مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جیسن میری گُڈائن المعروف مس گُڈِین کی کہانی(1)۔۔۔عباس سیال

ان دنوں ہسپتال کی انچارج ڈاکٹر بارلو تھیں، جنہوں نے مس گُڈائن کو ہسپتال کا چارج دینے سے صاف انکار کر دیا تھا
جیسن میری گُڈائن المعروف مس گُڈِین کی کہانی پروفیسر قاسم شاہ صاحب کی زبانی۔  قسط 1 حاضر خدمت ہے۔ 
لیڈی ڈاکٹرگُڈائن کا پورا نام جیسن میری گُڈائن تھا، جسے وہ اکثر ”جے ایم گُڈائن“ لکھا کرتی تھیں مگر ڈیرہ بھر میں ”مس گُڈِین“ کے نام سے مشہو رتھیں۔ڈاکٹر گُڈائن خاندانی پس منظر کے حساب سے اینگلو انڈینز تھیں یعنی ان کی ماں برطانوی اورباپ برما سے تھا۔
دو بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل یہ اینگلو انڈین گھرانہ پاکستان کے کس شہر میں رہائش پزیر تھا؟ ا س کیلئے زنانہ ہسپتال اور میونسپل کمیٹی ڈیرہ کے تاریخی ریکارڈز کی چھان بین کرناپڑے گی۔
پروفیسر قاسم شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کے ٹھیک پانچ برس بعد 1952 ء میں جب وہ ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے تب انہیں یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر گُڈائن اپنا مختصر سامان ساتھ لیے زنانہ ہسپتال ڈیرہ میں تعینات ہونے کیلئے آئی تھیں۔
ان دنوں ہسپتال کی انچارج ڈاکٹر بارلو تھیں، جنہوں نے مس گُڈائن کو ہسپتال کا چارج دینے سے صاف انکار کر دیا تھا، چونکہ اس وقت زنانہ ہسپتال میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام تھا، اسی لئے گُڈائن نے میونسپل کمیٹی سے رجوع کیا تھا۔
ان دنوں اسلامیہ کالج پشاور میں انگریزی کے ریٹائرڈ پروفیسر محمد علی قریشی(ایم اے انگلش، ایم اے فارسی، ایم اے اسلامیات اور ایل ایل بی) محلہ قریشیاں میں مقیم تھے،جن کا گھرحامد خان ہیڈ ماسٹر کے عین سامنے واقع تھا۔محمد علی قریشی اور محمد صادق قریشی دونوں آپس میں بھائی تھے،چونکہ محمد علی قریشی میونسپل کمیٹی کے سربراہ تھے اسی لئے ان کی کاوشوں سے ڈاکٹرگُڈائن نے زنانہ ہسپتال کا چارج سنبھالا تھا اور ڈاکٹر بارلو کو فارغ کر دیا گیا تھا، گُڈائن ہسپتال سے ملحقہ سرکاری بنگلے میں منتقل ہو گئی تھیں اور پھر اسی دن سے انہوں نے اپنی پریکٹس شروع کر دی تھی۔
ڈاکٹر بارلو کہاں گئی تھیں؟ کچھ معلوم نہیں۔
قاسم شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ یہ 1954 ء کا دور تھا جب وہ آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے اور ان کی والدہ زنانہ ہسپتال میں داخل تھیں، ڈاکٹرگُڈائن کی زیر نگرانی ان کی والدہ کا علاج چل رہا تھا، وہ روزانہ اپنی ماں سے ملنے کیلئے ہسپتال جاتے اورگُڈائن سے انگریزی میں باتیں کیا کرتے تھے۔
اسی دوران ان کے امتحانات کے دن قریب آگئے تو والدہ نے ڈاکٹر گُڈائن سے درخواست کی کہ انہیں گھر جانے دیا جائے کیونکہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے جس کے امتحانات آگئے ہیں اور بیٹے کوگھر میں کھانے پلانے والا بھی کوئی نہیں لہٰذاہسپتال سے چھٹی دی جائے تاکہ وہ گھر جاسکے مگر ڈاکٹر گُڈائن نے انہیں ڈسچارج کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
بڑی منت سماجت اور ضد کے بعد قاسم شاہ صاحب کی والدہ گھر آ گئیں،مگر چونکہ ان کا علاج ابھی مکمل نہیں ہو اتھا اسی لئے پیچیدگی کے سبب واپس ہسپتال داخل کروانے کیلئے لے جایا گیا، چونکہ ڈاکٹر گُڈائن بلا کی ضدی تھیں اسی لئے اس نے ان کی والدہ کو پہلے تو ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا اور پھر منت سماجت کے بعد یہ شرط رکھی کہ وہ وارڈ میں سونے کی بجائے باہر ہسپتال کے برآمدے میں سوئیں گی، مجبوراً گُڈائن کی بات ماننا پڑی اور والدہ باہر برآمدے میں چارپائی پر سو گئیں۔قاسم شاہ صاحب کو یاد پڑتا ہے ان دنوں شدت کی سردی پڑ رہی تھی اور ایک رات تو اتنی سردی اور بارش تھی کہ ان کی والدہ ٹھٹھرتی سردی میں کانپ رہی تھیں، خیر ڈاکٹرگُڈائن نے اصول توڑنے کی پاداش میں اس طریقے سے اپنا انتقام لیا تھا۔
اب توموجودہ زنانہ ہسپتال کی عمارت تبدیل ہو گئی ہے، گوڈائن کا بنگلہ بھی مسمار کر دیا گیا ہے صرف ہسپتال کا ایک یونٹ (آپریشن تھیٹر) باقی بچا ہے اور میں جب کبھی ہسپتال جاتا ہوں تو یہ دیکھ کر دلی افسوس ہوتاہے کہ ہسپتال کی کوئی چیز بھی سلامت نہیں رہی۔
ڈاکٹر گڈائن ان کی والدہ کی یہ بات بھی ماننے کیلئے بھی تیار نہ تھیں کہ ان کا بیٹا آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے، ان کا خیال تھا کہ وہ جس طرح کی انگریزی بولتا ہے، بی اے کا طالبعلم لگتا ہے۔بہر حال اسی دوران امتحان ہوگئے اور وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے۔
ان دنوں حامدخان خواجہ(خوجاں والی گلی کا رہائشی) ہیڈ کلرک نے نتیجے کی کاپی ڈاکٹر گُڈائن کو دکھائی تو وہ بڑی حیران ہوئی اور بس اسی دن سے انہیں قاسم شاہ صاحب سے کچھ ایسی الفت ہو گئی جیسے کسی ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے۔قاسم شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ اس طرح وقت گزرتا رہا، تعلقات مزید استوار ہوتے چلے گئے اور وہ سکول سے کالج جا پہنچے۔”صبح کالج جاتے ہوئے میں سب سے پہلے ڈاکٹر گُڈائن کو سلام کرتا، ہم دونوں انگریزی میں باتیں کرتے اور پھر میں ہسپتال کے ساتھ قبرستان سے جو راستہ عدالتوں کو جاتاہے اسی راستے سے ڈگری کالج چلا جاتاتھا۔
اسی دوران میں نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا اور کالج بھر میں ٹاپ کیا، ڈاکٹر گُڈائن کو جا کرخوشخبری سنائی، جسے سنتے ہی وہ خوش سے پھولے نہیں سماتی تھیں۔ ان دنوں شاہ سید منور کے رہائشی منظور شاہ مرحوم ہیڈ کلرک تھے، گُڈائن نے ہیڈ کلرک کے ذریعے کالج سے میرا نتیجہ کنفرم کروایا۔
وہ چند دنوں کی چھٹی لے کر راولپنڈی روانہ ہو گئیں اور واپسی پر میرے لئے اعلیٰ قسم کی انگریزی کی ڈکشنری، کچھ بنیانیں اپنے ہمراہ لائیں اور اس کے اندر کچھ پیسے رکھ کر کالج میں اول آنے کی خوشی میں مجھے تحائف دئیے۔اب میں سرِ شام اس کے بنگلے پر پہنچ جاتا، وہیں باٹنی، زوآلوجی، کیمسٹری اور دل کے دیگر امراض کے متعلق مضامین ان سے پڑھتا، وہیں کھاتا پیتا اور رات کے وقت سونے کیلئے اپنے گھر جاتا تھا، اکثر اوقات ٹی بی ہسپتال کے اردگرد منڈلاتے آوارہ کتے بھی میرے پیچھے پڑ جاتے تھے۔
ڈاکٹر گُڈائن نے بڑی سائز کا ایک کتا پال رکھا تھا، وہ رات کے ایک بجے ٹارچ اٹھا کر کتے سمیت گھر سے نکلتیں، کتا آگے آگے اور یہ اس کے پیچھے ہوتیں۔اس کتے کے ساتھ انہیں اتنی انسیت تھی کہ وہ اسے اپنے ساتھ پلنگ پر سلاتی تھیں۔
اسی دوران ڈی آئی جی جدوں صاحب کی بیوی پروین جدون کی ہسپتال میں تعیناتی ہوئی اور پروین جدون کے اصرار پر ڈاکٹر گُڈائن کو کہا گیا کہ وہ کوہاٹ کے ہسپتال چلی جائیں، مگر ا س عظیم عورت سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کوہاٹ ہرگز نہیں جائیں گی اور اگر انہیں مجبور کیا گیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گی، خیر جب ان پر ٹرانسفر کیلئے بہت دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے کوہاٹ جانے کی بجائے اپنا استعفیٰ پیش کیا،سرکاری بنگلہ خالی کیا اور جہاں آج کل ملٹری کی چیک پوسٹ واقع ہے وہیں پر ایک کرائے کے بنگلے میں منتقل ہو گئیں۔
گزر اوقات کیلئے اب وہ بنگلے پر اپنے مریض دیکھنے لگیں، چونکہ وہ بنگلہ میرے گھر سے کچھ زیادہ قریب تھا اسی لئے میرے شب و روز اب وہیں گزرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے کڑی علیزئی میں صلاح الدین نقشبندی کے بیٹے کا بنگلہ کرائے پر لے لیا۔ان دنوں اسسٹنٹ ٹو کمشنر (عثمان ہاشمی)سول ہسپتال کے قریب جہاں ڈاکٹر علی کی کوٹھی واقع ہے وہاں رہائش پزیر تھے اور انہوں نے کالے رنگ کی ایک چھوٹی سائز والی ”ہل ڈن“ کار رکھی ہوئی تھی، جسے اس نے کسی کے ہاتھ بیچا، وہی کار بعدمیں گُڈائن نے خریدلی۔
اب ہم دونوں اسی کار میں سیرسپاٹے کرتے، بازار میں شاپنگ کرنے کیلئے جاتے اور اسی کار میں وہ اپنے مریضوں کی تیمارداری کیلئے بھی جایا کرتی تھیں۔ (جاری ہے)
ضروری نوٹ: ہم محترمہ قیصرہ شفقت صاحبہ اور اسماعیل علی زئی صاحب کے انتہائی مشکور ہیں کہ انہوں نے درج زیل باتوں کی تصحیح کی طرف توجہ دلوائی۔
۱۔ کڑی علیزئی میں ڈاکٹر گُڈائن ”صلاح الدین تقشبندی کے بیٹے“کے بنگلے میں نہیں بلکہ نواب تقشبند خان علیزئی کے بیٹے نواب صلاح الدین خان کے بنگلے میں رہائش پزیرہوئی تھیں۔(قیصرہ شفقت، اسماعیل خان علیزئی)
۲۔ نواب صلاح الدین خان نفیس طبع، شاہ دل انسان تھے، جنہوں نے بعد میں ملتان میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی(قیصرہ شفقت
۲۔ ڈاکٹر گُڈائن کے پاس جو کالی رنگ کی چھوٹی گاڑی تھی وہ ”رینالٹ“ کمپنی کا ماڈل تھا جس پر وُڈورک سے کیبن بنا ہوا تھا(اسماعیل خان علیزئی
ہم سب سعید اختر سیال کے انتہائی مشکور ہیں کہ جنہوں نے ڈاکٹر قاسم شاہ صاحب سے رابطہ کیا اور ان کے توسط سے ہم ڈیرہ کے مشہور کردار مس گڈین (ڈاکٹر جیسن میری گُڈائن) کے بارے میں اصل حقائق جاننے، لکھنے کے قابل ہوئے۔انشا ء اللہ  آخری قسط  بھی جلد اپ لوڈ کر دی جائے گی۔(عباس سیال)

%d bloggers like this: