اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راکٹ بسیں اور ہماری ثقافت۔۔۔گلزاراحمد

ایک ڈرائیور نے ایسی پرانی بس کو پینٹ کر کے سگیوں سے خوب سجایا اور مری روڈ راولپنڈی لوکل سروس پر چلانے لگا۔

آج میں نے ایک پرانی راکٹ بس کی تصویر دیکھی تو کمال اور زوال کی کہانی دماغ میں گھومنےلگی۔ایک وقت تھا جب یہ بس روڈ پر گھومتی ہو گی اور اس پر لکھا ہوتا تھا۔۔

روڈ کی شھزادی ۔۔۔سڑک کی ملکہ ۔۔وغیرہ ہمارے پشاور کے دوست اور ریڈیو پاکستان کی پشتو خبروں کے مقبول ترین نیوز ریڈر جناب انور علی خان صاحب اس بس کے متعلق کہتے ہیں کہ ۔۔یہ راکٹ بس جب روٹ پر ہوتی تھی تو اسکی فرنٹ سیٹ پر صرف ڈرائیور اور مالک کے قریبی رشتے داروں یا کھڑپینچوں کو ہی بیٹھایا جاتا تھا۔

کبھی نہیں دیکھا کہ کسی غریب مسافر کو آگے موجود وی آئی پی نامی سیٹ پر بیٹھایا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے آج انہی غریبوں میں سے بہت سے اپنی ذاتی گاڑیوں کے مالک ہوں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ڈیرہ میں ان راکٹ بسوں میں اس وقت سفر شروع کیا جب اس کے بانٹ کے سامنے لوہے کے لمبے راڈ کا ہینڈل گھما کر اس کو اسٹارٹ کیاجاتا تھا۔ جون جولائی کے گرم ترین مہینوں میں لُو کے تھپیڑے بھی خوب سہتے کیونکہ ائیر کنڈیشن کا زمانہ نہیں تھا ۔

جیسے غلام محمد قاصر کی مشھور غزل کا شعر ہے ؎ سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے۔۔۔

لُو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلےتھے۔۔۔

ہم ڈیرہ اسماعیل خان کے دامان کی سوہنڑی دھرتی کے لوگ ہمیشہ صحراوں کے ٹیلوں کی طرح بندہ صحرائی بن کر لُو کے تپھیڑے سہتے رہے اور اب تک سہ رہے ہیں۔

یہ بسیں ڈیرہ بنوں۔پشاور۔لاہور۔کراچی اور چھوٹے تمام روٹس پر چلتی تھیں۔

اس زمانے ڈرائیور ان بسوں کو طرح طرح کی پینٹنگز۔اور اشعار لکھ کر اور آرٹفیشل زیورات سے سجاتے ۔خاصکر ان کو خواتین والی سگیوں یا پراندوں سے ضرور سجایا جاتا۔

یہ بسیں اب بوڑھی ہو چکیں اور شاید ہی کہیں نظر آئیں لیکن ان کے ڈرائیوروں کےجذبے جوان ہیں۔ ایک دفعہ ایک ڈرائیور نے ایسی پرانی بس کو پینٹ کر کے سگیوں سے خوب سجایا اور مری روڈ راولپنڈی لوکل سروس پر چلانے لگا ۔

نئی نئی ورکشاپ سے پینٹ ہو کر آئی تھی ۔جب فیض آباد کا انڈر پاس مڑ کر چڑھائی پر چڑھنے لگی تو بہت زور لگارہی تھی۔ پیچھے میری گاڑی تھی میں نے جب اس کو زور لگاتے اور دھواں نکالتے دیکھا تو ڈرائیور سے کہا ذرہ آہستہ کر کے سائیڈ پر اپنی گاڑی رکھو کہیں واپس لڑھک کر ہم سے ٹکرا نہ جائے۔ خیر راکٹ آگے بڑھتی گئی اور ہم کو کراس کا اشارا دے دیا۔ میں جب کراس کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں اس بس پر رنگ برنگی سگیاں لہرا رہی ہیں اور بڑے جلی حروف میں لکھا ہے۔۔۔

قسمت نے پھر سے دلھن بنا دیا۔

یار میں یہ فقرہ پڑھ کر دنگ رہ گیا اور اس بس کو یا اس دلھن کو دیکھنے کا یکدم شوق پیدا ہوا مگر چڑھائی پر رکنا اور اس دلھن کو دیکھنا ممکن نہ تھا اور دل کی حسرت لے کر آگے نکل گیا۔ ڈیرہ میں یہ بسیں سردیوں میں دریا خان چلتی تھیں اور رفتار بہت کم ہوتی تھی۔ اس پر شاعر نظمیں لکھتے انکے متعلق مشھور ہے کہ کلینر پیچھے کھڑکی پر ایک تھپڑ مار کر کہتا ۔استاد زرہ آہستہ پیچھے سے سائیکل کراس کر رہی ہے۔ کلینرز کی اپنی خاص الفاظ تھے۔

مثلا” استاد ۔۔ڈبل ۔۔۔یعنی گاڑی چلا دو۔ یا جانڑ دیوس ۔۔۔بعد میں جب یہ بسیں روڈ پر چلنے کے بھی قابل نہیں تھیں تو یہ شادیوں پر بارات ایک محلے سے دوسرے محلے پہنچاتی تھیں۔ مینڈھی کھولنے اور دلھن لانے جاتیں۔ اس بس کے درمیاں ڈھولک والی ڈھول بجا رہی ہوتی اور عورتیں گانا گا رہی ہوتیں تھیں۔مردوں کی بارات والی بسیں علیحدہ تھیں۔ جب بارات والی یہ سب بسیں دلھن کے محلے یا گاٶں پہنچتی تو بڑے خوبصورت ہارن بجاتیں جس سے محلے کو پتہ چلتا دلھن لینے بارات پہنچ گئی ہے اور مسرت نزیر کا پنجابی گیت چلنے لگتا۔۔

آیا لاڑی اے نی تیرا سہریاں والا ویاہ ونڑ آیا۔

%d bloggers like this: