مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مادر ملت انتخابی معرکہ کیوں ہاریں؟ ۔۔۔ محمد عامر خاکوانی

چودھری انور بھنڈر اور رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کھل کر مخالفت کی، رفیق تارڑ بعد میں جج اور صدر پاکستان بنے۔

پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کے حوالے سے کچھ باتیں بار بار دہرانے کی ضرورت رہتی ہے۔ ہر چند برسوں کے بعد پروپیگنڈے کی ایک لہر آتی ہے ، جس کا مقصد حقائق کو مٹانا اور اپنی پسند کی چیزیں نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ اگر انہیں بروقت چیلنج نہ کیا جائے تو کچھ عرصے بعد انہیں درست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثرنوجوان مطالعہ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ، فکشن وغیرہ پڑھنے والے کچھ مل جاتے ہیں، مذہبی لٹریچر اور شاعری میں بھی دلچسپی لی جاتی ہے، مگر نان فکشن کتابیں پڑھنے والے بہت زیادہ نہیں۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے بھی اوریجنل سورسز پڑھنے کا شغف نہیں رکھتے۔ بیشتر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وکی پیڈیا ٹائپ ریفرنس یا کیپسول ٹائپ انفارمیشن ان کے حوالے کر دی جائے، وہ اسے ہی کاپی پیسٹ کر کے کام چلا لیں۔ وکی پیڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ مستند نہیں، کیونکہ اسے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی طرح مستند تاریخ دانوں یا ماہرین نے مرتب نہیں کیا۔ یہ عوامی انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں کچھ بھی شامل یا ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ وکی پیڈیا سے بعض اوقات اچھی، دلچسپ معلومات مل جاتی ہیں، مگر بہت بار غلط اور دھوکہ دینے والی اطلاع ملتی ہے۔
پچھلے کالم میں لکھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے یہ تاثر درست نہیں کہ انہیں ریاستی یا قومی سطح پر غدار قرار دیا گیا تھا ۔ اگرچہ اسی کالم میں یہ وضاحت کر دی تھی کہ میرا مقصد قطعی طور پر ایوب خان کی حمایت کرنا نہیں اور نہ ہی انہیں کسی الزام سے بری کرنا ہے اور ایوب خان بمقابلہ مادر ملت فاطمہ جناح کی کسی مساوات میں خاکسار مادر ملت کا پیروکار ہے۔ یہ بھی لکھا کہ ایوب خان نے وہ الیکشن متنازع طریقے سے جیتا ، ورنہ شفاف انتخابات میں مادر ملت کی کامیابی یقینی تھی۔ میرا صرف یہ مقصد تھا کہ جو بات جتنی ہے، اتنی ہی کہی جائے ۔
یہ درست ہے کہ ایوب خان نے خود بھی بعض تقریروں میں مادر ملت پر سخت تنقید کی، ان کے ساتھیوں میں سے بعض نے کہیں کہیں عامیانہ گفتگو اور زیادہ سخت باتیں بھی کہیں۔ ان کے پاس چونکہ مادر ملت پر تنقید کرنے کے لئے کوئی جواز یا پوائنٹ موجود نہیں تھا، ایسی شفاف ، اپ رائٹ شخصیت کے خلاف کیا کہا جا سکتا تھا؟ اس لئے انہوں نے مادر ملت کا ساتھ دینے والی متحدہ اپوزیشن کے رہنماﺅں پر تنقید کی، مولانا مودودی کو پاکستان مخالف قرار دیا، خان عبدالغفار خان، ولی خان وغیرہ کو ملک دشمن قرار دیا اور کہا کہ مادر ملت ان ملک دشمن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں، الیکشن جیت گئیں تو یہی لوگ حاوی ہوجائیں گے وغیر ہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں بھی نامناسب تھیں۔ باچا خان یا ولی خان ملک دشمن نہیں تھے، اس وقت وہ جمہوریت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ایوب خان کے مخالف تھے، اس لئے انہیں ہدف بنایا گیا، ورنہ اگر وہ ایوب کے حامی ہوتے تب کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ ایوب خان کی جیت کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، اس میں بہت سی بے قاعدگیاں تھیں، واضح طو رپر انتظامیہ کے ذریعے بی ڈی ممبرز پر اثرانداز ہوا گیا۔ایوب خان کی فتح ہی میں دراصل ان کی شکست مضمر تھی۔
میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ مادر ملت فاطمہ جناح کو ریاستی یا قومی سطح پر غدار نہیں قرار دیا گیا۔ یہ مقام شکر ہے کہ اس وقت سیاست میں گندگی اتنی زیادہ نہیں تھی، ورنہ آج کا زمانہ ہوتا تو ان کے خلاف اسمبلی سے قرارداد ہی منظور کرا لی جاتی۔ایسا نہیں ہوا اور صدارتی انتخاب کے بعد مادر ملت بھی اپنے گھر میں رہیں، اگلے ڈھائی برسوں میں وہ سیاسی طور پر غیر فعال تھیں۔ حکومت نے بھی ان سے کوئی سروکار نہیں کیا، اچھا کیا۔ایوب خان میں بے شمار خامیاں ہیں،ڈھونڈنے کے لئے محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ ان کا مادر ملت سے الیکشن جیتنا ہی متنازع ہے، اسی پر تنقید کر لی جائے، مشرقی پاکستان کے عوام کے احساس محرومی کو بڑھاوا دینے میں بھی ایوب خان حکومت کااہم کردار ہے۔تنقید ضرور کی جائے، ڈٹ کر کی جائے، ایسا کرنے کا ہر ایک کو پورا حق حاصل ہے۔ بس عرض یہ ہے کہ ہمارے داغ دار ماضی میں کوئی واقعہ اگر اتنا زیادہ بھدا اور مسخ نہیں تو اسے ویسا ہی رہنے دیا جائے۔
مادر ملت کے انتخابات کے حوالے سے ریفرنس کا مواد تلاش کر رہا تھا، ڈاکٹر صفدر محمود نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید کی جانب رہنمائی کی۔ شاہد رشید صاحب نے ازراہ تلطف نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن کی شائع کردہ کتاب”جمہوریت، آمریت اور مادر ملت“بھیج دی، وکیل انجم اس کے مصنف ہیں، انہوں نے خاصی محنت سے مادر ملت کے انتخابات کی تفصیلی روداد رقم کی ہے۔ ایوب خان اور مادر ملت کے انتخابی معرکے کے حوالے سے بہت سے نوجوان قارئین کو زیادہ معلومات حاصل نہیں۔ خاصے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ انتخاب براہ راست ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوا تھا۔ دراصل ایوب خان نے بی ڈی ممبرز سسٹم متعارف کرایا تھا، بنیادی جمہوریت نظام۔ اس کے تحت صدارتی امیدواروں میں براہ راست عوام سے ووٹ لینے کے مقابلہ کے بجائے پہلے بلدیاتی ٹائپ الیکشن کے زریعے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے اور پھر ان ممبران نے صدارتی امیدواروں کو ووٹ ڈالے۔ یہ امریکی صدارتی نظام سے ملتا جلتا نظام ہے۔ وہاں بھی امریکی صدارتی امیدوار براہ راست آپس میں نہیں ٹکراتے، اگرچہ تاثر یہی ملتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں دو بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اورصدر کے الیکٹوریل کالج کے زیادہ تر نمائندے ان دونوں جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، آزاد صدارتی امیدواروں پر پابندی نہیں، مگر امریکی عوام انہیں پزیرائی نہیں بخشتیں۔یہ موٹی سی تعریف کی ہے، تاہم امریکی نظام کی پیچیدگی کو چند سطروں میں سمجھانا ممکن نہیں، ہم اپنے موضوع سے ہٹ جائیں گے، دلچسپی رکھنے والے اسے نیٹ پر سرچ کر کے دیکھ لیں۔ ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن سے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بی ڈی ممبرز کا الیکشن ہوا۔ دونوں حصوں سے چالیس چالیس ہزار ممبرز چنے جانے تھے، بعد میں ان اسی ہزار ممبران نے صدرپاکستان کا فیصلہ کرنا تھا۔ اکتیس اکتوبر سے نو نومبر 1964 تک مغربی پاکستان اوردس نومبر سے انیس نومبر 1964ءتک مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ اپوزیشن اپوزیشن اور حکمران کنونشن مسلم لیگ دونوں نے اپنی اپنی طرف سے بھرپور مہم چلائی کہ ایسے ممبران منتخب ہوں جو ان کے صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالیں۔ پاکستانی تناظر میں یہ بی ڈی سسٹم ناکام ہونا ہی تھا، یہاں جمہوریت مستحکم نہیں، ادارے مضبوط نہیں اوربلدیاتی سطح کے ممبران پر انتظامیہ کے زریعے اثرانداز ہونا بہت آسان ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ صدر ایوب اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ بطور صدر حکومت کرتے رہے۔ اپوزیشن نے اس پر اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ نگران حکومت بنائی جائے۔ اس پر حکومتی وزرا نے مذاق اڑایااور امریکہ کی مثال دی جہاں الیکشن کے موقعہ پر صدر مستعفی نہیں ہوتا۔ یہ غلط موازنہ تھا کیونکہ امریکی صدر الیکشن میں مداخلت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ الیکشن کمیشن، انتظامیہ، عدلیہ ، میڈیا وغیرہ سب اتنے مستعد ہیں کہ کسی کی ایسا کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔ صدرنکسن نے اپنے مخالفین کی جاسوسی کی کوشش کی تو ایسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے بعد کی نصف صدی میں امریکی صدور مزید محتاط ہوگئے۔ صدر ایوب نے ایک ہوشیاری یہ کی کہ ان کا صدارتی انتخاب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے بعد ہونا تھا، مگر انہوں نے اسمبلی میں ایک ترمیم کے ذریعے اپنے صدارتی انتخاب کو پہلے کرا لیا تاکہ اسمبلیوں کے انتخاب میں اپوزیشن کی ممکنہ جیت کا منفی اثر صدارتی انتخاب پر نہ پڑے۔ صدر ایوب کی ٹیم نے انتظامیہ کو بھرپور طریقے سے اپنے حق میں استعمال کیا ، ایسے بہت سے علاقے تھے جہاں سے واضح طور پر مادر ملت کے حامی ممبران الیکشن جیتے تھے، مگر انتظامیہ کے دباﺅ کے پیش نظر ان میں سے بہت سے منحرف ہو کر صدر ایوب کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، وکیل انجم نے اپنی کتاب میں ایسے سب واقعات رقم کئے ہیں۔
سب سے دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والا معاملہ ایوب خان کے حمایتی سیاستدانوں کی تفصیل ہے۔ بعد میں جمہوریت کے چیمپین بننے والے بیشتر لوگ کھل کر نہ صرف ایوب خان کے ساتھی رہے بلکہ ان میں سے بعض نے مادر ملت فاطمہ جناح پر سخت اور ناجائز تنقید بھی کی۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو سرفہرست ہیں۔ کئی سال بعد وہ صدر ایوب خان سے الگ ہوگئے، ان کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی اور اپنی جماعت پیپلزپارٹی بنا کر 1970ءکا الیکشن مغربی پاکستان میں جیتا اور پھر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ بن گئے۔ بھٹو صاحب نے سندھ میں ایوب خان کی بھرپور مہم چلائی اور انہیں عظیم رہنما قرار دیا، بھٹو کا کہنا تھا کہ ایوب خان نے پاکستان کو تباہی سے بچا لیا۔بھٹو صاحب سے مادر ملت کے خلاف بعض سخت اور غیر شائستہ جملے بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سیدزماں طالب المولیٰ نے بھی کھل کر ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ مخدوم طالب المولیٰ اور ان کے صاحبزادے مخدوم امین فہیم ودیگر بعد میں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما رہے۔ سندھ کے تالپور گھرانے کے علی احمد تالپور، رسول بخش تالپور کھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑے رہے۔
بلوچستان کے بیشتر سردار ایوب خان کے ساتھ تھے اور وہاں سے مادر ملت کو بہت کم ووٹ ملے، میر جعفر خان جمالی نے البتہ نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ میں بھی مادر ملت کے حق میں بھرپو رمہم چلائی۔سندھ میں پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔ پورے مغربی پاکستان میں کراچی واحد ضلع تھا ، جہاں سے مادر ملت کو کامیابی ملی، یہیں پر الیکشن کے بعد ایک افسوسناک المیہ ہوا، جس کی ذمہ داری صدر ایوب کے صاحبزادے گوہر ایوب پر عائدہوتی ہے، صدر ایوب کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے قدرت اللہ شہاب اور روئیداد خان دونوں نے اپنی آپ بیتی میں اس واقعے کو دیانت داری سے بیان کیا اور کچھ نہیں چھپایا۔پنجاب کے تقریباً تمام ہی اہم الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ جنوبی پنجاب میں بھی یہی ہوا۔ ملتان ڈویژن میں قریشی، گیلانی، کھگے، بوسن، کانجو، خاکوانی،ڈاہا، بودلے،کھچی، گردیزی سب ہی ایوب خان کے ساتھ تھے، تاہم میر بلخ شیر مزاری، پیر ظہور حسین قریشی اور رمضان دریشک نے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ بہاولپورڈویژن میں مادر ملت کے حامیوں کی اکثریت جیتی، مگر مخدوم زادہ حسن محمود اور دیگر طاقتور شخصیات کی کوشش سے ایوب خان نے کامیابی حاصل کی ۔ایوب خان کی کامیابی میں نواب کالاباغ کی چالبازیوں اور جوڑتوڑ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔پنڈی میں راجہ ظفر الحق نے زبردست طریقے سے ایوب خان کا ساتھ دیا، پنڈی ڈسٹرکٹ کونسل میں ایوب خان کی کامیابی پرمبارکباد کی قرارداد راجہ صاحب ہی نے پیش کی تھی۔لاہور میں میاں معراج دین، میاں شریف اور دیگر اہم کاروباری وسیاسی شخصیات ایوب خان کی حمایت میں سرگرم رہیں۔چودہ سال بعد بھٹو صاحب کے کیس میں استغاثہ کے وکیل بننے والے اعجاز بٹالوی آخری لمحے تک مادر ملت کی حق میں ڈٹے رہے، انہوں نے انجمن فدایان مادر ملت کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی۔
گجرات کے چودھری ظہور الٰہی تو ایوب خان کے دست راست تھے۔ سرگودھا میں ٹوانے، پراچے، نون ، لک، میکن اور دیگر اہم الیکٹ ایبل ایوب خان کے ساتھ تھے۔گوجرانوالہ میںغلام دستیگر خان ایوب خان کے زبردست حامی تھے۔ ان کے حوالے سے ایک ناشائستہ واقعہ بھی رپورٹ کیا جاتا ہے۔چودھری انور بھنڈر اور رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کھل کر مخالفت کی، رفیق تارڑ بعد میں جج اور صدر پاکستان بنے۔چودھری اعتزاز احسن کے والد چودھری احسن علیگ نے البتہ مادر ملت کی بھرپور حمایت کی۔ شیخوپورہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر اہم شہروں کے الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔سرحد میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ مشرقی پاکستان میں مادر ملت کو اکثریت حاصل تھی، وہاں کچھ انتظامیہ نے اثر ڈالا اور کئی ہزار ووٹوں کا فرق مبینہ طور پر مولانا بھاشانی کی سیاسی غداری سے پڑا، کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی رقم لے کر ایوب خان کے ساتھ مل گئے تھے،حبیب جالب نے اپنی آپ بیتی میں کہا کہ بھٹو صاحب نے انہیں بتایا کہ یہ ڈیل انہوں نے کرائی تھی۔
علما اور مشائخ میں بہت سوں نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔ کئی بڑے علما جیسے صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمی (غزالی دوراں) نے مادر ملت کے خلاف فتوے بھی صادر کئے۔ جماعت اسلامی البتہ کھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑی تھی، مولانا مودودی نے بڑے مدلل انداز میں مادر ملت کا مقدمہ لڑا۔ مولانا مودوی کو مادر ملت کی حمایت پر یہ روایتی دینی حلقے تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔ مولانا عبدالستار نیازی البتہ مادر ملت کے سپاہی تھے،کراچی میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی دباﺅ کے باوجود ایوب خان کے حق میں بیان نہیں دیا۔منیر نیازی، حبیب جالب ، احمد مشتاق، سید قاسم محمود ، محمود شام اور دیگر ادیب بھی مادر ملت کے حق میں لکھتے رہے۔ حبیب جالب کی نظموں نے تو ملک میں تہلکہ مچا دیا۔
مادر ملت کو شکست ہونی ہی تھی، جب ملک کا طاقتور صدر اپنے تمام تر اختیارات اور انتظامیہ کے وسائل کے ساتھ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو رہا ہے اور ملک بھر کے اہم ، طاقتور سیاستدان اس کے ساتھ کھڑے ہیں، تب جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی ، کونسل مسلم لیگ وغیرہ کی کوششوں سے کتنا کچھ ہو سکتا تھا؟ مادر ملت نے نجی محفلوں میں کئی بار کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ حکومت مجھے جیتنے نہیں دے گی، مگر یہ جدوجہدضروری ہے اور یہ آمرانہ حکومت کو کمزور کرے گی۔ مادر ملت کی جس والہانہ انداز میں جلسوں میں پزیرائی کی گئی، اس سے واضح ہے کہ فیئر الیکشن ہوتے تو مادر ملت جیت جاتیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق ایوب خان نے مغربہ پاکستان سے 28939 جبکہ مشرقی پاکستان سے21012 ووٹ لئے ، مجموعی ووٹ بنے 49951، جبکہ مادر ملت کو مغربی پاکستان سے 10257، مشرقی پاکستان سے18434، مجموعی طور پر28691ووٹ ملے۔ وہ الیکشن تو ہار گئیں، مگر ایوب خان کی مقبولیت کا تاثر بھی مجروح ہوا اور ان کی مضبوط حکومت ہل کر رہ گئی۔ یہ ایوب خان کے زوال کا آغاز تھا، اس کے بعد ان کی سیاسی قوت بتدریج کم ہی ہوتی گئی۔

%d bloggers like this: