اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حیات بلوچ کی ماں کے بے بس آنسو ۔۔۔سمیرا راجپوت

ایف سی اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے حیات بلوچ کی ماں کے آسمان کی جانب اٹھے ہوئے ہاتھوں نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے دل دہلا دیے ہیں،

سمیرا راجپوت


بلوچستان کے علاقے تربت میں مبینہ طور پر ایف سی کے اہلکاروں نے حیات بلوچ نامی ایک نوجوان کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے پر مختلف حلقوں کی جانب احتجاج بھی کیا گیا۔

یہ بلوچ بھی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ ان کے جیتے جاگتے بیٹے خاموش کر کے واپس بھیج دیے جاتے ہیں یا یوں کہیے صاحب کبھی واپس ہی نہیں آتے۔ غریب ماں باپ اپنے ہونہار بیٹے نہ جانے کتنےارمانوں کے ساتھ خون پسینے کی کمائی سے پالتے ہیں، اپنی بوڑھی آنکھوں میں نہ جانے کتنےخواب سجا لیتے ہیں، حالانکہ آج کل کے رواج کے مطابق بلوچوں کو تو بیٹے پیدا کرتے ہی یہ خواب دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ ”لاپتہ‘‘ نہ ہو جائے اور اگر کبھی واپس آئے تو اس کا سینہ کہیں چھلنی اورجسم تار تار نہ ہو۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کبھی اپنے والدین کے ہمراہ فصلوں کا رخ کرے تو اسے ان ہی کے سامنے ماورائے عدالت قتل کر دیا جائے۔ کبھی برمش تو کبھی حیات، یہ بلوچستان والےانصاف مانگ مانگ کر تھکتے نہیں؟ حالانکہ اب تو’فوری اور سستا‘ انصاف بھی ملنے لگا ہے۔ یعنی ‘جو آواز اٹھتی ہے، ہمیشہ کے لیے چپ کروا دی‘ جاتی ہے۔ اگر صورتحال یہ ہو گی تو دیگر بلوچ بہنیں بھی سڑکوں پر یہ کہتی نہ پھریں ”ہم جب باہر نکلتی ہیں تو لوگ ہمیں گھورتے ہیں، ہم ایسے ہی گھروں سے نہیں آتے، ہم اپنے بھائیوں کے حق میں آواز اٹھانے نکلے ہیں‘‘۔ انہیں تو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی قسمت میں یہ سب لکھ دیا گیا ہے اور اس پر صبر کر لینا چاہیے۔

حیات بلوچ کی ماں کے آسمان کی جانب اٹھے ہوئے ہاتھوں نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے دلدہلا دیے ہیں، وہ لوگ جو خون آلود تصاویر شیئر نہیں کرتے، وہ بھی مجبوراﹰ کہہ اٹھے ہیں کہ اے ایوانوں میں بیٹھے وقت کے حکمرانوں! ڈرو اس وقت سے، جب تمہیں اس ماں کی آہ لگے گی۔ سوال تو یہ ہے کیا اس ماں کی آہ صرف حکومت کو لگے گی یا مملکت خداداد میں موجود ہر اس شخص کو لگے گی، جو ظلم ہوتا دیکھ تو رہا ہے لیکن خاموش ہے۔

ہمیں کشمیر میں بہنے والا خون زیادہ سرخ لگتا ہے اور ہم اس قتل کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں لیکن کیا بلوچستان کا خون ٹماٹر کے رنگ سے بھی ہلکا ہے؟ اب فیصلہ عوام کو بھی کرنا ہو گا کہ وہ ایسے واقعات پر کب تک خاموش رہیں گے؟ مسئلہ مسنگ پرسنز کا نہیں، مسئلہ لاوارث کر کے پھینکی جانے والی مسخ شدہ لاشوں کا بھی نہیں۔ مسئلہ ہےاسٹیٹ کی رٹ کا، مسئلہ ہے لاقانونیت کا، مسئلہ ہے بڑھتے ہوئے ظلم اور نا انصافی کا۔ اگر یہ تمام لوگ غدار ہیں تو گرفتار کر کے عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیے جاتے؟

یہ ماورائے عدالت قتل کی اجازت کیوں اور کون سا قانون دیتا ہے؟ اور وہ جو ابھی تک یہ سوچتےہیں کہ یہ لاقانونیت صرف بلوچستان تک محدود رہے گی کیا خوب سوچتے ہیں!

%d bloggers like this: