی کمیونٹی کی خواتین کو درپیش ایک اور اہم مسئلہ کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ بدقسمتی سے معاشرتی رویے وہیل چیئر پر موجود لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ بات از بر کروا دیتے ہیں کہ شاید وہ ازدواجی زندگی کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور ان کے لیے اولاد کو جنم دینا مشکل ہے۔

زرغونہ ودود

،تصویر کا کیپشن’میں یہ سوچ زرغونہ کر ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں کہ ڈاکٹر میرے علاج کے متعلق بات کریں گی مگر ڈاکٹر نے ان کی تکلیف کا تعلق میری معذوری سے جوڑ دیا‘

وہ کہتی ہیں کہ اسی مشکل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے مشورے دیے جاتے ہیں کہ تولیدی صحت کے نظام کو آپریشن کروا کے نکلوا دیا جائے کیونکہ مشورہ دینے والوں کے مطابق ایسا کرنے سے زندگی آسان ہو جائے گی۔

ایک واقعہ جو انھوں نے بتایا وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ’کچھ عرصے قبل ضلع پشین میں وہیل چیئر دینے کے سلسلے میں ایک غریب خاندان سے ملاقات ہوئی جن کی تین بیٹیاں جسمانی معذوری کا شکار تھیں۔ میں نے بچیوں کی والدہ سے پوچھا کے آپ ان کی ماہواری کے دوران ان کی صحت کا خیال کس طرح کرتی ہیں تو ان کی والدہ نے پہلی بات ہی یہ کی تھی کہ میڈم آپ پلیز ہماری مدد کریں اور ان کا آپریشن کروا دیں تو میری زندگی آسان ہو جائے گی۔‘

زرغونہ کہتی ہیں کہ ’میں ان کے جواب پر اس مخمصے میں تھی کہ اگر میں ان کی والدہ کو یہ قدم اٹھانے سے منع کرتی ہوں تو نامساعد حالات میں ان تین معذور بہنوں کی پوری زندگی دیکھ بھال ہرگز آسان نہیں اور اگر ان کے آپریشن کی حق میں بات کروں تو یہ ان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ وہ محض معذوری کے باعث اپنی نسوانیت کا ایک خاص حصہ خود سے الگ کروا دیں۔‘

زرغونہ نے وہیل چیئر پر انحصار کرنے والی خواتین کی صحت کو درپیش دیگر مسائل پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ گھر سے باہر ہونے کی صورت میں ایک بڑی دشواری باتھ روم تک رسائی نہ ہونا بن جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہیل چیئر کی باتھ روم تک رسائی نہ ہونے کے باعث بعض اوقات اس وقت تک معذور خواتین کو اپنےمثانہ پر دباؤ برداشت کرنا ہوتا ہے جب تک وہ واپس اپنے گھر نہیں پہنچ جاتیں اور اس طرح بہت سی خواتین کو پیشاب یا مثانہ سے متعلق تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

زرغونہ ودود

،تصویر کا کیپشنگریجوئیشن مکمل ہونے پر زرغونہ ڈگری وصول کر رہی ہیں

اس لیے بہت سی معذور خواتین گھر سے باہر رہتے ہوئے پانی نہیں پیتیں چاہے اس کے لیے انھیں سارا سارا دن پیاس برداشت کرنا پڑے۔

زرغونہ کا کہنا تھا کہ وہیل چیئر پر موجود لڑکی کی شادی کا نہ ہونا یا مشکل سے ہونا ہمارے معاشرتی رویوں کا عکاس ہے۔ ’جب ہمارے ہاں ایک عام نارمل لڑکی کا رشتہ دیکھنے کے لیے لوگ جاتے ہیں تو اب بھی پہلے اس لڑکی کا جسمانی جائزہ لیا جاتا ہے کہ لڑکی مکمل فِٹ ہو، گوری چٹی ہو، لمبی ہو، تعلیم یافتہ ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ گھر سنبھال سکے۔‘

’ہمارے ہاں ایک عام تاثر یہ بن گیا ہے کہ جسمانی معذوری کا شکار لڑکی گھر نہیں سنبھال سکتی۔ البتہ مرد میں معذوری ہو تو اس کی شادی ایک عام لڑکی سے بھی آسانی سے ہو جاتی ہے جس کی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں لیکن معذور لڑکی کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔‘

زرغونہ ودود معذور خواتین کے حقوق اور ان کی تولیدی صحت کے مسائل پر بلوچستان بھر کی خواتین کی آواز بن چکی ہیں جس کا اعتراف حکومتی سطح پر بھی بارہا کیا گیا ہے۔ وہ خود کہتی ہیں کہ بلوچستان میں اُن کا ایسے موضوع پر کھل کر بات کرنا گو کہ رائج روایات کے خلاف ہے اور انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے تاہم ان رکاوٹوں کے باوجود وہ اپنی کیمونٹی کے لیے کام کرنے کو وہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتی ہیں۔

’میں جیسی بھی ہوں اس کو تو بدل نہیں سکتی لیکن یہ ضرور کر سکتی ہوں کہ معذور خواتین کی شخصیت کے ساتھ جو ترس کھانے والا سٹگما جوڑ دیا گیا ہے اس کو ختم کر کے انھیں ان کی انفرادی پہچان دلوائی جا سکے۔‘

زرغونہ ودود

،تصویر کا کیپشنزرغونہ کی جانب سے کیے جانے والے کام کا سرکاری سطح پر اعتراف بھی ہوا ہے

معذور خواتین جنسی اور تولیدی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟

زرغونہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہم نے جب طبی ماہرین کی رائے لی تو شفا کالج آف میڈیسن اسلام آباد کے گائنی ڈپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نابیہ طارق کا کہنا تھا کہ جسمانی معذوری کے باعث جسم کا نچلا حصہ متاثر ہونے کے باوجود خواتین کی جنسی اور تولیدی صلاحیت متاثر نہیں ہوتی، البتہ معاشرتی بے حسی ان کو ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ضرور کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر نابیہ کے مطابق تھوڑا سا مثبت رویہ اور معمولات زندگی میں تبدیلی معذور خواتین کو ان مسائل سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

’یہ خواتین بھی اسی طرح بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہیں جیسے باقی خواتین ہیں۔ معذوری کے باعث وہیل چیئر پر انحصار کرنے والی خواتین کی کیونکہ کوئی فزیکل ایکٹیویٹی نہیں ہو پاتی تو اس کے سبب سب سے پہلا جو خطرہ ہوتا ہے وہ ان کے وزن بڑھنے کا ہے۔ اچھی متوازن غذا جس میں پھل سبزیاں شامل ہوں اور پانی کا استعمال بھی زیادہ ہو تو اس سے وزن کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر نابیہ کا مشورہ ہے کہ اس کے ساتھ جسم کے بے جان حصوں کی ورزش اور فزیو تھراپی ان بے جان حصوں کو زیادہ سکڑنے سے بچا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیشاب کا نظام سمجھنے کے لیے یورین سیلف کیتھرائیزیشن کے عمل کو سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی رفع حاجت کے کام آزادانہ اور بغیر کسی پر انحصار کیے خود کر سکیں۔

ڈاکٹر نابیہ طارق نے مزید بتایا کہ ماہواری کے دنوں میں ایسی خواتین کو خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے جس میں سینیٹری پیڈ بار بار تبدیل کرنا، جسم کے زیریں حصے کی مسلسل صفائی اور اس کو خشک رکھنے سمیت حفظان صحت کے تمام اصولوں پر عمل انتہائی ضروری ہے تاکہ ریشز اور انفیکشنز کا خطرہ نہ ہو۔

فیڈرل گورنمنٹ پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد کی شعبہ زچہ اور بچہ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نائلہ اسرار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایک مسئلہ جس کا پولیو کا شکار خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے گھروں میں کموڈ یا انگلش ٹوائلٹ نہیں ہوتا اور ڈبلیو سی یا انڈین ٹوائلٹ کے باعث ان کے لیے اس کا استعمال بہت تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ ہو جاتا ہے۔

’یہ ضروری ہے کہ ان کے لیے باتھ روم میں کموڈ کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ اس کو بغیر کسی دقت کے اور بروقت استعمال کر سکیں۔‘

’وہیل چیئر پر موجود خواتین ماہواری کے دنوں میں معمولی تکالیف میں درد کے لیے عام دوا کا استعمال تو کیا جا سکتا ہے تاہم اگر وہ اس دوران کوئی بے قاعدگی دیکھیں یا ان کو زیادہ پیچیدگی محسوس ہو جو ان کے معمولات سے ہٹ کر ہو تواس صورت میں درد کش دوا کھانے کے بجائے لازمی ڈاکٹر کے پاس آئیں۔‘

ڈاکٹر نائلہ کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے لیے بھی بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے کوئی دوا استعمال نہ کی جائے۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ جسمانی طور پر معذور خواتین جو اپنے روزمرہ معمولات کے دوران گھروں کا کام کاج کرتی ہیں تو یہ بھی ان کی صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس سے ٹانگوں میں خون کا دورانیہ بہتر رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نارمل ورزش بھی ضروری ہے تاکہ وزن کنٹرول میں رہے۔


بشکریہ 02بی بی سی اردو

%d bloggers like this: