مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہرِ ملتان میں عید کے رنگ

نسل در نسل چلتی آرہی یہ ثقافت اب بس عیدوں کے موقع پر ہی نظر آتی ہے

تحریروتصاویر:ڈاکٹر سید مزمل حسین


وسیب ایکسپلورر کے قارئین کو عید الفطر مبارک ہو۔۔۔۔

گزشتہ رات ڈیوٹی کے لیے روانہ ہوتے وقت تک روزہ یا عید کا فیصلہ نہیں ہوا تھا لہذا حسبِ معمول سحری کا طعام ٹفن میں ساتھ لیا۔

بائیک سٹارٹ ہی کی تھی کہ کیمرہ کا خیال آگیا، اگر عید کا اعلان ہو گیا تو صبح واپسی پر ملتان شہر میں عید الفطر کی خوشیوں کا سماں عکسبند کر لوں گا۔

بیگم صاحبہ کے منع کرنے کے باوجود کیمرہ ساتھ رکھ لیا کیونکہ انکا غالب گمان تھا کہ دس بجنے والے ہیں اب تک اعلان نہیں ہوا تو اب مشکل ہی ہے کہ کل عید ہو۔

خیر ہم نے کان نہ دھرے اور کیمرہ ساتھ لے آۓ۔ ڈیوٹی پر پہنچ کر جراثیموں سے بچاؤ کی ذاتی حفاظتی کٹ اور ماسک وغیرہ پہن کر سیٹ پر براجمان ہوۓ ہی تھے کہ ٹن ٹنا ٹن موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئ۔

موبائل پر نظر ڈالی تو عیدالفطر کے اعلان کی بریکنگ نیوز، چاند رات اور عید مبارک کے ایمان افروز تہنیتی پیغامات کی برسات ہو رہی تھی۔

چاند رات کے موسلا دھار پیغامات پڑھ کر ہمیں یقینِ محکم ہو گیا کہ کل عید الفطر ہے اور ہمارا کیمرہ ساتھ لانا مفید ثابت ہوا۔

آج صبح بعد از ڈیوٹی نشتر ہسپتال سے نکلتے ہی کیمرہ بیگ سے نکال کر گلے میں لٹکا لیا تاکہ راہ چلتے عید الفطر کی مناسبت سے مناظر عکسبند کیے جاسکیں۔

گگو گھوڑے، معدوم ہوتی ثقافت:

سب سے پہلے شاہی عید گاہ کا رخ کیا کیونکہ عید کے موقع پر شاہی عید گاہ کے باہر دم توڑتی رنگ برنگی ملتانی ثقافت گگو گھوڑوں کے سٹالز آپکو اپنے بچپن کی حسین یادوں میں لے جاتے ہیں۔

نسل در نسل چلتی آرہی یہ ثقافت اب بس عیدوں کے موقع پر ہی نظر آتی ہے۔ رمضان شروع ہوتے ہی خانہ بدوش لکڑی، کاغذ، مٹی اور بھوسے کی مدد سے ثقافتی کھلونے گگو گھوڑے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔

ان میں گھوڑے، اونٹ اور ہاتھی کے ماڈل شامل ہوتے ہیں جو مختلف سائز میں بناۓ جاتے ہیں۔ عام طور پر 40 یا 50 روپے سے لیکر 500 روپے تک کا گگو گھوڑا ان سٹالز پر موجود ہوتا ہے۔

بچے ان سے کھیلنے جب کے ثقافتی اشیاء کا ذوق رکھنے والے احباب گھر میں سجانے کے لیے انکی خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں۔

عید گاہ کے اس پار دیدہ زیب ثقافتی رنگ بھکیرتے گگو گھوڑوں کے سٹال کی ایک لمبی لائن تھی۔ خانہ بدوش مرد، خواتین، بزرگ اور معصوم بچے اپنی ایک ماہ کی محنت یعنی گگو گھوڑوں کو فٹ پاتھ پر سجا رہے تھے۔

گگو گھوڑوں کے علاوہ لکڑی، مٹی اور کاغذ سے بنے دیگر کھلونے بھی تھے جن میں پرندے، ڈگڈگی، کلہاڑی، ہاتھ والے خوبصورت پنکھے شامل تھے۔

گاہکوں کی آمد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچے خوشی خوشی والدین سے ان کھلونوں کی خریداری کی فرمائش کر رہے تھے جبکہ گاڑیوں میں گزرنے والے راہگیر بھی گاڑی روک کر خریداری کر رہے تھے۔

خانہ بدوش کالو خان کا کہنا تھا کہ ہم یہ کام سالہا سال سے کرتے آرہے ہیں۔ عید گاہ کے سامنے یہ سٹال اس لیے زیادہ نظر آتے ہیں کہ یہاں ملتان میں نماز عید کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے

لہذا نماز سے فارغ ہو کر بڑی تعداد میں گاہک اس طرف رخ کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اب جدید کھلونوں نے ثقافتی کھلونوں کی جگہ لے لی ہے

اس لیے اب صرف عید پر ہی انکو بنایا جاتا ہے۔ گگو گھوڑے ہماری ایک مہینہ کی محنت ہوتی ہے جو عید کے تین دنوں میں وصول ہوتی ہے۔

لیکن لوگ پیسے دینے کے معاملے میں خوب بحث کرتے ہیں۔ اگر ہمارے فن کی پذیرائ نہ کی گئ تو آہستہ آہستہ سال بعد نظر آنیوالا یہ فن بھی معدوم ہو جائیگا۔

اگر آپ ثقافتی دستکاریوں کے دلدادہ ہیں تو شاہی عید گاہ کا رخ کریں، گگو گھوڑے خرید کر بچوں کی خوشیوں کا سامان اور خانہ بدوشوں کی معاونت کیجیے۔

چوک گھنٹہ گھر:

گھنٹہ گھر چوک کے گرد گاڑی اور موٹر سائیکل سواروں نے خوب رش کیا ہوا تھا۔ چوک کے گرد کھانے پینے کے سٹالز تھے جن میں دہی بھلے، گول گپے، آلو بہئ چنے، شربت وغیرہ کی ریڑھیاں کافی تعداد میں تھیں۔

ایک ماہ کے صبر کے بعد لوگ بازاری کھانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ بھوک برداشت کرنے کی ایک ماہ کی مشق کو ہم ایک دن میں ہی بھلا دیتے ہیں۔

عید کی نماز کے بعد بے دریغ سویاں، دہی بھلے،۔چھولے، مٹھایاں کھا کر دوپہر کو پیٹ پکڑے ہمارے پاس ایمرجنسی میں درد کے ٹیکے، طاقت کی بوتل اور فلیجیئل لگوانے بھاگے دوڑے آتے ہیں۔

صفائ پر مامور عملہ شہر کی صفائ میں مصروف عمل نظر آیا۔ عید کے موقع پر خدانخواستہ کسی بدامنی کو روکنے کے لیے پولیس کے دستے اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی گاڑی بھی حرکت میں نظر آئ۔

گھنٹہ گھر کے سامنے پھولوں کے سٹالز سے لوگ اپنے مرحوم رشتہ داروں کی قبر پر ڈالنے کے لیے پھول اور گلاب کی پتیاں خرید رہے تھے۔

ویسے تو ہم اپنے مرحومین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہی رہتے ہیں لیکن عید، بقر عید، شبِ قدر، عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم، شبِ برأت، عاشورہ وغیرہ پر قبرستان میں لواحقین کا رش زیادہ دیکھا جاتا ہے

جو ان خوشیوں کے دن یا مبارک ایام میں اپنے فوت شدگان کو ایصال ثواب پیش کرنے آتے ہیں۔

اندرون شہر ملتان:

گھنٹہ گھر چوک پر کچھ کلکس کے بعد لوہاری دروازہ سے اندرون شہر میں داخل ہوا۔موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے ہی کیمرہ سے کلکس لیے۔ لوگ عید کی نماز سے فارغ ہو کر گھروں کو جارہے تھے۔

اکثر لوگ کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری میں مصروف تھے کوئ رشتہ داروں میں سویاں تقسیم کرنے کو لے جارہا تو کوئ گھر کے لیے ناشتہ، عید کی مٹھائ، کیک، دہی بھلے وغیرہ خرید رہا تھا۔

راہگیروں کو راہ چلتے کوئ جاننے والا مل جاتا تو موٹر سائیکل روک کر یا گاڑی سے اتر کر گلے ملتے۔ اندرون شہر کے داخلی راستوں لوہاری گیٹ، بوہڑ گیٹ، حرم گیٹ، پاک گیٹ، دہلی گیٹ پر خاطر خواہ رونق دیکھنے کو ملی۔

سب سے زیادہ رش پاک گیٹ پر مشہور حلوہ پوری کی دکانوں پر تھا۔ مختلف راستوں سے شہر کی اندرونی گلیوں اور بازاروں کا رخ بھی کیا۔

بازار بند ہونے کے باعث ہماری بھار بھرکم بائیک باآسانی بازار میں منڈلاتی رہی وگرنہ عام دنوں میں بازار کے اوقات میں بائیک لے کر گزرنا محال ہو جاتا ہے۔

اندرون شہر کے معصوم بچے عینک، گھڑیاں، مصنوعی پستول اور دیگر کھلونے خریدنے اور جھولے جھولنے میں مصروف نظر آۓ۔

مصنوعی پستول یا بندوق کھلونوں کے فروغ سے میں اختلاف کروں گا کہ یہ معصوم بچوں کے ذہن میں دہشت گردی کا عنصر پروان چڑھا سکتے ہیں۔

اندرون شہر کے دورہ میں عید کی حقیقی خوشی ایک نوبیاہتا جوڑے کے چہروں پر دیکھنے کو ملی جو روایتی اقدار سے ہٹ کر بند دکانوں کے تھڑے پر بیٹھا کچوریاں کھانے میں مصروف تھا۔

کالا منڈی میں لیموں کی شکنجیں بنانے والے صاحب کی تصویر لی تو انہوں نے ایک گلاس ہمیں بھی پیش کیا۔ جھولے والے اور دکاندار ہمارے کیمرہ سے کچھ پریشان دکھائ دیے کہ شاید میڈیا والے آگۓ ہیں

اور ہماری شکایت کر دیں گے۔

صرافہ بازار، چوک بازار، گڑ منڈی، کالا منڈی اور شہر کے دروازوں کے گرد عکاسی کر کے واپسی کی راہ لی۔ بوہڑ گیٹ پہنچتے پہنچتے سورج کی تمازت بڑھ چکی تھی۔

ساری رات کی ڈیوٹی کے بعد اب نیند کا غلبہ بھی تھا۔ کیمرہ کو ملتانی گرد سے بچانے کے لیے واپس اسکی زنبیل میں ڈالا اور گھر کو لوٹا۔

ایصال ثواب براۓ شہداء طیارہ حادثہ کراچی:

آخر میں وسیب ایکسپلورر کے قارئین سے گزارش کروں گا کہ اس عید پر ہم عید سے قبل اندوہناک طیارہ حادثہ میں ہم سے بچھڑ جانے والے پاکستانیوں کے لیے سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص اور درود پاک پڑھ کر دعا کریں کہ

اللہ تعالیٰ ان شہدا کی مغفرت فرمائے اور انکے لواحقین کو اس ناقابل تلافی نقصان پر صبر و استقامت عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ تمام مسافروں کی ہر سفر و حضر میں حفاظت فرمائے، آمین ثم آمین

%d bloggers like this: