اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کی ریل کی کہانی ۔۔۔گلزاراحمد

ہوا یوں کہ پولیٹیکل حکام نے تمام قبائیل کے ملکوں کو بلا کر جرگہ کیا اور طے پایا کہ تمام برطانوی فوج ہندوستان چلی جائے

جب ہم چھوٹے تھے تو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریاے سندھ کے کنارے ایک چھوٹی ریل کی پٹڑی موجود تھی۔ کہا جاتا تھا یہ پٹڑی پیزو تک بنائی گئی تھی اور اس پر ریلوے ویگن کے ذریعے پتھر لا کر حفاظتی بند بنایا گیا۔ پٹری کے ساتھ سندھ کنارہ بہت صاف نظر آتا ھے اور درختوں کے تنوں کو چونا لگا کر سجایا گیا ۔مگر اس پٹڑی کے متعلق صحیح معلومات نہیں مل سکیں کہ کہاں تک تھی اور کیوں تھی۔اب معلوم ہوا ہے کہ ڈیرہ میں ریلوے ورکشاپ بالو رام کے تھلے کے قریب تھی۔ غالبا خیال یہی ہے

کہ موجودہ مفتی محمود آئی ہسپتال کے پیچھے جنوبی مغربی سائڈ پر تھی جہاں پھر گودام ۔کچھ سرکاری کوارٹر اور دفاتر بن گیے ہیں اور یہ پٹڑی دریا کے ساتھ یہاں پہنچتی تھی۔ یہ انگریزوں نے 1916 اور 1923 کے درمیان بنائی تھی اور اس کا مقصد فوجیوں اور اسلحے کی نقل وحمل تھی۔ ابھی ریلوے کے انجن بھی نہیں آے تھے

جب انگریزوں نے ڈیرہ سے ٹانک تک چھوٹی ریل کی پٹڑی بچھا دی اور ریل چلا دی۔پہلے جب انجن نہیں آئے تھے اس ریل کو چھ گھوڑے کھینچ کے لاتے تھے جو بڑے طاقتور تھے اور وائیلر گھوڑے کہلاتے تھے۔پھر انجن لگا دیا اور فی سواری کرایہ 8 آنے تھا۔دوسری جانب ڈاج ویگن یہاں ڈیرہ آ گئی اور ٹانک سے ڈیرہ کا کرایہ 2 روپے مقرر ہوا۔ لیکن آخر ریل سے مقابلہ کرنے کے لیے ویگن کا کرایہ چھ آنے کرنا پڑا۔در اصل ریل کی کوک کی وسل کی آواز لوگوں کو اتنی پیاری لگتی کہ وہ ویگن چھوڑ کر ریل پر جا بیٹھتے۔

بعض تو محض کوک کی آواز سننے کے لیے ٹانک کا چکر لگا آتے تھے۔پھر کالاباغ سے دریائے سندھ پر پل بنا کر پہلے لکی مروت کو جنکشن بنایا گیا۔ یہاں سے ایک چھوٹی لائین گمبیلا سے بنوں اور دوسری لائین لکی مروت سے پیزو ۔درکی۔ گل امام اور ٹانک پہنچ جاتی ۔ٹانک سے آگے منزئی قلعے تک ریل پہنچ جاتی اور اسلحہ اتارا جاتا ۔ ٹانک سے ڈیرہ ڈھائی فٹ کی پٹڑی بچھائی گئی اور اس کا مقصد بھی فوجیوں کی تیز نقل و حمل تھی۔ البتہ عام پبلک کے لیے بھی استعمال کی اجازت تھی۔

ٹانک میں واپڈا کالونی کے پاس ریلوے ورکشاپ تھی اور مشن ہسپتال ٹانک کی جگہ ماڑی انڈس کا دفتر تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے ٹانک سے گرہ بلوچ تک فوجی بارکیں۔توپ خانہ ہسپتال۔ایک فوجی میس جنرل وارگن کے نام پر تھا جس میں سو کے قریب افسر کھانا کھاتے۔ایک پر رونق بازار بھی یہاں موجود تھا۔ڈیرہ سے خرگی تک تمام سڑک پر فوج ہی فوج تھی۔جنگ کے خاتمے پر فوج واپس ہندوستان گئی ۔

ہوا یوں کہ پولیٹیکل حکام نے تمام قبائیل کے ملکوں کو بلا کر جرگہ کیا اور طے پایا کہ تمام برطانوی فوج ہندوستان چلی جائے سڑکوں پر جو قلعے ہیں ان میں فوج کہ جگہ ملیشیا تعنیات کی جائے اور پولٹیکل حکام اپنا کام سرانجام دیں۔ محسود قبائل کی ہر قوم سے خاصہ دار اور ان کے افسر بھرتی کیے جائیں اور تنخواہ پولیٹیکل حکام دینگے۔اس سمجھوتے کے بعد فوج واپس چلی گئی اور ڈیرہ ٹانک ریلوے لائین کچھ عرصہ چلی پھر اکھیڑ کر سامان ماڑی انڈس کے ذریعے انڈیا بھیج دیا گیا

اور لوگ حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے رہ گیے۔اس کے علاوہ بارکیں۔بازار۔ہسپتال مع زمین نواب آف ٹانک کو دے دیا گیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹانک اور بنوں والی پٹڑی 1995 میں ہمارے سیاستدانوں نے اکھاڑ کے بھٹیوں میں جھونک دی ورنہ اس قسم کی پرانی ریل انڈیا میں سیاحت کے فروغ کے لیے اب بھی چلتی ہیں اور قومی ورثہ بھی بنایا گیا ہے۔

%d bloggers like this: