مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا،بدقسمتی ہے دونوں سائیڈز میڈیا سے رجوع کرتی رہی ہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ابتدا ہی میں کمرہ عدالت میں ڈرامائی ماحول تشکیل پاگیا جب ریفرنس میں نامزد ملزم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعلان کیا کہ ‏میں آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں،وہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں۔  انہوں نے بتایا کہ اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے جبکہ ‏اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے۔

عدالت اہلیہ کو وڈیو لنک پر موقف دینےکا موقع دے۔ ‏اہلیہ وڈیو لنک پرجائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ‏آپ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں ‏اس موقع پر  جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ  نےسماعت کی ۔

حکومتی وکیل فروغ نسیم نے آج بھی اپنے دلائل دیے اور کہا کہ عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، ہمیں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے،ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کر لے،ایف بی آر کے ساتھ درخواست گزار جج اور اہلیہ تعاون کریں۔

فروغ نسیم نے کہا گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جواب داخل کرایا،وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں، پراپرٹی ضبط کر کے پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا،بدقسمتی ہے دونوں سائیڈز میڈیا سے رجوع کرتی رہی ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا جج نے نہیں کہا یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں،جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا جج نے جواب میں وزیراعظم کے نام لندن کی پراپرٹیز بتائی گئی ہیں۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس قاضی فائز خود سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

جسٹس قاضی فائز نے فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت لی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جج صاحب آپ آئے  ہیں تشریف رکھیں۔

جسٹس فائز عیسی نے کہا مجھے میری اہلیہ نے ماسک ہمیشہ پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چہرے سے ماسک ہٹا دیا اور گویا ہوئے کہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کر رہا ہوں،یہ قاضی فائز عیسٰی کا مقدمہ نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے

 جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اہلیہ کا موقف عدالت میں پیش کرنے کی پیشکش کردی  اور کہا میری اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں موقف پیش کرنا چاہتی ہیں،وہ کہتی ہیں کہ وہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی۔ میری اہلیہ کہتی ہے کہ ایف بی آر کے سامنے کچھ نہیں بتائونگی۔

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی پیشکش پر مشورہ کرنے کیلئے سماعت میں 5 منٹ کا وقفہ کردیا

جسٹس فائز عیسی نے کہا  عدالت میری اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے موقف پیش کرنے کا موقع دے، حکومتی وکیل کہتے ہیں منی ٹریل آج بتا دیں کل بتا دیں,پہلے انھوں نے تسلیم کیا کہ ان جائیدادوں سے آگاہ ہیں،تسلیم کیا کہ یہ جائیدادیں میری اہلیہ اور بچوں کی ہیں,کیا لندن کو جائیدادوں کا چھپایا گیا؟ کوئی چیز جائیدادوں کو چھپانے کیلئے استعمال نہیں کی گئی۔ کہا گیا کونسل کسی شخص کی اہلیہ کو بلا سکتی ہے، جوڈیشل کونسل نے ایک بار بھی بلا کر میرا موقف نہیں سنا۔ حکومت کی جانب سے تاخیر سے جواب جمع کرائے گئے،حکومت ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، اگر جج بننے کا اہل نہیں تو آج ہی گھر بھیج دیا جائے,عدالت نے جو کرنا ہے قانون کے مطابق کرے, سابق اٹارنی جنرل نے کہا ساتھی ججز نے درخواست تیار کرنے میں مدد کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں التجا کرتاہوں کہ ان کے خلاف توھین عدالت کی کاروائی کی جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ھم نے توھین عدالت کی کارروائی کی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں اج اپنی اہلیہ کا اھم پیغام لایا ہوں۔ وہ جائیدادوں کے زرائع بتانا چاھتی ہیں۔۔ اہلیہ کے والد کو کینسر کا عرضہ لاحق ہے۔۔اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی ار نے ان کی تزلیل کی ہے۔ اہلہ ویڈیو لنک پر جائیداد سے متعلق بتانا چاھتی ہیں۔۔ عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر موقف دینے کا  موقع دے۔۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا آپ کی اہلیہ ھمارے لئے قابل احترام ہیں۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔

فروغ نسیم نے کہا جج صاحب سے میری کوئی دشمنی نہیں۔اگر مناسب جواب دیتے ہیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔میں جج صاحب اور ان کی اہلیہ کا بڑ احترا م کرتا ہوں۔میں نے کبھی معزز جج کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر اہلیہ جواب دیتی ہیں تو سارا عمل شفاف ہو جائے گا۔۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا  شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پر آ کر زیر التواء مقدمے پر بات کی،کونسل میں ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کردیا،حکومتی وکیل نے بتایا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہے جس سے 5 یا 6 ملین پاؤنڈ آتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا، ایسی بات نہیں ہے،جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا،ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں،آپ کے وکیل موثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں،آپ جذباتی ہو سکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں جذباتی نہیں ہوں۔

دوران سماعت وقفہ ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسی کمرہ عدالت میں  دوبارہ پہنچ گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسی فل کورٹ کے منتظر رہے ۔

وقفے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میری اہلیہ عدالت میں پیش ہوکر اپنا موقف دینا چاھتی ہیں۔ میری اہلیہ وکیل نہیں اور نہ ہی میں اس کا وکیل ہوں۔ میری اہلیہ کی درخواست ہے عدالت تسلیم کرے یا نہ کرے۔۔میری اہلیہ بیان دینا چاھتی ہیں۔میری اہلیہ اس کیس میں اصل متاثرہ فریق ہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا جج صاحب کے بیان پر غور کیا ہے,جج صاحب نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا،انکی اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا,تاہم ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کر کے موقف دیں,تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میری اہلیہ وکیل نہیں ہیں,میری اہلیہ کو کسی وکالت کی معاونت نہیں ہوگی,اہلیہ کہتی ہیں اکاونٹ بتانے پر حکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے,اہلیہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اہلیہ کا موقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں,انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے,میری اہلیہ کو ریفرنس کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے، میری اہلیہ کو عدالت کے سامنے موقف دینے کی اجازت ہونی چاہیے،میں اپنی اہلیہ کا وکیل نہیں انکا پیغام لیکر آیا ہوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا دیکھیں جج صاحب !

اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا میں یہاں جج نہیں  درخواست گزار ہوں،۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم آپ کی پیش کش پر مناسب حکم جاری کریں گے، اہلیہ کا پیغام ہم نے سن لیا ہے،

جسٹس فائز عیسی نے کہا میری اہلیہ کی استدعا کو تبدیل نہ کریں،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم اہلیہ کی زبانی موقف دینے کی پیش کش پر غور کریں گے،

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا اہلیہ کے موقف کے بعد باوجود میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا۔حکومتی وکیل نے کہا تھا کہ ایف بی ار والے جج صاحب سے ڈرتے ہیں۔ایف بی آر نے فیصلہ ھمارے حق میں دیا تو پہر یہی کیا جائے گا۔ عدالت میری اہلیہ کے بیان کے بعد ان سے سوالات کرسکتی ہے۔ منہ بند کرتے ہوئے اس ریفرنس کو برداشت کیا۔ ھر دن اس معاملے پر ٹی وی چینلز پر بحث کی گئی۔ اس معاملے پرصدر مملکت نےایوان صدر میں بیٹھ کر تین انٹریوز دیئے۔شھزاد اکبر، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ ایک دوسرے کو جھوٹا قراردیا۔میں منافق نہیں ہوں۔ جو کہتا ہو سچ کہتا ہوں۔اس معاملے میں میری اہلیہ کو کیوں الزام دیا گیا۔

جسٹس عمر بندیال نے کہا جج صاحب ھم اپ کا احترام کرتے ہیں۔ اب اپ تشریف رکھیں۔حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں یہاں جج کی حیثیت سے نہیں آیا ۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے کورٹ کی کاروائی میں مداخلت کی ہے۔ اگر آپ اپنے دلائل اپنے وکیل کے زریعے دیتے تو بھتر ہوتا۔عدالت اج اس معاملے پر اپنا حکم تحریر کر دے گی۔۔آپ اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر آئے۔اپ کے اہلیہ کا پیغام ھمارے شیڈول کو متاثر نہیں کرے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا میں نے حکومتی آفر قبول نہیں کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم اس کیس کو ایف بی ارکو بھیج رہے ہیں ۔یہ فل کورٹ کی پروسیڈنگز ہیں آپ بیٹھ جائیں۔۔ 9 ماہ میں ہم نے بھی کیس کی تیاری کی ہے، اسلئے کہتے ہیں کہ ریفرنس میں نقائص ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا ریفرنس کے خلاف درخواست کی قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا،جوڈیشل کونسل کو 29 مئی کو ریفرنس موصول ہوا،جوڈیشل کونسل نے 14 جون کو حکم جاری کیا جج نے 28 جون کو اپنا جواب جوڈیشل کونسل میں داخل کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا عوام سے کوئی بھی شخص جوڈیشل کونسل میں رائے کے بغیر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔صدر مملکت کو ریفرنس کونسل کو بھیجنے سے پہلے اپنی رائےکا تعین کرنا ہوگا۔ کونسل کو ریفرنس بھیجنے سے قبل صدر مملکت کو رائے بنانی ھوگی کہ ان کہ نظر میں مس کنڈکٹ ہواہے۔

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صدر کے سامنے رائے سے قبل مواد کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا جج کے مس کنڈکٹ کا آئین میں تعین نہیں، صدر مملکت کہہ دے کہ میری نظر میں جج کا مس کنڈکٹ ہے تو یہ دلیل بڑی خطرناک ہے۔

فروغ نسیم نے کہا شوکاز میں جن الزامات کا ذکر ہے وہ ہی ریفرنس میں درج ہیں ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ریفرنس غیر ملکی جائیدادوں کی ملکیت اور خریداری کے زرائع کا ہے۔ عدالت کونسل کی کارروائی میں نہیں جاسکتی۔ لگتا ہے کونسل نے بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ۔عدالت مالی معاملات پر جوابدہ ہے، ہر جج قابل احتساب ہے۔ منیر ملک نے رضا مندی دے دی تو ٹهیک. ہم ججز اپنی نجی اور پبلک لائف پر جواب دہ ہیں.عدلیہ کی ساکھ کو ایک جج کے باعث متاثر نہیں ہونے دیں گے. بنیادی سوال مالی امور کا ہے. اس سوال کا جواب لیا جائے گا.چاہیے قاضی فائیز عیسی کے وکیل اپنی رضا مندی نہ دیں.عدالت اس معاملے پر آگے بڑهے کی.

فروغ نسیم نے کہا ایک مرتبہ جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو وہ چیلنج نہیں ہوسکتی۔ آرٹیکل 211 کے تحت کونسل کی کاروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔درخواست گزار نے کونسل کے شوکاز نوٹس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں کی ۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کونسل کی کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن آپ شو کاز نوٹس پر انحصارکیوں کررہے ہیں،اس صورت میں ریفرنس کی ساکھ کیا ہوگی۔

فروغ نسیم نے کہا آرٹیکل 209کے تحت کونسل کے پاس مواد آنے پر ازخودکاروائی کا اختیار بھی ہے۔ جوڈیشل کونسل مواد ملنے پر جج کےخلاف کاروائی کرنے کی مجاز ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا جوڈیشل کونسل کے پاس ازخود کارروائی کا اختیار ہے تو کیا افتخار چوھدری کیس کا فیصلہ ختم ھو گیا ؟یہ دلیل بڑی خطرناک ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل کی ستائش کرتے ہیں۔ مناسب ھوگا کہ کہ بدنیتی پر بھی ساتھ میں دلائل دیں۔

فروغ نسیم نے کہا بدنیتی پر دلائل بھی دونگا اور معروضات بھی پیش کرونگا۔کونسل کے پاس جج کے خلاف کاروائی کے تین طریقہ کار ہیں۔ استدعا ہے کہ مجھے معروضات پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ عدالت پر زور نہیں ڈال رہا کہ میری بات کو مانا جائے۔افتخار چوھدری کیس میں شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔آرمی جنرل نے افتخار چوھدری کو بلاکر بٹھایا ، تذلیل کی۔ افتخار چوھدری کیس میں بد نیتی عیاں تھی۔ اس مقدمے میں بد نیتی کہاں ہے۔ الزام لگایا گیا کہ فروغ نسیم غیر جمھوری آدمی ہے۔اگر میں غیر جمھوری ہوتا تو پاکستان بار کونسل کا وائس چیئرمین منتخب نہ ہوتا۔ ان ساری باتوں سے بدنیتی کا کیس نہیں بنتا۔ 184/3کے تحت مواد سامنے آجائے تو کارروائی ہوتی ہے۔شاہ رخ جتوئی کیس میں تھرڈ پارٹی کی درخواست پر کارروائی کی گئی۔ ریفرنس غلط تھا یا درست اس پر کونسل ایکشن لے چکی ہے۔

جسٹس عمر بندیال نے کہا آپ کہتے ہیں ریفرنس چلا بھی جائے تو شوکاز نوٹس اپنی جگہ رہے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ  شوکاز نوٹس کے بعد کیا صدر مملکت ریفرنس واپس لے سکتے ہیں؟

فروغ نسیم نے کہا آرمی چیف کیس میں درخواست گزار کی استدعا کی درخواست کے باوجود مقدمہ واپس نہیں لینے دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرمی چیف کیس میں عدالت نے درخواست واپس نہ ہونے کا فیصلہ دیا۔جوڈیشل کونسل نے ریفرنس واپس ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت ریفرنس دائر ہونے کے بعد واپس نہیں لے سکتے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا شوکاز نوٹس ریفرنس میں لکھے حقائق پر جاری کیا جاتاہے۔ کونسل کا فیصلہ جج کے حق اور خلاف میں بھی ھو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ریفرنس بنانے میں بدنیتی ہے,وکیل درخواست گزار کہتے ہیں کہ بد نیتی کا جائزہ کونسل نہیں لے سکتی,

فروغ نسیم نے کہا درخواست گزار نے موقع گنوا دیا ہے,شوکاز نوٹس سے پہلے کارروائی کو چیلنج کرنا چاہئے تھا,

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا آئین صدارتی ریفرنس اور عمومی ریفرنس میں امتیاز کرتا ہے,کیا کونسل کہہ سکتی کہ وہ صدر مملکت کی بات نہیں مانتی؟ کیا کونسل صدارتی ریفرنس کو بغیر انکوائری ختم کر سکتی ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صدر مملکت کے ہاتھوں جوڈیشل کونسل قیدی نہیں بن سکتی,کونسل آئینی باڈی ہے کہہ سکتی ہے کہ ریفرنس بے بنیاد ہے،کونسل صدر مملکت سے جج کیخلاف کارروائی کیلئے مزید شواہد مانگ سکتی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا عدالت کے سوالات سے میں اپنے خیالوں کی ٹرین مس کر گیا،ایک ہی سوال بار بار پوچھا جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا معروضات پیش کرنا آپ کا حق ہے، سوال کرنا ہمارا حق ہے.

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا خیالات کو دوبار اکهٹا کر کے دلائل دیں.

جسٹس مقبول باقر نے کہا میری کمنٹمنٹ ہو گئی میں آپ سے سوال نہں پوچهوں گا. اگر فیئر بات کر دیں تو سوال پوچهنے کی ضروت نہیں ہو گی.ہم بهی تهک چکے ہیں معاملے کو مکمل کر نا چاہتے ہیں.

جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا جسٹس مقبول باقر صاحب کی بات کی میں بهی تائید کرتا ہوں.

فروغ نسیم نے کہا کونسل کے پاس مواد آ جائے تو کسی امتیاز کے بغیر جوڈیشل کارروائی کرنے کی مجاز ہے. صدر مملکت اور عام ریفرنس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے.جج کے خلاف عام شکایت کا جائیزہ کونسل کا ممبر لیتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صدارتی ریفرنس بهی جائزے کے لیے سنگل جج کو بهیجا گیا.

فروغ نسیم نے کہا صدارتی ریفرنس جائزہ کے لیے کونسل کے ممبر کے پاس نہیں گیا.

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ناراض نہ ہوں تو ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟

فروغ نسیم نے کہا بلکل پوچھیں ناراض ہونے والی بات نہیں،ججز کے خلاف بے وقعت درخواستیں نہ آئیں اس لیے رولز 7، 8،9 بنائے گئے ہیں، جوڈیشل کونسل عدالتی فورم نہیں ہے جو ڈیکلیئریشن دے،جب کونسل جج کیخلاف سفارشات دے تو سوچ بھی نہیں سکتے حکومت اتفاق نہ کرے، جوڈیشل کونسل کی سفارشات قیمتی نوعیت کی ہوتی ہے،

جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا جوڈیشل کونسل بدنیتی کے حوالے سے آبزرویشنز دے سکتی ہے،

فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل کسی قسم کی بھی ٓبزرویشن دے سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کونسل ایسے معاملات میں صدر مملکت کو سنے بغیر کیسے آبزرویشن دے سکتی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کونسل صدر مملکت کو بھی سمن کر سکتی ہے،

کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیاجس کے بعد جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری کو بھی کونسل نے نوٹس جاری کر کے طلب کیا تھا۔کیا آپکا مقدمہ یہ ہی ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے بعد آ رٹیکل 211کی رکاوٹ آ جاتی ہے؟

فروغ نسیم نے کہا شوکاز نوٹس کے بعد کونسل کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:سپریم کورٹ:صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

جسٹس مقبول باقر نے کہا ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے ،ایگزیکٹو کے اختیارات ک جائزہ لینے کیلئے عدالتی فیصلے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیاہے ۔ اس طرح تو آ ذادی عدلیہ کا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا ۔ یہ ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے ، اس ملک کی تاریخ اچھی نہیں رہی ،انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت ہوتی رہی ہے۔ ہم اپنی کوشش نہیں کریں گے تو تاریخ میں تباہ ہو جائیں گے ۔   سوال چیزوں کو  سمجھنے کیلئےکرتے ہیں۔ کسی شخص یا ادارے کیخلاف نہیں ہیں،

فروغ نسیم نے کہا کہ آپ آئین اور قانون کے ساتھ ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں،آپ کو ہماری نیت پر کوئی شک ہے ؟ شوکاز نوٹس کے بعد ایگزیکٹو کے اختیارات ضم ہو جاتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا افتخار چوہدری کے ریفرنس میں کونسل کی بات بھی کی گئی ہے، جوڈیشل کونسل کی تشکیل مکمل نہ تھی، ججز کو جہازوں پر لایا گیا تھا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا افتخار چوہدری کے کیس میں کچھ چیزیں سنگین تھیں۔ اس مقدمے میں بھی کچھ چیزیں سنگین ہیں،اگر ہم لکھنے پر آئے تو وہ چیزیں لکھیں گے،اس مقدمے میں کچھ طے ہونا ہے اس میں ہماری قربانی ہو جاتی ہے تو کوئی بات نہیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں بی این پی مینگل کی 4نشستیں ہیں۔ تین منتخب اراکین اسملبی اور ایک خاتون ممبر مخصوص نشستوں سے رکن اسمبلی بنی ہیں۔

%d bloggers like this: