مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاعر کے خواب۔۔۔عامر حسینی

ایک دوسرا بڑا دھارا قاتلوں کی جنونیت سے خوفزدہ ہوکر یا اپنا آپ بچانے کے لیے "غیرجانبداری" یا اِس یا اُس دھارے سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے

شاعر کو کیسے خواب آتے ہیں اور کونسے منظر اُسے دکھائے جاتے ہیں، اس بات کی کھوج لگانے کے لیے راکٹ سائنس نہیں بلکہ شاعر کا کلام پڑھا جاتا ہے، شاعر خواب میں قاتلوں کا "ہجوم” اور مقتولوں اور ورثائے مقتول کی غریب الوطنی دیکھتا ہے اور اُسے خواب میں خود "قاتل” بننے کا اشارہ نہیں ملتا اور نہ ہی اُسے کسی ملزم کو صفائی اور مدعی کو گواہی و ثبوت پیش کرکے قاضی کے فیصلے کے آنے سے پہلے ہی فیصلے میں "موت” لکھ دینے پر اُس کی وجدانی حِس جاگتی ہے-

نہ وہ خود کو خود ہی ” فوری انصاف” اور ” دلوں کے حال کا قطعی علم جاننے والے”منصب پر فائز کرتا ہے اور ایسے ہی نہ ہی وہ خود کو "روز جزا کا مالک ” سمجھتا ہے جس نے کسی کے "نامہِ اعمال” کا بالکل درست نتیجہ دینا ہے-

عدالتوں میں غیب، کشف، الہام، وجدان، چھٹی حِس یہ سب کے سب کسی شخض کے ایمان یا کُفر پر سَند نہیں ہوا کرتے بلکہ” ظاہر” کو دیکھ کر فیصلہ ہوتا ہے- نہ کہ ملزم اور مدعی کے دلوں کا حال جاننے اور اُس کی بنیاد پر فیصلہ/فتویٰ دیا جاتا ہے-

مدثر عباس بھی ایک ایسا شاعر ہے جو مرثیہ کہتا ہے تو ایسے لگتا ہے وہ قدیم زمانوں میں؛ ٹائم مشین کے زریعے پہنچ گیا اور اب پرانے زمانے کو زندہ کرکے وہاں کے مناظر پر براہ راست کمنٹری کررہاہو اور وہ "قاتلوں” کا قبیلہ اختیار نہیں کرتا بلکہ جب شہر میں کوئی "باصفا” نہ رہے تو وہ ہی سچ کی گواہی دینے نکلتا ہے اور "مقتولوں” کے ساتھ ہوجاتا ہے-

اسلام کی ابتدائی تاریخ کی پہلی صدی ھجری کے وسط اور آخر میں ہم ایک دھارا تو وہ دیکھتے ہیں جو باہر نکلتے ہی "قتل” کے لیے ہیں اور وہ "مقتول” کے قتل کا الزام بھی اُس قبیلے پر لگادیتے ہیں جن کی طرف سے لڑتا ہوا "مقتول” ہوتا ہے

ایک دوسرا بڑا دھارا قاتلوں کی جنونیت سے خوفزدہ ہوکر یا اپنا آپ بچانے کے لیے "غیرجانبداری” یا اِس یا اُس دھارے سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے

غیرجانبداری کا نام لیکر قاتلوں کی جنونیت سے بچنے کے لیے حیلوں کی تلاش میں سرگرداں نو مین لینڈ کی تلاش کرنے یا یوٹوپیائی طریقوں سے مکمل شکست سے بچنے بارود کی بُو میں بندوق کی سنگین پر "امن” کے سفید جھنڈے کو "کارگر چَال” کے طور پر لہرانے کو اَمن کی نوید سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر کسی کی قسمت زیاد تو کسی کی قسمت "واقعہ حرہ” کا کارگر "ابن عقبہ” اور کسی کی قسمت "ابنِ زیاد” بنتا ہے، قاتل ٹولے سے اَمن کی امید رکھنے والے کسی جنگ کے سب سے زیادہ زخم اٹھانے والے ہوتے ہیں لیکن یہ زخم یہاں تک کہ قتلام کسی بڑے رزمیہ قصے کہانی کا مرکزی کردار نہیں بنتا-

مرکزی کردار تیسرے دھارے کا سردار ہوا کرتا ہے

تیسرا دھارا وہ ہے جو سچ کی پرورش کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور سچ کی خاطر یہ سولی شناس ہوتے ہیں اور ان کے لہو کی خوشبو از فلک تا زمین آتی ہے- اور یہی مہک اور خوشبو بہت سے شقی قلب لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوا کرتی ہے

ویسے کہا جاتا ہے کہ دانش کی تیسری آنکھ کوسمک حقیقت والوں کی ہوا کرتی ہے اور شاعر اُسی تیسری آنکھ کی دانش سے شعر کہتا ہے

…….

مرثیہ : بستی سے گزرتا ہوا مسافر جلوس

ایک قافلہ سالار بڑھ رہا ہے

چھے ماہ کے بچے کو پہلو

میں لے کر اس سر زمین کی

طرف جہاں بچوں سے تیروں

کا شکار کیا جاتا ہے

بچوں کو اپنے سینے پر سلانے والے باپ کی لاش کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے تب تک نہیں روندنا چاہیے جب تک کہ بچے کسی اور مانوس سینے سے آشنا نہ ہو جائیں

چلنا سکھاتا چلا جا رہا ہے

ایک باپ اپنی چار سالہ بیٹی کو

جس کے پیروں کے تلوے دیکھ

کر ماہرین تاریخ کربلا سے شام

تک کے سفر کو ماپ لیں گے

چار سال کی بیٹیاں اب کیسے اپنے باپ کے گلے پر رکھے خنجر کو

ہٹائیں؟ تاریخ دان اس سوال کو نظر انداز کر کے قتل ہوتے باپ

کے چہرے کی طرف بڑھ جاتا ہے

بڑھتا چلا جا رہا ہے ایک بھائی

اپنی بہن کو ساتھ لے کر

ایک ایسی سر زمین کی طرف

جہاں عورتوں پر تیر اور نیزے

اس طرح برسائے جاتے ہیں

کہ مائیں اپنے بیٹوں کا نام،

بہنیں اپنے بھائیوں کا نام

اور بیٹیاں اپنے باپ کا نام

اپنے خون آلود دوپٹے سے

ادھیڑ کر دور اٹھا پھینکتی ہیں

مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مل جل کر بھی لاشوں کو نہیں گن پاتیں کہ معلوم ہو سکے کہ کتنی عورتیں بیوہ اور کتنی عورتیں یتیم

ہوئی ہیں زبان کے ماہرین نہیں جان پائے کہ ان عورتوں کو کس نام

سے یاد کیا جاتا ہے جن کا بیٹا قتل کر دیا گیا ہو

کیسٹ کی ایک سائیڈ پر تکبیروں

دوسری سائیڈ پر

گھوڑوں کی ہنہناہٹ مکہ والے

بہت خاموشی سے سن رہے ہیں

تکبیروں کی آواز اتنی اونچی ہے

کہ روتے ہوئے بچوں کی سسکیاں

بچوں کو سینے سے لگائے ماؤں کے

کانوں تک نہیں پہنچ پا رہیں

یہ کون خدا کے گھر میں تلواریں اگا رہا ہے کہ ہر شاخ حسین

کی طرف بڑھ رہی ہے گھوڑوں کی ٹاپوں اور بچوں کی سسکیوں نے نے گلیوں کو کاٹ کاٹ کر شہر کے اوپر ایک طوفان بنا دیا ہے جس کی دوسری طرف کے ابابیل کسی کو دکھائی نہیں دیتے

قافلے کو دور سے دیکھنے والے

فوراً بتا دیں گے کہ خواتین کے

بالکل آگے آگے کون چل رہا ہے؟

اگرچہ عاشور کے بعد خواتین کو

اپنے قافلے کی سربراہی کے لئے نظر ثانی

کرنے کی ضرورت ہو گی

عباس فرات کا راستہ گھوڑے کو یاد کروا رہے ہیں اور مشک کو مشق کروا رہے ہیں کہ کیسے وہ کسی بہادر سپاہی کے کندھوں پر بلند ہو جاتی ہے اور کندھوں کے ساتھ بازو تو ہر سپاہی کے ہوتے ہیں مگر

کندھوں کے ساتھ چھدی ہوئی مشک عباس کے دو بازؤں جتنی جگہ لے جائے گی

علی اکبر دوڑے چلے جا رہے ہیں

ایک ایسی سر زمین کی طرف

جہاں جوانوں کے سینوں کو

گھوڑوں کی ٹاپوں تلے دھکیل دیا جاتا ہے

یہ معلوم کئے بغیر کہ نوجوانوں کے سینے

پر ماں نے آخری تازہ بوسہ کب دیا؟

اکبر رجز دوہراتے چلے جا رہے ہیں جس رجز کو سن کر بوڑھا باپ

بھی زندگی کی دعا کرنے لگتا ہے مگر برچھیاں کہاں مجبور باپ کی

دعاؤں کو پورا ہونے دیتی ہیں

بڑھتی چلی جا رہی ہے زینب

ایک صحرا کی طرف جہاں

پہنچ کر بہنوں کو اندازہ ہوتا ہے

کہ کیوں وہ بھائی کا لفظ چاہتے

ہوئے بھی اپنی ڈکشنری میں سنبھال

کر نہیں رکھ سکتیں

بیٹا، بھائی اور ماں وغیرہ جیسے

الفاظ تو پہلے ہی آتش زدہ خیموں کے اندر دم

گھٹنے سے مر جاتے ہیں

ہم بڑھتے چلے جا رہے ہیں آنسؤں کی ایک ایسی

فصل کی جانب جو فصل سر زمین کربلا پر گرنے والے

ہر خون کے قطرے کے ساتھ کٹ کٹ کر گر جائے گی

گھوڑوں کی ٹاپوں سے لگی جسموں کی باقیات کو ہی

دیکھ کر انسان نے ماتم کرنا اور صدمے کی موت مرنا سیکھا ہے

مدثر عباس

%d bloggers like this: