انڈین اسلامک سنٹر میں دیوالی ملن پارٹی : وجے کمارتنیجا کی معیت میں جب ہم انڈین اسلامک کلچرل سنٹرکے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو برقی قمقموں اور لڑیوں سے سجے استقبالیہ ہال پر نظر پڑتے ہی کسی شادی ہال کا گمان ہوا۔ ہال کے دونوںا طراف انواع و اقسام کے دیسی کھانوں کی اشتہاءانگیز خوشبوﺅں نے فضا کو مہکا رکھا تھا۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پکوان تیار ہو رہے تھے۔ سموسمے ، پکوڑے، دہی بھلے، کباب ، گول گپے ، چاٹ اور مٹھائیاں وغیرہ۔ہال کے آخر میں بچھی کرسیوں اورصوفوں کے سامنے ایک خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیاتھا۔ دیوالی ملن پارٹی کے نام سے منعقد کی گئی اس خوبصورت شام کو دِلی کے مسلمانوں نے ہندوﺅں کے اعزاز میں ترتیب دیا تھا۔اس قسم کے پروگراموں کا مقصد ہندو مسلم بھائی چارے کو فروغ دینا اور آپس کی ہم آہنگی بڑھانا ہے۔انڈین اسلامک کلچرل سنٹر کے پلیٹ فارم سے ہر سال عید، رمضان، ہولی، دیوالی جیسے مذہبی اور کئی ثقافتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مباحثے ، سیمینار، رقص و موسیقی کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔
بترا صاحب شلوار قمیص کے اوپر سرخ واسکٹ پہنے کسی دلہا کی طرح لگ رہے تھے،انہوں نے اپنے جن جن دوستوں سے ہمارا تعارف کروایا ان میں سے اکثرسرکاری عہدوں پر فائز افسران، بیورو کریٹس، سیاستدان اور دانشور شامل تھے۔ تقریباً سو کے لگ بھگ مہمان تھے جنہیں دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ پورے دِلی کے سرکردہ افراد ایک ہال میں جمع ہوں ۔ اکثریت مسلمانوں کی تھی جن کے اندازِ گفتگو اورلب و لہجے میں تھوڑا بہت فرق محسوس کیا جا سکتا تھا۔ مشرقی لباس شیروانی، چست پاجامہ پہنے کئی پڑھے لکھے دانشور اورپینٹ شرٹ ، ٹائی کوٹ میں ملبوس دیگر شخصیات ،اس قسم کی کثیر الجہت ثقافتی تقریب میں مجھے پہلی بار شرکت کرنے کا موقع مل رہا تھا ۔تقریب کے انتظامی امور جگدیش بترا کے ہاتھوں میں تھے جو اسلامک کلچرل سنٹر کے مستقل رکن ہیں۔بترا صاحب نے مجھے اسٹیج پر بلا کر بطورِ مہمانِ خاص متعارف کروا یا اور بولنے کیلئے موقع فراہم کیا۔”میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہندوستانیوں کو دیوالی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ مبارکباد کروڑوں پاکستانیوں کی طرف سے ہے جو بارڈر کے اُس پاربیٹھے امن کے خواہاں ہیں“۔میرے بعد چندگنے چنے افراد نے اسٹیج پر آ کرمختصر خطاب کیا اور دیوالی کی شبھ کامنائیںدیں ۔ بترا صاحب نے سرائیکی زبان میں تقریر کرکے سامعین کے دل موہ لئے۔پروگرام کے اختتامی مرحلے میں مہمانوں کیلئے کھانا پیش کیا گیا۔ کباب، پکوڑے، سموسمے ،دہی بھلے، گول گپے اور کئی قسم کے پکوان تیار تھے۔ تازہ سیخ کباب اور جلیبیاں، میرا اندازہ تھا کہ ایک سرے سے آخری سرے تک شاید ہی کسی مہمان نے کوئی ڈش چھوڑی ہو ۔ہر کوئی اپنی پلیٹوں میں کھانا ڈالے خو ب لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ کھانے کے ساتھ ساتھ بترا صاحب دیگر مہمانوں سے بھی میرا تعارف کرواتے رہے۔چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپس میں انگریزی اور ہنگریزی (ہندی انگریزی کا ملاپ) بولتے دکھائی دئیے ۔ ایک عجیب و غریب منظر میں پھنسے سب لوگ کشور کمار کے غمگین گیت کی دھن لگے،” یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا“۔
برصغیر کی ایک ایسی جذباتی قوم جس نے اپنے وجود کو دھرم کی تلوار سے دو ٹکڑے کیا۔انسانی خون اچھلا، گردنیں کٹیں، نقاہت کے مارے بھوکے پیاسے تڑپتے جسموں سے نکلتی ہزاروں روحیں چیختی چلاتی اونچے امبر کی طرف لپکیں،سورج کا چہرہ گلال ہوا، گاڑھے سیاہ بادلوں سے زہر آلود قطرے ٹپکے ، ٹرینوں سے کٹی پٹی ، ندی نالوں پر تیرتی لاشیں ملیں ۔اس پوری یُدھ کی سوئی فقط ایک اختلاف پر اٹکی کھڑی رہی۔جسم ایک ہے ،دھرم دو ہیں۔تو ہندو، میں مسلمان۔ کیا ہمیں واقعی لڑنا اور تقسیم ہونا چاہیے تھا؟دلکش شخصیت کے حامل، شہد آگیں لہجے میں باتیں کرنے والے ایک ہندونے جب مجھ سے پوچھا تومیرے پاس تقسیم کا واضح جواز موجود تھا ۔ ہندوﺅں کو اپنے سن آف سائل ہونے پر فخر، مسلمانوں کو برصغیر پر ہزار سالہ حکمرانی کا زعم لے ڈوبا۔یہی فخر،غرور، تکبر تقسیم کی اصل بنیاد بنا ۔بدقسمتی سے ہم انہی لوگوں کی اولادیں ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے شہروں کی حرمت کو پامال کیا۔ وقت کے بہتے سرخ دریا میں اپنے پھولتے جسموں کو دیکھ کر ہم میں سے کسی نے بھی کوئی احتجاج ، کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ ہمارے اجداد انگریز کی پہنائی گئی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بجائے ہمیں ترکے میں دے کر چھوڑ چلے ، جنہیں آج ہم سب اپنے گلوں میں کسی قیمتی کنٹھ مالا کی طرح لٹکائے خوشی سے گھوم پھر رہے ہیں۔کیا انگریز واقعی یہاں سے چلا گیا؟کیا ہم واقعی وطن پرست ہیں؟ شاید نہیں۔عالمی اسلحہ ساز اداروں نے آج بھی دونوں ملکوں کی عوام کو شیطانی جال میں جکڑ رکھا ہے۔میں نے دِلی میں گھوم پھر کردیکھا ہے، جہاں ہر طرف گورے دندناتے پھرتے ہیں،مگر یہاں پاکستانیوں کیلئے اور وہاں ہندوستانیوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ جیسے دونوں قوموں کی کنپٹی پر کسی جنونی نے نیوکلیئر پستول تان رکھی ہے۔
ایک جیسی شکل و صورت، ایک جیسے ڈی این اے والی قومیں جو ایک دوسرے کی زبان سمجھتی ہیں، جن کے مسائل ایک جیسے ہیں، نہ جانے کب تک شکوک وشبہات اور غیر منطقی پابندیوں کی زنجیر وںمیں جکڑ ی دونوں قومیں اپنے بچوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر عالمی اسلحہ ساز اداروں کا پیٹ بھرتی رہیں گی ؟ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی جگدیش بترا نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے انڈین اسلامک کلچرل سنٹر کی عمارت کے اندر لے گئے۔اندر بین الاقوامی کتاب میلہ لگا ہوا تھا جہاں اسلامی ممالک سعودیہ ، مصر، لبنان، بنگلہ دیش سمیت ہندوستانی اور پاکستانی ادب پر مبنی اُردو افسانے، نثر، شاعری، تاریخ، شخصیات اوراسلامی موضوع پر لکھی گئی کتابوں کے اسٹالز سجے تھے ۔اس کے علاوہ عطر، اسلامی ڈی وی ڈیز، حجاب، اذان کلاک وغیرہ کو بھی کتب میلے میں رکھا گیا تھا۔
وِجے کمار اورجگدیش بتراءکی دلچسپی کا مرکز پاکستانی کتب تھیں، انہوں نے میانوالی کی تاریخ پر لکھی ایک کتاب اٹھائی ،جبکہ شورش کاشمیری کی مولانا ابولکلام آزاد کی شخصیت پر لکھی کتاب نے مجھے ورق گردانی پر مجبور کیا۔ ” انڈیا وِنز فریڈم“ کے مصنف مولانا آزاد ایک صاحبِ سرّ البیاں خطیب، شاعر ،نثر نگار ،عالم دین اور کانگریس پارٹی میں صف اول کے مسلم رہنما مانے جاتے ہیں۔ایسا عالم جس نے سورہ فاتحہ کی تفسیر میںامّ الکتاب نامی ضخیم کتاب تحریر کردی تھی۔ ایسا ادیب کہ جس کے سامنے الفاظ قطار در قطار ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔
اندازِ جنوں کون سا ہم میں نہیں مجنوں
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے
واقعی مولانا کی عمدہ شاعری ان کی سوچ کی واضح دلیل ہے۔ہزاروں پاکستانیوں خصوصاً نظریہ پاکستان کے امینوں کو مولانا ابوالکلام سے لاکھ سیاسی اختلافات سہی مگر اُن کی سوچ ، فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کی داد دینا پڑے گی کہ جنہوں نے قومیت کی بنیاد پر الگ ملک کے تصور سے قائم ہونے والی ریاست سے پیدا ہونے والے مضمرات کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا اور موجودہ حالات کی پیشن گوئیاں نصف صدی قبل کر دی تھیں جو حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں۔
انڈین اسلامک کلچرل سنٹر میں دیوالی ملن پارٹی اور کتب میلے میں شرکت کسی اعزاز سے کچھ کم نہیں تھی۔ ایک خوشگوار شام کا اختتام ہورہا تھا اور جوں جوں ہم ہوٹل کے قریب ہوتے جا رہے تھے ، شام کا جھٹپٹا اندھیرے میں بدل رہا تھا ۔ پرنس ہوٹل میں قدم رکھتے ہی پالے رام نے یقین دہانی کرائی کہ کل صبح آگرہ کیلئے تیار رہنا ہے۔رات کو بستر پر لیٹتے وقت جب تصو رمیں سوچا کہ کل تاج محل دیکھنے کا موقع مل رہاہے تو محل کے ملکوتی حسن میں کچھ ایسا کھویا کہ نیند کی دیو ی نے آ لیا ۔
٭٭٭٭٭٭لیندی پئی ہے۔ ڈین غلامی ویندی پئی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر