مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‏سنتھیا ڈی رچی، ایک مشکوک کردار ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

‏سنتھیا کے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو جہاں ان الزامات میں بہت زیادہ تضاد موجود ہے وہاں ان الزامات کی ٹائمنگ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔

‏پچھلے ایک ہفتہ سے امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی کے پیپلز پارٹی کی قیادت پر رکیک الزامات ایک تواتر کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ پہلے شہید  محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بیہودہ اور گھٹیا الزامات سامنے آئے پھر چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی ذات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان الزامات کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی نے آئی ایس آئی اور دوسرے متعلقہ اداروں کو درخواست دے دی ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیقات کی جائیں کہ اس غیر ملکی خاتون کے الزامات کا مقصد کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سی قوت کام کر رہی ہے جس کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے یہ غیر ملکی خاتون قابل احترام قومی قیادت پر ببیہودہ الزام تراشی کر رہی ہے۔ ابھی یہ معاملہ کسی کروٹ نہیں بیٹھا تھا کہ اس عورت نے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پر ریپ اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین پر ہراسمنٹ کے الزام لگا دئیے ہیں جس سے معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ اب متعلقہ اداروں کے لئے لازم ہو گیا ہے کہ اس غیر ملکی خاتون کے بارے مکمل چھان بین کی جائے کہ ان غلیظ الزامات اور پروپیگنڈہ سے اس کا مقصد کیا ہے اور اگر کوئی سیاسی جماعت اس کو استعمال کر رہی ہے تو اس کو بھی سامنے لایا جائے۔ اس سارے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس کے پیچھے موجود کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔

‏سنتھیا کے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو جہاں ان الزامات میں بہت زیادہ تضاد موجود ہے وہاں ان الزامات کی ٹائمنگ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سنتھیا کے مطابق رحمان ملک والا واقعہ دو ہزار گیارہ میں پیش آیا جب رحمان ملک وزیر داخلہ تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنتھیا کو نو دس سال کے بعد یہ واقعہ کیوں یاد آیا؟ کیا اتنے سال وہ کوما میں تھی جو یہ واقعہ سامنے نہ لا سکی؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک امریکی خاتون کا پاکستان جیسے ملک میں ریپ کیا جائے اور وہ خاموش رہے؟ یقیننا ان سارے الزامات کے پیچھے کوئی مذموم مقصد ہے جس کا پتہ چلایا جانا بہت ضروری ہے۔

‏ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت اپنی نااہلی اور ڈلیور نہ کر سکنے کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے۔ ان سارے الزامات کا مقصد عوام کی توجہ حکومت کی ناکامیوں سے ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ کرونا کا بے پناہ پھیلاو، کرونا سے نمٹنے میں حکومت کی مکمل ناکامی، معیشت کی تباہی، مہنگائی، پاکستان سٹیل مل سے ساڑھے نو ہزار ملازمین کی برطرفی، حکومتی کرپشن جن میں حالیہ چینی آٹا اور آئی پی پیز سکینڈل شامل ہیں وہ عوامل ہیں جن سے عوام کی توجہ ہٹانا مقصود ہو سکتا ہے۔ اگلے سال کا مالیاتی بجٹ بھی ایک آدھ ہفتہ میں متوقع ہے۔ وفاقی بجٹ کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے بھی یہ الزامات حکومت کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

‏سنتھیا ڈی رچی پچھلے کوئی دس بارہ سال سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم ہے۔ اس تمام عرصہ کے دوران اگر سنتھیا کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو سنتھیا کا سوشل سرکل حکمران جماعت پی ٹی آئی اور کچھ سکیورٹی اداروں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ سنتھیا کے قریبی تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شائد ایک موقع پر سنتھیا پی ٹی آئی کی پالیسی اینڈ پلاننگ کمیٹی کے ساتھ پی ٹی آئی کی پالیسی بنانے پر بھی کام کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سنتھیا کے ساتھ تعلق کے شبہات کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ سنتھیا کے الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے لے کر سوشل میڈیا ٹیم تک سب سنتھیا کی حمایت میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے ہیں۔ سنتھیا کی حمایت میں ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اور سنتھیا کا آخر ایسا کیا باہمی تعلق ہے جو ساری کی ساری پی ٹی آئی دامے ورمے سخنے ایک غیر ملکی خاتون کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ بظاہر ان الزامات کا مقصد وفاقی حکومت کی ناکامیوں سے نظر ہٹانا ہی سمجھ میں آتا ہے اور اسی تناظر میں پی ٹی آئی اور سنتھیا کا گٹھ جوڑ اور تعلق بھی واضح نظر آتا ہے۔

‏پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی متعلقہ اداروں کو سنتھیا کے خلاف تحقیقات کے لئے درخواست کر چکی ہے کہ اس غیر ملکی خاتون کے پاکستان میں لمبے عرصے تک قیام اور حساس اداروں سمیت پی ٹی آئی کے ساتھ اس کے تعلق کی تحقیق کیجائے اور سچ عوام کے سامنے لایا جائے۔ یوسف رضا گیلانی، رحمان ملک اور  مخدوم شہاب الدین بھی الزامات کی تردید کرتے ہوئے سنتھیا کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب یہ عدالت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ سنتھیا کی قومی قیادت کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اور ملک دشمن سرگرمیوں کو بے نقاب کر کے اس کو ملک بدر کیا جائے۔

%d bloggers like this: