اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

شکر ہے چین پاکستان نہیں ۔۔۔ وسعت اللہ خان

چین اگر بیس ہے تو انڈیا انیس مگر چین خوش قسمت ہے کہ وہ پاکستان نہیں۔

اگر انڈیا چین سرحد کی لمبان ساڑھے تین ہزار کلو میٹر ہے تو پاک انڈیا بارڈر کی طوالت بھی تین ہزار تین سو کلومیٹر سے کم نہیں۔ مگر چین کی خوش قسمتی کہ وہ پاکستان نہیں ورنہ اب تک جانے کیا سے کیا ہو چکا ہوتا۔

بیس فوجیوں کا مرنا اور وہ بھی کسی دہشت گرد یا خود کش کے ذریعے نہیں بلکہ مدِمقابل اصلی باوردی دشمن کے ہاتھوں ڈنڈوں، سریوں سے مرنا کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ملک کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جبکہ انڈیا کوئی چھوٹا ملک بھی نہیں۔

یاد نہیں جب 15 دسمبر 2001 کو انڈین لوک سبھا پر پانچ دہشت گردوں نے حملہ کر کے نو محافظ ہلاک کر دیے تھے تو جواب میں ایک بھی دہشت گرد نہیں بچ پایا تھا بلکہ افضل گرو سمیت پورا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا تھا۔

واجپائی حکومت نے محض زبانی احتجاج نہیں کیا تھا بلکہ عملاً پوری سرحد پر پوری فوج لا کے کھڑی کر دی تھی جو نو ماہ تک ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ تو امریکہ بیچ میں آ گیا اور اس نے انڈیا کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ جس طرح اس واردات سے دو برس پہلے کرگل مہم جوئی کے موقع پر انڈیا کا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔

جب چھبیس تا انتیس نومبر 2008 کو ممبئی دہشت گرد حملوں میں ایک سو چھیاسٹھ عام شہری اور نو دہشت گرد مارے گئے اور ایک زندہ پکڑا گیا۔ اس وقت بھی بظاہر پاکستان ان حملوں میں براہِ راست ملوث نہیں تھا مگر آج تک ان حملوں کے نتائج پاکستان کا پیچھا کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی عمارت سے واشنگٹن کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ تک اور اجمل قصاب کی سزائے موت سے سے لے کر مطلوب ملزم زکی الرحمان لکھوی اور حافظ سعید کی پاکستانی عدالتوں کے ذریعے گوشمالی تک ایک ایسا باب ہے جو بارہ برس سے کھلا ہوا ہے۔

اسی طرح 18 ستمبر 2016 کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب واقع اڑی چھاؤنی پر حملے میں انیس بھارتی فوجی اور چار حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ چند گھنٹے میں ہی انڈیا اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ میڈ ان پاکستان کارروائی ہے۔

چنانچہ ’گھس کے ماریں گے‘ کا نعرہِ مستانہ بلند ہوا۔

پاکستان سے ہر طرح کا سفارتی، سیاسی، تجارتی ثقافتی لین دین و رابطہ معطل ہو گیا۔ اس دوران مودی سرکار نے سرحد پار کوئی سرجیکل سٹرائیک بھی کی جس کا ریکارڈ آج تک کلاسیفائیڈ ہے۔ البتہ بالی وڈ اڑی اور سرجیکل سٹرائکس پر فلمیں بنا چکا ہے۔

جب 14 فروری 2019 کو کشمیری قصبے پلواما کے قریب ایک خودکش نے بارودی ٹرک اڑا دیا اور چالیس کے لگ بھگ انڈین نیم فوجی جوان ہلاک ہوئے تب بھی چند ہی گھنٹے کے اندر اندر خود کش کے قدموں کے نشانات اسلام آباد تک جاتے ہوئے پہچان لیے گئے۔

ایک بار پھر گھس کے ماریں گے کا غلغلہ ہوا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر انڈین فضائیہ نے بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائکس کیں اور اتنے دہشت گرد مار ڈالے کہ آج تک گنتی جاری ہے۔

پورا لوک سبھا الیکشن پلواما کے شہیدوں کے نام پر لڑا اور جیتا گیا۔ آج بھی جب کوئی کہتا ہے کہ پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ بحال کیا جائے تو دلیل یہ آتی ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

اس تناظر میں چین کی خوش قسمتی پر مزید رشک آتا ہے کہ وہ پاکستان نہیں۔ ورنہ اور کچھ نہیں تو پچھلے ایک ہفتے کے دوران ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی سرحد پر کہیں نہ کہیں تو انڈین توپ خانے نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی طرح اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہوتا۔

انڈین وزیرِ داخلہ امت شاہ نے سال بھر پہلے لوک سبھا میں سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ انڈیا نہ صرف پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر، گلگت و بلتستان بلکہ چین کے قبضہ سے اکسائی چن کا علاقہ بھی چھڑوائے گا۔ آج چین کہہ رہا ہے کہ لداخ کی وادیِ گلوان بھی اسی کی ہے۔ مگر امت شاہ چپ ہیں۔

بیس فوجیوں کی ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں ہوتی مگر ماضی کے برعکس اب تک لوک سبھا کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا۔ بیجنگ سے انڈین سفیر کو صلاح مشورے کے بہانے بھی واپس آنے کو نہیں کہا گیا۔ کسی جونئیر وزیر تک کے منہ سے یہ تک نہیں کہلوایا گیا کہ کرارا جواب ملے گا یا چن چن کے ماریں گے۔ یہ تک نہیں کہا گیا کہ انڈیا اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی ایسی کسی واردات کے بعد دن میں چوبیس بار پاکستان کا نام لے چکے ہوتے مگر پچھلے سات دن میں ان کے لبوں پر ایک بار بھی چین کا نام نہیں آیا۔ بس یہ فرمایا کہ شہیدوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔

کئی انڈین شہروں میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ چینی صدر کے پتلے، چینی کھلونے اور ٹی وی سیٹ بھی جلائے گئے ہیں مگر اب تک دلی سے یہ اعلان نہیں ہوا کہ انڈیا دوطرفہ تجارتی تعلقات عارضی طور پر معطل کر رہا ہے جیسا کہ پاکستان کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ برس سے معطل ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب تجارتی تعلقات کا دائرہ نوے ارب ڈالر سے بھی بڑا ہو۔ جب انڈیا میں چینی سرمایہ کاری کا حجم تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو۔ جب پاکستان کے علاوہ نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش اور برما سمیت کسی سے بھی ایسے مثالی مراسم نہ ہوں کہ ان پر بلاجھجھک تکیہ کیا جا سکے۔ اور جب چینی معیشت کا حجم چودہ ٹریلین اور انڈین معیشت کا حجم تین ٹریلین ڈالر ہو تو پھر گھس کے ماریں گے کا نعرہ مارنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان حالات میں کمہار کا غصہ گدھے پر ہی نکل سکتا ہے اور دھینگا مشتی کے بعد چور نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہونا ہی دانشمندی ہے۔ اتنی عقل تو پاگل میں بھی ہوتی ہے کہ کس کنگلے کے دروازے پر کب پتھر مارنا ہے اور کس چوہدری کے دروازے کو محض گھور کے نکل جانا ہے۔

سفید کرتا پاجامہ واسکٹ پہنے ایک صاحب گلی سے گزر رہے تھے کہ اوپر سے کسی نے باسی دال کی دیگچی الٹ دی۔ سفید پوش صاحب چیخے ابے ہمت ہے تو سامنے آ یہ بزدلوں کی طرح دال پھینک کر چھپ کیوں گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک چھ فٹا ہٹا کٹا پہلوان سیڑھیاں الانگھتا نیچے آیا۔ ہاں جی بتاؤ کیا تکلیف ہے؟

سفید پوش صاحب نے پہلے خود کو اور پھر پہلوان کو جانچا اور پھر متانت سے کہا ارے صاحب کچھ نہیں۔ آپ نے جو دال پھینکی وہ اتنی لذیذ ہے کہ سوچا آپ کو نیچے بلا کر اس کی ترکیب ہی پوچھ لیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

%d bloggers like this: