اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا وائرس سے ڈاکٹر پاشا کی رحلت۔۔۔ شکیل نتکانی

ڈاکٹرپاشا صاحب نے خود اپنے علاج کے لیے نشتر پر ایک پرائیویٹ ہسپتال کو ترجیح دی جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا ایک بہت اچھے انسان تھے لیکن بطور ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر انہوں نے کرونا جیسے فوری موت کا باعث بننے والے وائرس کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس سنجیدگی سے ایک ڈاکٹر خاص طور پر ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لینا چاہیے تھا۔

جہاں وہ حکومت کو اس وائرس کی ہلاکت خیزی کے حوالے متنبہ کرنے میں ناکام رہے وہیں وہ نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں کو اس بات پر بھی قائل کرنے میں ناکام رہے کہ وہ کرونا سے متاثرہ مریضوں کا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایس او پیز کے مطابق علاج کریں،

نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے جس غیر انسانی اور نان پروفیشنل روئیے کا مظاہرہ کیا اگر ایسا کسی مہذب ملک کے ڈاکٹر کرتے تو ان کے خلاف کریمنل لیگل پروسیڈنگز شروع کر دی جاتیں مگر پاشا صاحب کے کمزور انتظامی سربراہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نشتر میں ایسی ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں کہ اگر وہ لوگ گھر رہتے تو نہ مرتے۔

پاشا صاحب نے خود اپنے علاج کے لیے نشتر پر ایک پرائیویٹ ہسپتال کو ترجیح دی جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ پاشا صاحب کہتے تھے کہ کرونا عام فلو جیسا ہے جو کہ ان کی پروفیشنل بد دیانتی تھی یا پھر لاعلمی، دونوں صورتوں میں وہ ایسا کہنے کے بعد ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہنے کے لئے نا اہل ہو گئے تھے۔

اگر کسی حکومتی دباؤ کی وجہ سے انہیں ایسا کہنا پڑا کہ اگر وہ نہ کہتے تو وی سی نہ رہتے اس حوالے سے خود دیکھ لیں وہ وی سی نہیں رہے اگر لوگوں کی جان کو فوقیت دیتے اور حکومتی دباؤ پر کہ کرونا عام فلو جیسا ہے نہ کہتے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے تو شاید حکومت اتنا بے رحمانہ سلوک کرونا سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ نہ کرتی۔

یا کم از کم ڈاکٹر پاشا صاحب خود کو حکومت اور نشتر کے ڈاکٹروں کے اپنائے گئے عمومی مجرمانہ رویوں جن کی وجہ سے کرونا کے مریضوں کا نشتر میں آج بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے سے خود کو مبرا قرار دے سکتے تھے لیکن افسوس مرحوم آج جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے کریڈٹ میں بطور ایک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ کے مریضوں کے علاج معالجہ اور ان کی جان بچانے کے جذبے کا فقدان تھا۔

نشتر کے ڈاکٹروں نے کتنی ایمانداری سے مریضوں کا علاج کیا ہے اس کا اندازہ نشتر کی ایک خاتون ڈاکٹر کی ہلاکت کے بعد اس کی ڈاکٹر بہن کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔

وہ شروع کے دن نہیں تھے بلکہ اٹلی، سپین، ایران، امریکہ اور دیگر ملکوں میں لوگ مر رہے تھے۔ آج بھی پتہ کر لیں کہ کرونا کے متاثرین کے ساتھ نشتر میں کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

 نشتر کے ڈاکٹر کہتے تھے کہ نشتر میں کرونا کے مریض نہ تو لائے جائیں اور نہ ہی رکھے جائیں

میڈیا نے اپنا کام کیا جو ہمیشہ ملتان کا میڈیا کرتا آیا ہے۔ بطور وائس چانسلر انہیں خود حکومت سامنے ڈٹ جانا چاہیے تھا وہ ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے نہ کہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا

%d bloggers like this: