مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی صوبے کا بظاہر دُور افتادہ ایک گاؤں

یہاں کا پہلا شاعر تو ایک حیات کمہار تھا.... صدیوں پہلے لیکن آج بھی ان کے کسی نہ کسی بچے میں سُر شناسی اور شعر فہمی کی خوشبو آتی ہے.

ملک رزاق شاہد


پانچ ہزار کے قریب نفوس اور… سرائیکی صوبے کا بظاہر دُور افتادہ ایک گاؤں

لیکن….
یہ کیا وکلاء کا شہرہ،
پٹواریوں کا طنطنہ اور شعراء کی محافل…. دیکھنے لائق
حیرانی تو ہوتی ہے کہ…
مولا کہیں عرض فلسطین کی طرح ساہن والا پر تیرا دل تو نہیں آ گیا…

سندھو سائیں کی طغیانیوں سے لڑتا…
ہیڈ تونسہ سے نکلنے والی ڈی جی کینال داجل اور لنک تھری میں منقسم ہوئی تو بجائے میٹھے پانیوں کے.. نصیبے میں سیم و تھور سے یُدھ کرتا یہ قصبہ … مجاز صاحب جیسے درویشوں کے پُرکھوں کا مسکن بنتا ہے …
نا شاہد صاحب!
ہم تو غریب تھے خدائی خان گوپانگ ہمیں اپنے ساتھ لے آیا تو ہم نے یاں بسیرا کیا..
حیرانی سے
عقائد کے طالب،
مارکس کے حافظ،
شعراء کے استاد،
مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ
مجاز صاحب کی طرف دیکھا….. کہ عجب آدمی ہے اپنی فقیری، اپنی سادگی پہ نازاں ہے ورنہ تو پدرم سلطان بود سنتے دماغ سن ہو جاتا ہے.

یہاں کا پہلا شاعر تو ایک حیات کمہار تھا…. صدیوں پہلے لیکن آج بھی ان کے کسی نہ کسی بچے میں سُر شناسی اور شعر فہمی کی خوشبو آتی ہے.
اور ساہن والے میں سرائیکی مشاعروں کی شروعات ساٹھ کی دہائی سے ہو گئی تھی اور آج بھی…. یہ سلسلہ جاری ہے.
حافظ گلاب، سعید خان اور جاوید آصف کے شعری مجموعے چھپ چکے ہیں بلکہ جاوید آصف کے سریلے انداز کا ایک زمانہ معترف ہے

یہاں سعید خان بولے…
سر…
لوٹی جندرے (تالے) کا موجد ممدا لوہار بھی تو ساہن والے کا بیٹا تھا..
اور نور محمد درکھان کی بنائی چارپائیوں کا شہرہ دور دور تک.

ارے ذبح اللہ اپنا ریونیو ریکارڈ تو کھولو…
کیا لکھا ہے
ہمارے ریونیو ریکارڈ کے مطابق
سترہ سو بارہ سے آباد ہے ہمارا گاؤں…
ٹبہ دو راس جاموس…
بھینسے کو فارسی میں جاموس کہتے ہیں سرائیکی میں ساہن…
اسی لئے ساہن والا معروف ہوا

وہ جو دو بیلوں کے لڑنے کے قصے ہیں وہ خالی کہانیاں نہیں… یاں حقیقت ہے.

پھر خانیوال اور ملتان سے مڑل آئے… ٹنگر اور ڈیسی آباد ہوئے.. آرائیاں، جوئیے اور پٹھانوں نے ڈیرہ ڈالا اور ہمارے ساتھ بیٹھے سعید خان دریشک کے بڑے بھی یاں آباد ہوئے
پہلا وکیل تو ملک غلام رسول ٹنگر بنا تو علی محمد دریشک اور مہار شفیع نے بھی کمر کس لی.
الہی بخش خان، قاضی منظور، ملک کریم بخش اولین پٹواریوں میں شامل تھے.
شاید پورے سرائیکی دیس میں اتنا کم آبادی نے اتنے زیادہ وکلاء، پٹواری اور شعراء پیدا کئے ہوں
یاں مسلکً دیوبندیت کے سبب انیس سو ستائیس میں مڈل پاس کرنے کے باوجود ہمارے نانا جان نے گورے کی ملازمت قبول نہ کی
بلکہ… تحریک ریشمی رومال کے قافلے بھی یہی رکتے رہے … ولی پولی اور مڑل حضرات کا دین پور سے ربط اسی سبب رہا ہے
عبداسمیع مجاز صاحب کہنے لگے.

ساہن والا کی مٹی نے گوکل داس کو بٹوارے میں بھی تقسیم نہ ہونے دیا.
بھائیوں نے اصرار کیا ہمسائے سمجھانے کو آئے زوجہ نے ترلے کئے…. دیش بٹ گیا ہے.. اب گھر بھی بٹیں گے وطن بھی چُھٹیں گے…. چلو اپنے ہم مسلکوں کے باڑے میں.
گوکل بولا.. ٹھیک ہے پھر ساہن والا گلیاں بھی لے چلو… ساہن والا خوشبو بھی باندھ لو… پھر چلتے ہیں.
نارو آلہ کا مرید گوگل خونی رشتوں کو وِدا کر بیٹھا… وطن کی مٹی گلے لگانے کی خاطر… اسی مٹی میں دفن ہوا

مولوی الف دین کی خدمات بھی یاد رکھنے لائق ہیں.. ریخ باغوالہ سے ایسے آئے کہ یہیں کے ہو رہے… بعد میں یہیں پرائمری سکول کے معلم بھی رہے لیکن اس سے قبل وہ گھر میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کر چکے تھے… تعلیم سے روشناس کرانے والے اولین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے.

اقبال کے شعر اور مولوی لطف علی کی سیف الملوک کا حافظ رحمتو سنارا ہمارے ہی ساہن والے کا رہائشی تھا.
ایک طرف اس کی حسِ مزاح کے چرچے تھے تو دوسری طرف شاعری سنانے پر آتا تو سماں باندھ دیتا.
جاوید آصف بولے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ کسی درس، مکتب کا پڑھا ہوا بھی نہیں تھا..

جب ان کی سنارے کی دکان لُٹی… تو علی محمد دریشک نے چوروں اور رحمتو کے بیچ صلح کرانے کے بعد پوچھا رحمتو…
سنا ہمارا فیصلہ ٹھیک ہے….
کہنے لگا سردار صاحب آپ کا فیصلہ سن کر یاد آیا کہ ایک ہندو گلی میں بندھی اپنی گائے کو چارہ ڈالتا تو ہمسائے کا گدھا کھا جاتا تھا… آخر تنگ آکر بھگوان سے التجا کی کہ اس گدھے کو مار دے..
اگلے دن ہندو کی گائے مر گئی…
حیران ہوا تو گلی سے گزرتے ایک نابینا کا ہاتھ پکڑ کر مری ہوئی گائے پر رکھا اور پوچھا یہ کونسا جانور ہے نابینا نے کہا گائے…
پھر گھاس کھاتے گدھے پر رکھا تو وہ بولا یہ گدھا ہے…
اس پر ہندو بولا..
اے بھاگوان… اندھوں کو بھی گدھے اور گائے کا فرق معلوم ہے پر تجھے نہیں..
سردار صاحب شالا کمزور کوئی نہ ہووے…

مجاز صاحب بولے اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ہم کئی نسلوں سے مقامی سرداروں کے ڈسے ہوئے ہیں.

%d bloggers like this: