مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضلع رحیم یار خان کا تاریخی و تہذیبی منظر نامہ

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری


رقبے کے لحاظ سے پنجاب کا ”چوتھا” اور بلحاظ آبادی ”چھٹا” بڑا ضلع، رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ایک اہم زرعی، تجارتی اور کاروباری مرکز ہے، جس کے مشرق میں ضلع بہاولپور، مغرب میں ضلع راجن پور، شمال میں دریائے سندھ اور ضلع مظفر گڑھ جب کہ جنوب میں بھارتی ریاست راجستھان کا ضلع جیسلمیر اور صوبہ سندھ کا ضلع گھوٹکی واقع ہیں۔

اس ضلع کو ”گیٹ وے آف پنجاب” بھی کہا جاتا ہے، کیوںکہ نہ صِرف یہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے بلکہ جنوب سے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کو جانے والے تمام مرکزی راستے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ سفید سونا (کپاس)، رسیلے آم، گنا، خانپوری پیڑے اور بھونگ مسجد اس ضلع کی پہچان ہیں۔ 11،880 مربع کلومیٹر پر مشتمل اس ضلع کی آبادی لگ بھگ پچاس لاکھ کے قریب ہے اور اس میں چار تحصیلیں خانپور، لیاقت پور، رحیم یار خان اور صادق آباد شامل ہیں۔ ضلع کا ایک چھوٹا سا حصہ (ماچھکہ، صادق آباد) صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے اندر یوں واقع ہے کہ اس کے چاروں طرف صوبہ سندھ ہے۔

اس شہر کا پرانا نام ”نوشہرہ” تھا جسے بعد میں نواب آف ریاست بہاولپور کے ایک قریبی رشتے دار کے نام پر ” رحیم یار خان ” کا نام دیا گیا۔
800 سال پہلے جب محمد بن قاسم اور اس کی افواج ملتان کو فتح کرنے نکلیں تو ان کا گزر اِس علاقے سے ہوا۔ یہ اسلامی لشکر جہاں جہاں پڑاؤ ڈالتا وہاں وہاں عرب سے لائی گئی کھجور کی گٹھلیاں پھینکتا جاتا، نتیجتاً آج اس علاقے کے طول و عرض میں شان دار قسم کی کھجور وافر مقدار میں ملتی ہے۔ ان میں ”ججہ عباسیاں” کی کھجور کی مانگ پورے ملک میں ہے۔

محمد بن قاسم کے بعد شہاب الدین غوری نے ملتان اور سندھ کے دارالحکومت ”اْچ” کو فتح کیا اور یہاں اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالی۔ پھر سلطان شمس الدین التمش کے دور میں تقریباً 20 سال تک یہ علاقہ باغی گروہوں کا مرکز رہا۔ غوری سے کئی سال پہلے سلطان محمود غزنوی کا سومنات جاتے ہوئے اس علاقے سے گزر ہوا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تقریباً 328 قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کا قافلہ بھی عراق جاتے ہوئے اُچ سے گزرا تھا۔ غزنوی عہد کے بعد یہ علاقہ مختلف چھوٹے بڑے شہزادوں کے دور سے گزرا اور 1578 میں دہلی کے غوری سلاطین نے یہ علاقہ فتح کیا جن کو ہرا کر مُغل یہاں کے حکم راں بن بیٹھے۔

دوسری طرف اپنے ہزاروں پیرو کاروں کی ساتھ 1366 میں مصر سے آ کر سندھ میں آباد ہونے والے”امیر سلطان احمد عباسی” (جن کے بزرگوں میں سے ایک، عبدالعباس کو غیاث الدین محمد بن تغلق اپنا روحانی پیشوا تسلیم کر چکے تھے) کو سندھ میں پہلے سے موجود عربوں نے اپنا سربراہ تسلیم کر لیا اور ان کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ عباسی خاندان شمال کی جانب بڑھتا رہا اور آخرکار جیسلمیر کے حکم راں سے ایک زوردار جنگ کے بعد ”قلعہ ڈیراور” فتح کر لیا گیا اور عباسی خاندان نے یہاں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ عباسی خاندان کے مختلف نوابوں نے اس خِطے پر حکومت کی جن میں:

٭ امیر بہادر خان عباسی (1702-1690)،

٭ امیر محمد مبارک خان( 1723 1702)،

٭ نواب صادق محمد خان اول (1746- 1723)،

٭ امیر محمد بہاول خان اول (1750-1746)،

٭ امیر محمد مبارک خان عباسی دوم (1772-1750)،

٭ امیر محمد بہاول خان دوم (1809-1772)،

٭ نواب صادق محمد خان عباسی دوم (1826-1809)،

٭امیر بہاول خان سوم (1852-1826)،

٭ صادق محمد خان عباسی سوم (1853-1852)،

٭ پرنس فتح محمد خان ولد اپیر بہاول خان سوم (1858-1853)،

٭ پرنس رحیم یار خان جنہیں محمد بہاول خان چہارم بھی کہا جاتا ہے (1866-1858)،

٭ صادق محمد خان عباسی چہارم (1899-1866)،

٭ امیر محمد بہاول خان پنجم (1907-1899)،

٭ نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم (1955 اکتوبر- 1907فروری) شامل ہیں۔

تقسیم سے پہلے پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے ریاست بہاولپور کو بھارت میں شامل کروانے کی سر توڑ کوششیں کیں یہاں تک کہ بیکانیر اور اردگرد کے علاقوں کو ریاست میں شامل کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی مگر نواب صادق محمد عباسی بالکل نہ مانے اور کہا کہ بھارت میرے گھر کے پیچھے ہے جب کہ پاکستان سامنے۔ شریف آدمی ہمیشہ سامنے کا راستہ اختیار کرتا ہے اور یوں تقسیم کے وقت برِصغیر کی دوسری امیر ترین ریاست بہاولپور، مملکتِ پاکستان کا حصہ بنی۔ پاکستان بنا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے قومی خزانے میں روپیہ نہ تھا، تب ریاست کے والی نواب صادق محمد خان نے حکومتِ پاکستان کو ستر لاکھ روپے کی کثیر رقم اپنے خزانے سے ادا کی۔ کراچی میں قائداعظم جس “رولز رائس” کو استعمال کرتے تھے وہ بھی نواب صاحب نے تحفتاً قائد کو پیش کی تھی۔

رحیم یار خان دنیا کے ان چند تاریخی شہروں میں سے ایک ہے جو اپنے آغاز سے ہی اسی جگہ قائم ہیں جہاں وہ بسائے گئے تھے۔ مختلف ادوار میں اس شہر کو کئی ناموں سے نوازا گیا جن میں الور، پتن، پھول ودہ اور نوشہرہ شامل ہیں۔ رحیم یار خان کے موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ 1881 میں جب ریاست کے بارودخانے کو آگ لگی تو ریاست کا شہزادہ ”رحیم یار خان” اس حادثے میں مارا گیا جس کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا۔ دوسرا یہ کہ نوشہرہ نام کا ایک بڑا شہر خیبر پختونخواہ میں پہلے ہی موجود تھا جس کی وجہ سے اس شہر کا نام بدلنا ناگزیر تھا۔ 1905 میں یہ ٹاؤن کمیٹی، 1993 میں میونسپل کمیٹی اور 1943 میں اسے خانپور کی جگہ ضلع بنا دیا گیا تھا۔

طبعی خدوخال کے لحاظ سے ضلع رحیم یار خان کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مغرب میں راجن پور اور مظفرگڑھ کی حدود کے ساتھ ساتھ ”دریائے سندھ” بہتا ہے جس کے نشیبی علاقے کو ”کچے کا علاقہ” بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہے اور اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے جزیرے نظر آتے ہیں۔

اس کے بعد جنوب میں ضلع کے زرخیز میدان واقع ہیں جنہیں ”پنجند ہیڈورکس” سے نکلنے والی نہریں (پنجند کینال، عباسیہ کینال، آبِ حیات، عباسیہ لنک کینال) سیراب کرتی ہیں۔ منچن بند اس علاقے کو کچے کے علاقے سے الگ کرتا ہے۔ یہ خطہ پنجاب کے چند زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے جہاں تقریباً ہر قسم کی پیداوار ہوتی ہے۔

جنوبی حصہ ریگستان پر مشتمل ہے جو پاک بھارت سرحد تک پھیلا ہے اور پورے رقبے کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ اسے چولستان بھی کہتے ہیں اور روہی بھی۔ کہتے ہیں کہ چولستان ہمیشہ سے ہی صحرا نہیں تھا۔ آج سے تقریباً 1000 سال پہلے یہ انتہائی سرسبز و شاداب خطہ ہوا کرتا تھا جسے قدیم ”دریائے ہاکڑہ” سیراب کیا کرتا تھا۔ جو دریائے ستلج اور سرسوتی کا ایک معاون دریا تھا۔ پھر یہ ختم ہوتا گیا اور اب اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ لیکن بارش کے دنوں میں یہ کہیں کہیں ندی نالوں کی صورت بہنے لگتا ہے۔ آج چولستان کے کئی حصوں کو نہریں نکال کہ قابلِ کاشت بنایا جا رہا ہے۔

ضلع کی آب و ہوا گرم مرطوب قسم کی ہے۔ سردیوں کے مقابلے میں گرمیاں لمبی ہیں۔ رات کو البتہ موسم خوش گوار ہو جاتا ہے۔ اوسط سالانہ بارش 100 ملی میٹر ہے۔

جنگلی حیات و نباتات کے حوالے سے یہ خطہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ شمالی حصے میں ملک کے دوسرے دریائی اور میدانی علاقوں کی مخصوص جنگلی حیات ہے جب کہ جنوبی حصے میں صحرائی حیات کی بہتات ہے جن میں جنگلی بلی، گیدڑ، لومڑی، ہرن، اونٹ، خارپشت، جنگلی مور، جربو (چوہے کی نسل کا ایک چھوٹا بل کھودنے والا جانور)، مختلف اقسام کے سانپ، جنگلی چوہے، چکارا، عقاب، خنزیر، جنگلی بیل اور بہت سے منفرد رینگنے والے صحرائی جانور شامل ہیں۔ یہاں مرغابی اور ہرن کا شکار شوق سے کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ضلع امارات اور قطر سے آنے والے شیوخ کا پسندیدہ ترین ہے۔

اس ضلع کا شمار پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں کیا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً تمام قسم کی اجناس کاشت کی جاتی ہیں جن میں گندم، گنا، کپاس، چاول، جوار، چنا، سورج مکھی، باجرہ اور پیاز شامل ہیں، جب کہ پھلوں میں یہاں کی مشہور ترین سوغات آم ہیں۔ بہاولپور کی شاہی ریاست عمدہ آموں کی وجہ سے ہندوستان بھر میں جانی جاتی تھی۔ یہی علاقہ جو آج بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان کے اضلاع میں منقسم ہے۔ آج بھی ملک بھر میں اعلیٰ کوالٹی کا آم پیدا کرتا ہے جسے باہر بھی برآمد کیا جاتا ہے۔

آم کے بعد یہاں کا مشہور پھل کھجور ہے۔ مظفر گڑھ کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ کھجور رحیم یار خان میں پیدا ہوتی ہے جو پنجاب کی کل پیداوار کا 34 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ یہاں امرود، جامن، کینو، خربوزہ اور ترش پھلوں کے باغات بھی ہیں۔

ایک مضبوط زرعی بنیاد رکھنے اور تین صوبوں کے سنگم پر واقع ہونے کی بدولت آج یہاں کارخانوں کی بہتات ہے۔ ضلع کے طول و عرض میں کم وبیش 6 شوگرملز واقع ہیں۔ کاٹن بیلٹ کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہاں کاٹن جننگ کی بے شمار ملیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیل گھی، صرف اور صابن بنانے، ماربل بنانے، کھاد بنانے، آٹا پیسنے، خشک دودھ بنانے، پولٹری فیڈ، کوکا کولا بیورج فیکٹری اور ڈبل روٹی بنانے کے کارخانوں نے اس علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

معدنی دولت کے حوالے سے یہاں کوئی قابلِ ذکر دھات فی الحال نہیں ملی۔ البتہ گھریلو دست کاریوں میں چولستانی خواتین بہت مہارت رکھتی ہیں۔ اجرک، کھیس اور دریاں بنانے، مٹی کے برتن بنانے، کھجور کے پتوں اور چھال سے چٹایاں، ٹوکریاں اور پنکھے بنانے، کشیدہ کاری کرنے، دیدہ زیب ڈیزائن والی کڑھائی شدہ چادریں و بیڈ شیٹ بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

اب آتے ہیں علاقے کی بودوباش کی طرف۔ ضلع کی آبادی کا 60 فی صد ”ریاستی” ہیں جو یہاں کے آبائی لوگ ہیں جب کہ آبادکاروں کا تناسب 40 فی صد ہے۔ اس ضلع میں ہندوؤں کی تعداد پنجاب کے باقی ضلعوں سے (ماسوائے بہاولپور) زیادہ ہے جو زیادہ تر چولستان کے صحرائی علاقے میں رہتے ہیں۔ یہاں پنجابی اور دوسرے صوبوں سے آنے والے سندھی، بلوچی اور پٹھان سب باہمی یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں سرائیکی (62 فی صد)، پنجابی (27 فی صد)، اردو (3 فی صد)، سندھی (2 فی صد) سمیت پشتو، بلوچی، ماررواڑی اور دڑی زبانیں شامل ہیںَ۔

یہاں موجود بہت سے شہر اور قصبے وسیع تاریخ کے حامل ہیں۔ پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد، اپنی صنعتی ترقی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔ یہاں موجود کھاد (فوجی فرٹیلائزر)، کپاس اور چینی کے کارخانے بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ” میں شامل بھونگ مسجد بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے جو صادق آباد کے نزدیک ایک قصبے بھونگ میں واقع ہے۔

سردار رئیس غازی محمد نے یہ مسجد 1932 میں تعمیر کروانا شروع کی۔ آپ کے جد امجد حضرت بہاء الدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔ رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھر کے قریب 1932ء میں بھونگ مسجد کی تعمیر کے لیے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔

تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انہوں نے ذاتی دل چسپی لی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاری گروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مسجد 1932ء سے 1982ء تک تقریباً پچاس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاری گروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاری گر عمررسیدہ ہوگئے، کئی انتقال کرگئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمے داری سنبھالی۔ یوں تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔

مسجد کی تعمیر کے لیے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آجاتی اُس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی۔ کئی حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ء میں ایک نئے مسئلے کی نشان دہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنا کر اس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائے داری کے ساتھ خوب صورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔

مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ء میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کے کام کو آگے بڑھایا۔ 1982ء میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوتے ہی اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوب صورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 12 مئی 2004ء کو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ دل کش نقش و نگار‘ خوب صورت گل کاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔

صادق آباد شہر سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ”باغِ بہشت” نام کا ایک خوب صورت باغ ہے جو 75 ایکڑ سے زائد رقبے اور انواع و اقسام کے نباتات کے ساتھ اس علاقے کا سب سے بڑا باغ ہے۔

صوفیاء کی سرزمین اور قدیم شہر خانپور، (شاہپور ضلع سرگودھا کے علاوہ) ایک ایسی تحصیل ہے جو پہلے ایک ضلع ہوا کرتی تھی، اسے 1932 میں ختم کر کے رحیم یار خان کو ضلع بنایا گیا۔ یہ شہر عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید، حافظ الحدیث، معروف عالمِ دین اور تحریک ختمِ نبوت کے سپاہی مولانا محمد عبداللہ درخواستی، مشہور روحانی بزرگ ہستی مولانا سراج احمد دین پوری کی جنم بھومی اور ریشمی رومال تحریک کے بانی اور صوفی بزرگ مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کا جائے مدفن ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے یہ شہر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ لاہور اور کراچی کے وسط میں ہونے کی بدولت خانپور کافی عرصہ تک روہڑی اور خانیوال جنکشن کے درمیان کا سب سے بڑا ریلوے جنکشن رہا ہے جسے نوے کی دھائی میں ختم کر دیا گیا تھا۔ یہاں سے ایک ریلوے لائن چاچڑاں شریف کو جاتی تھی جو معروف صوفی بزرگ و شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کا مسکن رہا ہے۔

پورے ملک میں اس شہر کی شہرت ”خانپوری پیڑوں ” کی بدولت ہے۔ کھوئے، دودھ، بالائی اور پستے سے بنائے جانے والے خانپور کے پیڑے، ضلع رحیم یار خان کی مشہور سوغات ہیں۔ چوںکہ پاکستان میں خانپور نام کے تقریباً 8 شہر ہیں (تحصیل خانپور ضلع ہری پور، خان پور مرچانوالہ ضلع بہاولپور، خانپور ضلع شکارپور، خانپور مہر ضلع گھوٹکی، خانپور تحصیل میلسی ضلع وہاڑی، خانپورہ ضلع شیخوپورہ، خانپور شمالی ضلع مظفرگڑھ ، خانپور ضلع جعفرآباد) اس لیے تحصیل خانپور کو ”خانپور کٹورہ” بھی کہا جاتا ہے۔

اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ اس شہر کی ساخت ایک کٹورے کی مانند ہے دوسری یہ کہ ایک زمانے میں یہاں کے پیتل سے بنے کٹورے بہت مشہور تھے۔ بٹوارے سے پہلے جب موہن داس کرم چند گاندھی اس شہر سے گزرے تو یہاں کے ہندو تاجروں نے انہیں پیتل سے بنے کٹورے پیش کیے۔ خانپور کے شمال میں دریائے سندھ کے کنارے آباد چاچڑاں شریف کا قصبہ، گڑھی اختیار خان کا تاریخی قصبہ، خانپور کا گورا قبرستان، قدیم ریلوے اسٹیشن اور ڈاک بنگلے، ڈھنڈ گاگڑی جھیل، مقبرہ جٹکی قبرستان (جسے لوگ مائی صاحبہ کا مقبرہ بھی کہتے ہیں) اور جنوب میں چولستان کی ریت میں ایستادہ ”قلعہ اسلام گڑھ” اور ”نواں کوٹ” دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

قلعہ اسلام گڑھ پہلے ”بھیم وار” قلعے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسلام گڑھ کا قلعہ ”راجا راول بھیم سنگھ” نے 1665ء میں تعمیر کروایا جیسا کہ اس کے گیٹ پر باہر لکھا ہوا ہے۔ قلعہ کا تعمیراتی سامان اور پتھر ریاست جیسلمیر سے چھکڑوں پر لاد کر لایا گیا تھا۔ جبکہ اینٹیں مقامی طور پر بنائی گئیں تھیں۔ 1780 میں اختیار خان کے فتح کرنے کے بعد اسے اِسلام گڑھ” کا نام دیا گیا۔ ”

یہ قلعہ انڈیا کے بارڈر کے بالکل قریب واقع ہے جس کے دوسری طرف بھارتی شہر “کشن گڑھ” ہے۔ اس قلعے سے دراوڑ فورٹ تقریباً 170 کلومیٹر ہے۔ 1971 کی جنگ میں بھارتی شیلنگ سے اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ آج اس قلعے کے صرف کھنڈرات باقی ہیں۔

رحیم یار خان شہر کا ذکر کریں تو یہ شہر قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اس شہر کی جدت میں شیخ زاید بن سلطان النہیان مرحوم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ شہر ابوظہبی کے شیوخ کا پسندیدہ شہر ہے جہاں وہ ہر سال شکار کے غرض سے آتے ہیں۔ جہاں رحیم یار خان کا ابوظہبی پیلس، شیخ زاید ایئرپورٹ، خواجہ فرید انجینیئرنگ یونیورسٹی اور شیخ زاید میڈیکل کمپلیکس جِدت کے عکاس ہیں وہیں شہر کے شمال و جنوب میں واقع بگھلا فورٹ، سسّی کا مجوزہ شہر بھٹہ واہن، مؤ مبارک کا قلعہ، قدیم پتّن مِنارہ، بی بی کرم خاتون کا مقبرہ اور قلعہ بجنوٹ و ماچھکی اس شہر کی قدیم تاریخ اور عالیشان ماضی کا حصہ ہیں۔

رحیم یار خان سے جنوب کی جانب 8 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن مینارہ واقع ہے، پتن مینارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا، بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندر اعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں اک بہت بڑی درسگاہ تعمیر کی تھی جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندر اعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ہاکڑہ یا گھاگھرا پتن پور کے قریب سے بہتا تھا، سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا اور اسی دوران اس نے پتن مینارہ کی تعمیر کرائی۔

پتن پور تاریخ میں ہندومت اور بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے، اس کے کنارے بہنے والا دریا ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہو گیا، دریا خشک ہونے سے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی اور ایک وقت یہ آیا کہ پورا علاقہ ویران ہو گیا، بعض روایات کے مطابق پتن منارہ میں خزانہ دفن ہے، 1849ء میں ایک انگریز کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔

رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر موجود پتن مینارہ، آج صرف اینٹوں کا ایک مینار ہے، جو کسی وقت بھی زمین بوس ہونے والا ہے، قریبی گاؤں کے پچھلی طرف سے اس مینار کا راستہ ہے۔ احاطے میں داخل ہو کر سامنے پرانی سیڑھیاں ہیں، جو مینار کے اوپر تک جاتی ہیں۔ مینار کا کافی حصہ زمین میں دھنس چکا ہے، پتن پور تہذیب کی آخری نشانی پتن منارہ کی بحالی کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے لاکھوں کے فنڈز بھی جاری ہوئے مگر بات کاغذی کاروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر پتن منارہ کی حفاظت پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آنے والے چند سالوں میں اس کا شاید نشان ہی باقی رہ پائے۔

چولستان کی وسعتوں میں تاریخ کے کئی اِسرار دفن ہیں جنہیں آج تک کوئی پوری طرح نہیں جان سکا۔ لیکن ہم جیسے تاریخ کے متوالے کہیں نہ کہیں سے ان خزانوں سے جھولیاں بھر لاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک راز چولستان کے 22 قلعوں میں سے ایک ”قلعہ ماچھکی” ہے۔ رحیم یار خان شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع یہ قلعہ چولستان کی سُنہری ریت میں زندگی کے آخری ایام گزار رہا ہے۔ اِس قلعے کے کھنڈرات تک پہنچنے کے لیے آپ کو ابوظبی روڈ سے 9 کلومیٹر اندر صحرا میں سفر کرنا پڑتا ہے جہاں مختلف اقسام کے حشرات الارض آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ کچھ دور سے ہی آپ کو قلعے کا ٹوٹا ہوا دروازہ اور دو بُرج نظر آجاتے ہیں۔

قلعہ ماچھکی سنہ 1777 میں اختیار خان کے بیٹے ”لعل خان” نے بنوایا تھا۔ اِس کا مرکزی دروازہ مشرقی حصے میں رکھا گیا تھا جس کے دونوں طرف چھوٹی بُرجیاں بنائی گئیں تھیں۔ آج بھی اس دروازے کی ٹوٹی پھوٹی محراب کسی لاغر اور خمیدہ بوڑھے کی طرح جھکی ہوئی موجود ہے۔

قلعے کے چاروں کونوں میں ایک ایک بُرج بنایا گیا تھا جو دو منزلوں پر مشتمل تھا اور اب بھی قائم ہے۔ اوپر جانے کے لیے ایک خم دار زینہ نچلی منزل میں موجود تھا جس کا کوئی نشان اب نہیں ملتا۔ نچلی منزل میں مجھے کچھ ٹوٹے پھوٹے چوکور طاقچے بھی نظر آئے جو شاید ان دنوں شمع دان رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہوں گے۔ نچلی منزل کے گول گْنبد اب بھی اپنی دل کشی سمیت قائم ہیں۔ قلعے کی موجودہ دیواریں 6 فٹ تک چوڑی ہیں۔ مشرق اور مغرب کی دیواریں اب بھی قائم ہیں جب کہ شمالی و جنوبی دیواروں کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔

آج اس قلعے میں صرف چمگادڑوں کا بسیرا ہے۔ کبھی کبھار ہم جیسے آوارہ بھی بھولے بھٹکے یہاں نکل آتے ہیں۔ یہ قلعہ قریب موجود آبادیوں کے لیے ایک ویرانہ کم اور تفریح گاہ زیادہ ہے۔

ضلع کی آخری تحصیل لیاقت پور ہے جو ضلع بہاولپور کے تاریخی مقام ”اْچ شریف” کے قریب واقع ہے، جب کہ ایک اور مقام، ہیڈ پنجند بھی اس شہر کے ساتھ واقع ہے۔ لیاقت پور ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کا نام پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اور آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ریاست بہاولپور کا واحد شہر ہے جس کا نام ریاست کے باہر کی کسی شخصیت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس شہر کے جنوب میں چند پرانے قلعوں کے کھنڈرات واقع ہیں۔

ان میں سے ایک قلعہ خیر گڑھ ہے جو آبادی سے میلوں دور ایک ویرانے میں لاغر و نحیف سا کھڑا ہے، جس کے برج عنقریب روہی کی ریت میں ملنے والے ہیں۔ ماضی کی کہانی سناتا یہ چھوٹا سا قلعہ دیراوڑ کے قلعے سے 64 میل دور مغرب اور شیخ خلیفہ بن زید کے سلووالی فارم (تحصیل لیاقت پور) سے چند میل دور جنوب میں واقع ہے جس کے بالکل پاس ایک بزرگ حیدر شاہ بخاری کا مزار بھی ہے۔

بہاولپور گزیٹر کے مطابق یہ قلعہ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان مندھانی داؤد پوتہ نے 1776 میں تعمیر کرایا تھا اور اس کا نام قلعہ خیر گڑھ رکھا تھا۔ یہ قلعہ بھی چولستان کے دیگر چھوٹے قلعوں کی طرح دفاعی وجوہات کی بنا پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کا ایک اور مقصد بھی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ میلوں تک پھیلے اس لق ودق صحرا میں کوئی آبادی یا سرائے کا نام و نشان نہ تھا۔ چناںچہ خوانین اور راجوں کے لمبے سفر کے دوران رہائش اور دوسری بنیادی انسانی ضروریات کے پیشِ نظر یہ چھوٹے چھوٹے قلعے تعمیر کیے گئے ہوں گے۔

کہتے ہیں کہ اس قلعے میں جنات کا بسیرا ہے۔ یہ بات کسی حد تک سچ بھی معلوم ہوتی ہے کیوںکہ یہ تباہ حال قلعہ نہ صرف ایک ویرانے میں واقع ہے جہاں کسی آدم زاد کی رہائش نہیں ہے بلکہ یہاں جانوروں کی آلائشیں بھی بکثرت موجود ہیں جو ان مخلوقات کی غذا بھی ہے۔

یہ تمام قلعہ کچی اور پکی اینٹوں سے بنا ہوا تھا اور اس کے اندر ایک پکا تالاب بھی تھا۔ قلعہ کی فصیل کے کچھ حصے پکے بھی تھے۔ داخلی پختہ دروازہ تھا جس کے اوپر رہائشی حصہ بھی تھا۔ قلعے کا داخلی دروازہ تو اب بھی قدرے بہتر حالت میں ہے جس پر پکی اینٹوں سے بنا خوب صورت ڈیزائن آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مستطیل قلعے کے چاروں کونوں میں مٹی اور اینٹوں سے بنا ایک ایک برج ہے جو تعمیری لحاظ سے خود ایک شاہ کار ہیں۔ ان کے خوب صورت گول گنبد نے مجھے پہلی ہی نظر میں مبہوت کر دیا۔ قلعے کے درمیان میں ریت اور مٹی کے سوا کچھ نہیں لیکن اس کی دیواریں اب بھی قائم ہیں اور ہمارے اربابِ اختیار خصوصاً “محکمہ آثارِقدیمہ” کی بے حسی اور بے پرواہی پر منہ چڑا رہی ہیں۔

یہ قلعہ اگر کسی مرکزی گزرگاہ اور بڑے شہر میں ہوتا تو یقیناً سیاحوں کی توجہ کا محور ہوتا اور حکومتی کی زیرِسرپرستی محفوظ ہوتا لیکن افسوس یہ چولستان میں ہے جس کے مقدر میں ہی نظرانداز ہونا لکھ دیا گیا ہے۔

ضلع رحیم یار خان نہ صرف پیداوار بلکہ صوفیاء، شعرا، قلم کار اور سیاست دانوں کے حوالے سے بھی زرخیز رہا ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیات میں حضرت خواجہ غلام فرید (مشہور صوفی بزرگ اور شاعر)، مولانا عبید اللہ سندھی (بانی تحریک ریشمی رومال)، چوہدری عبدالمالک مرحوم، ہارون الرشید (کالم نگار)، مخدوم حسن محمود ( سابق وزیر اعلیٰ ریاست بہاولپور)، مولانا محمد عبداللہ درخواستی (معروف عالمِ دین اور تحریک ختمِ نبوت کے اہم رکن)، مولانا سراج احمد دین پوری (عالمِ دین اور روحانی بزرگ)، مخدوم سید احمد محمود (سابق گورنر پنجاب، سیاست داں)، مخدوم خسرو بختیار (سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور)، آئمہ بیگ (سنگر)، چوہدری جعفر اقبال گجر (سینیٹر پاکستان مسلم لیگ ن) ، اقراء خالد (ممبر کینیڈین پارلیمنٹ) ، مخدوم شہاب الدین (سابق وفاقی وزیر پاکستان پیپلز پارٹی) اور مشہور سماجی ورکر و آرٹسٹ منیبہ مزاری شامل ہیں۔

%d bloggers like this: